یہ جملہ اگرچہ محاورہ نہیں ہے مثل ضرور ہے کہ جب کسی کی طرف سے بے وفائی ہو تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تو بڑا طوطا چشم ہے اس کہاوت کا پس منظر یہ ہے کہ مشاہدے میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ اپ طوطےکتنی ہی چاہت سے پالے کتنا ہی مہنگا اس کا پنجرہ بنائیں چاہے وہ سونے کا ہی کیوں نہ ہو دن رات محنت کر کے اسے جملے رٹائیں دیسی گھی کی چوری کھلائے خشک میوہ جات کھلائے دن رات اس کے چونچلے اٹھائے برسوں سے پنجرے میں رکھیں لیکن جہاں کبھی پنجرے کا دروازہ کھلا رہی ہے تو یہ پنجرے سے فرار ہونے میں چند سیکنڈ بھی نہیں لگائیں گے اس پنجے کے اندر ان کو جتنی بھی راحت اور عشرت میسر سی سب کو چھوڑ چھاڑ ڈالی ڈالی اڑتے پھریں گے جس شخص نے اس کی خدمت کی ہوتی ہے دن رات ایک کیا ہوتا ہے اسے قیمتی قیمتی چیزیں کھلائی ہوتی ہیں بڑی محنت و مشقت سے اسے جملے رٹائے ہوتے ہیں اسے مالک کی احسان مندی کا کوئی احساس نہیں ہوتا ویسے یہ ایک حقیقت ہے کہ طوطےکو بے وفائی کی علامت قرار دینا حماقت ہی نہیں ظلم و جبر کی بات ہے تو طا ہرگز بے وفا پرندہ نہیں ہے بلکہ وہ اپنی ازادی کو کسی بھی قیمت پر سودا کرنے کو تیار نہیں ہوتا چنانچہ برسوں کا ساتھ لمحوں میں ترک کر دیتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ ازادی سے زیادہ کوئی شے قیمتی اور قدر و منزلت والی نہیں ہے وہ سب عیش و ارام قربان کر دیتا ہے ازادی پر دنیا میں ازادی کے لیے بیش بہا قیمتی قربانیوں کی بہت عمدہ مثالیں موجود ہیں تازہ ترین مثال غزہ کی پٹی کی ہے کہ فلسطینی بھوکے مر رہے ہیں مگر وہ اذادی کا سودا کرنے کو تیار نہیں ہے جہاں تک بے وفائی کا تعلق ہے تو یہ یقین کر لینا چاہیے کہ بے وفا وہی ہوتا ہے جس کے رگ و پے میں بغاوت کا خون تیر رہا ہو افغانستان کے عوام کو ان کی جدوجہد ازادی گو سلام پیش کرتے ہیں کہ دنیا کی تین بڑی طاقتوں یعنی اپنے زمانے کی سب سے بڑی طاقتوں کو کھدر پوش افغانیوں نے شکست دی لیکن ان کے ساتھ ہمیشہ دوست بن کر بڑی طاقتوں نے بغاوت کی دھوکہ کا دیا فریب کیا جب سویٹ یونین نے افغانستان میں فوجی مداخلت کی تو اس وقت مغربی دنیا کے تمام بڑے ممالک کو لالے پڑ گئے کہ یہ کیا ہو گیا روز تو نیلے پانی کے قریب پہنچ گیا ہے لیکن یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ وہ نہتے عوام جو روٹی کے ایک ٹکڑے کو ترستے تھے انہوں نے اپنی ازادی کے لیے بے ننگ و پیر ہوتے ہوئے بندوق اٹھا لی اس وقت ساری دنیا حیران و پریشان تھی کہ اب کیا ہوگا یہ بھروسہ بھی نہیں رکھتے تھے کہ افغانستان کے عوام گدڑی میں لعل ہے یہی امریکہ جو بعد میں خود کو افغان مجاہدین کا سربراہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے دو سال تک اس نے افغانستان کے عوام کی پوڑی کوڑی بھی مدد نہیں کی صرف یہ دیکھتا رہا کہ افغانستان کے جالے بہادر حریت پسند عوام دنیا کی سب سے بڑی طاقت سویٹ یونین کے سامنے کب تک سینہ تانے کھڑے رہیں گے اور جب یقین ہو گیا تب امریکا نے مجاہدین افغانستان کی حمایت کی لیکن پس تو پشت کے ساتھ سامنے انے کی اس کی ہمت سویٹ یونین کی شکست تک نہیں بنی
خیر افغانستان کی تاریخ کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں اصل بات یہ ہے کہ امریکا کا کردار ہمیشہ یہ رہا ہے کہ اس نے اپنے غریب اتحادیوں سے مطلب براری حاصل کر کے پھر انہیں ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا یہی سلوک ان کا افغانستان کے ان احواریوں کے جنہوں نے طالبان کے مقابل ہو کر امریکہ کی بھرپور مدد کی
صدر ٹرمپ کی افغان تارکین وطن پالیسی اور اتحادیوں سے غداری کا پہلو
2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد ہزاروں افغان شہریوں نے امریکی افواج اور حکومت کی مختلف سطحوں پر حمایت کی — مترجم، مشیر، محافظ، وغیرہ کی حیثیت سے۔ ان افراد نے طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں کے خلاف امریکی موقف کی پشت پناہی کی۔
جب ۲۰۱۶ میں ڈونلڈ ٹرمپ برسرِ اقتدار آئے، تو انہوں نے تارکینِ وطن کے لیے سخت پالیسیاں نافذ کیں، جن میں کئی مسلم ممالک پر سفری پابندیاں، اور افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی کوششیں شامل تھیں۔
یہ اقدامات ان افغان اتحادیوں کے لیے "غداری” کی حیثیت رکھتے ہیں جنہوں نے امریکی افواج کے ساتھ مل کر خطرات مول لیے تھے۔ انہیں تحفظ دینے کی بجائے ملک بدر کرنا، ان کی وفاداری کو سزا دینے کے مترادف تھا۔
یہ اقدام نہ صرف اخلاقی ناکامی ہے بلکہ اتحادی اقوام کے ساتھ اعتماد کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔گویا امریکہ نے ثابت کیا کہ وہ ایک ناقابل اعتماد دوست ہے جس کو صرف اپنے مفادات اور اپنی مطلب براری عزیز ہے اس کے لیے چاہے کتنی ہی کوئی قربانی دے اسے اس سے کوئی غرض نہیں جب امریکہ طالبان کے سامنے ہاتھ جوڑ رہا تھا کہ اس کو افغانستان سے نکلنے کے لیے محفوظ راستہ فراہم کیا جائے ان لمحات میں وہ طالبان سے محفوظ راستے کے لیے شرائط طے کر رہا تھا اس موقع پر اسے اپنے حواریوں کا قطعی خیال نہیں ایا کہ جب وہ افغانستان سے انخلا کرے گا تو اس کے حواریوں کا کیا بنے گا ان کے تحفظ کے لیے اس میں ایک لفظ بھی نہیں کہا اور یہی ہوا کہ امریکی ان خلاف کے وقت ان کا کٹھ پتلی حواری اشرف غنی اربوں ڈالر لے کر فرار ہو گیا اور سب کو تنہا چھوڑ گیا طالبان کے خوف سے قابل ایئرپورٹ کی طرف ایک دوڑ لگ گئی سینکڑوں افراد کی جانیں گئیں لوگوں میں اس قدر خوف و حراس تھا کہ جہاز جو چل پڑا تھا اس کے پہیے پکڑ کے لوگ لٹک گئے اور اور اپنے جسم کا بوجھ برداشت ننگی کر سکے لہذا سینکڑوں فٹ کی اونچائی سے نیچے اگرے۔
ٹی پی ایس کا خاتمہ اور امریکی اسٹریٹجک و اخلاقی ذمہ داریاں
Temporary Protected Status (TPS)
یہ ایک امریکی پروگرام تھا جس کے تحت مخصوص ممالک کے شہریوں کو امریکہ میں عارضی رہائش کی اجازت دی جاتی تھی جب ان کے وطن میں جنگ، قدرتی آفات یا دیگر بحران موجود ہوتے۔ افغان شہری اس زمرے میں آتے تھے۔یہ بات تو کسی حد تک درست ہے لیکن یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ان کہ ملک میں بحران کیوں اور کس وجہ سے پیدا ہوا اور اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی اور اقدار کی اس امر کا تقاضہ رکھتے ہیں لیکن ہوا کیا کے ٹی پی ایس کے خاتمے سے یہ اثرات رونما ہوئے کہ ہزاروں افغان شہری جلاوطنی یا غیر قانونی حیثیت میں آ گئے، حالانکہ وہ کئی برسوں سے امریکی سر زمین پر رہ رہے تھے۔
یہ قدم امریکی اسٹریٹجک مفادات کے بھی خلاف ہے،
طالبان حکومت کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے عالمی برادری کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ افغانستان اب پرامن اور معاشی طور پر مستحکم ہے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں:بین الاقوامی اداروں کے مطابق، افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی خوراک کی قلت کا شکار ہے۔خوراک کی ایک قلت قحط کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے ہے۔کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے افغانستان میںبینکنگ سسٹم مفلوج ہے، اور کرنسی کی قدر مسلسل گر رہی ہےـ
2024ء کی امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق، افغانستان اس وقت امریکہ کے لیے ترجیحی خطرہ نہیں، لیکن وہاں القاعدہ اور داعش کے عناصر کی دوبارہ موجودگی سے خدشات موجود ہیں۔
سابق افغان عہدیداروں کو سزائیں اور ملک بدری کے خطرات
اقوامِ متحدہ، ہیومن رائٹس واچ، اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹس میں درج ہے کہ طالبان نے حالیہ مہینوں میں درجنوں سابق حکومتی افسران اور فوجی اہلکاروں کو بغیر مقدمے کے پھانسی دی یا غائب کر دیا۔انسانی حقوق کی یہ رپورٹیں بغض کی بنیاد پر بھی تیار ہوتی ہیں تاہم
ان حالات میں کسی بھی افغان شہری کو زبردستی واپس افغانستان بھیجنا، اسے موت یا تشدد کے حوالے کرنے کے مترادف ہے — جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے
پاکستان، ایران، تاجکستان اور ترکی جیسے ممالک پہلے ہی لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ امریکہ اور یورپی یونین کی سرد مہری ان ممالک پر مزید بوجھ ڈالتی ہے۔
پاکستان میں 2024ء کے مطابق تقریباً 30 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں، جن میں رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ شامل ہیں۔ ایران میں یہ تعداد 25 لاکھ سے زیادہ ہے۔ یورپی ممالک نے 2021ء کے بعد سے افغان پناہ کی درخواستوں کی منظوری میں واضح کمی کی ہے۔اور صرف تعداد کو مد نظر نہ رکھا جائے بلکہ یہ دیکھا جائے کہ سویٹ یونین کی افغانستان میں مداخلت کے بعد سے پاکستان جیسے غریب ملک پر کتنا بوجھ پڑا اس نے افغانستان کے اہم افراد کا مالی اور معاشی بوجھ بھی برداشت کیا اور ساتھ میں مہا جرین کے بھی مالی معاشی بوجھ بھی اٹھائے پاکستان کا خط غربت کی طرف تیزی سے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ گزشتہ 40 45 سال سے ان مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنا بھی شامل ہے پاکستان کے عوام اقتصادی اور معاشی طور پر مہاجرین کی وجہ سے بہت ہی متاثر ہوئے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے جانی اور مالی قربانیاں بھی دی دہشت گردی کا بھی ان کو سامنا کرنا پڑا اور سویت یونین کے زمانے میں پشاور شہر سمیل ملک کے دیگر حصوں میں ائے روز بم دھماکے ہوتے رہے اور درجنوں افراد جن میں بچے خواتین بھی شامل تھے ان دھماکوں کی نظر ہو گئے
امریکہ و یورپ کی انسانی حقوق کی ذمہ داریاں یہ ہے کہ وہ عالمی قوانین کے تحت بحران زدہ علاقوں کے عوام کو تحفظ دےبین الاقوامی قانون
1951 کا Refugee Convention اور اس کے 1967 کے پروٹوکول کے تحت پناہ گزینوں کو تحفظ دینا، ان کی جان اور وقار کا احترام، اور زبردستی واپسی سے بچانا لازم ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں جیسے Human Rights Watch، Amnesty International، اور UNHCR بارہا مطالبہ کر چکی ہیں کہ مغربی ممالک افغان مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھولیں۔انسانی حقوق کے دعوی دار یہ مغربی ممالک ایسے بے حسی کا شکار ہیں کہ اپنے کانوں پر جوں بھی نہ رنگ نہیں دیتے مہنگائی اسلامی فوبیا کا ڈر اور دیگر اندرونی سیاسی عوامل کا بہانہ گڑ ھ رہتے ہیں
1979 میں سوویت حملے کے بعد پاکستان نے 40 لاکھ سے زائد افغانوں کو پناہ دی UNHCR کے مطابق، 2023 تک پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا مہاجرین میزبان ملک رہا,پاکستان نے تعلیم، صحت، روزگار کے مواقع، اور سوشل انٹیگریشن جیسے اقدامات کے ذریعے مہاجرین کو سہولت دی، باوجود اپنی محدود معیشت کے اب بھی خدمات انجام دے رہا
مہاجرین کو نکالنے کے لیے جو آڑ لی ہوئی ہے وہ کچھ یوں ہے
عوامی دباؤ،
دہشت گردی کے خدشات،
سیکیورٹی مسائل،
معیشت پر بوجھ،
پاکستان پر مغربی پابندیوں کے اثرات اور افغان مہاجرین کا بوجھ،
اب جو پاکستان کی موجودہ صورت حال ہے۔ اس نے پاکستان کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں ان میں آئی ایم ایف کی شرائط، FATF کے اقدامات، اور مغربی ممالک کی شرائط نے پاکستان کی معاشی خودمختاری محدود کر دی ہے۔
مغربی دنیا، افغان مہاجرین کی مدد میں وعدہ خلافی کر رہی ہے، جو پاکستان کو تنہا چھوڑنے کے مترادف ہے۔حالات میں جو
ممکنہ نتائج برامد ہو سکتے ہیں ان میں
پاکستان ممکنہ طور پر سخت مہاجر پالیسی پر مجبور ہو سکتا ہے۔
خطے میں انسانی بحران بڑھ سکتا ہے۔
مغربی ممالک کی اخلاقی ساکھ مزید متاثر ہو گی۔
Author
-
صحافت میں ایک ممتاز کیریئر کے ساتھ ، میں نے یو ایس اے ٹوڈے اور وائس آف امریکہ کے نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیں ، اے ایف پی اور اے پی کے لیے رپورٹنگ کی ، اور ڈیلی خبرائن اور اردو نیوز جیسے بڑے آؤٹ لیٹس کے لیے بیورو چیف اور رہائشی ایڈیٹر سمیت سینئر کردار ادا کیے ۔
View all posts