Nigah

امریکہ اور کینیڈا کے مابین تجارتی تناؤ

 

امریکہ اور کینیڈا نہ صرف جغرافیائی لحاظ سے قریبی ہمسائے ہیں بلکہ تاریخی طور پر ان کے درمیان گہرے تجارتی، اقتصادی، اور سیاسی تعلقات بھی رہے ہیں۔ دونوں ممالک شمالی امریکہ میں واقع اور ایک دوسرے کے لیے بڑے تجارتی شراکت دار بھی رہے ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں ان کے مابین تجارتی معاملات میں پیدا ہونے والے تناؤ نے ان کے تعلقات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
فروری 2025 میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک ایک اہم اور متنازع اقدام اٹھایا۔ انہوں نے کینیڈا سے درآمد کی جانے والی بیشتر مصنوعات پر 25 فیصد اور توانائی کے شعبے میں 10 فیصد محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا۔ اس فیصلے کو انہوں نے دو بڑے جوازوں کی بنیاد پر پیش کیا: اول، امریکہ کا بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ، اور دوم، سرحدی سیکیورٹی کے خطرات۔ اس غیر متوقع فیصلے نے کینیڈا کے حکومتی اور تجارتی حلقوں میں شدید اضطراب پیدا کیا۔ کینیڈا، جو امریکہ کو اپنی برآمدات کا سب سے بڑا حصہ فراہم کرتا ہے، اس اقدام کو اقتصادی جارحیت تصور کیا۔ جواباً، کینیڈین حکومت نے بھی سخت ردعمل دیا اور امریکی مصنوعات پر مساوی طور پر 25 فیصد محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا۔ اس اقدام سے دونوں کے درمیان ایک کھلی تجارتی جنگ کا آغاز ہوا، جس کے اثرات صرف دونوں ملکوں تک محدود نہیں رہے بلکہ عالمی سطح پر بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔
امریکی فیصلے کے بعد کینیڈا کی معیشت پر گہرے منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے۔ بینک آف کینیڈا نے ایک رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ امریکی محصولات سے کینیڈین مالی نظام کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ خاص طور پر توانائی، اسٹیل، گاڑیوں، زرعی مصنوعات، اور مینوفیکچرنگ کے شعبے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، اگر یہ محصولات اگلے چھ ماہ تک برقرار رہے، تو کینیڈا کی مجموعی ملکی پیداوار (GDP) میں تقریباً 2.6 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، بے روزگاری کی شرح میں اضافے کا بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، کیونکہ برآمدی صنعتوں میں پیداوار کم ہونے کے باعث فیکٹریاں اپنے ملازمین کو فارغ کرنے پر مجبور ہو رہی ہیں۔ اگرچہ امریکی حکومت نے محصولات کو اپنی معیشت کے دفاع کے طور پر پیش کیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے امریکہ کو بھی نقصانات اٹھانے پڑ رہے ہیں۔ کینیڈا کی جوابی محصولات سے امریکی مصنوعات، جیسے کہ زرعی اشیاء، آٹو پارٹس، اور مشینری، کی فروخت میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس سے امریکہ کے کئی تجارتی اور صنعتی حلقے خود اپنی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں، کیونکہ یہ پالیسیاں بظاہر اندرونِ ملک ملازمتوں میں اضافے کی بجائے الٹا نقصان کا سبب بن رہی ہیں۔
تجارتی تناؤ نے دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات میں بھی دراڑیں پیدا کر دی ہیں۔ کینیڈا کے وزیرِاعظم مارک کارنی نے واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ "کینیڈا کبھی بھی امریکہ کی 51ویں ریاست نہیں بنے گا۔” ان کا یہ بیان واضح کرتا ہے کہ کینیڈین قیادت امریکی پالیسیوں کو خود مختاری پر حملہ تصور کر رہی ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان کئی بار ملاقاتیں اور مذاکرات ہوئے، لیکن اب تک کسی واضح پیش رفت یا مصالحتی اقدام کی اطلاع نہیں ملی۔ اس کے برعکس، دونوں ملکوں کی حکومتیں داخلی سیاسی دباؤ کے باعث اپنے مؤقف پرمزید سخت ہو رہی ہیں، جس سے تناؤ میں کمی کی امیدیں دم توڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔
یہ تجارتی تناؤ صرف امریکہ اور کینیڈا تک محدود نہیں رہا۔ شمالی امریکہ کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان یہ کشیدگی عالمی تجارتی منڈیوں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ خاص طور پر، انٹرنیشنل مارکیٹ میں خام تیل، اسٹیل، اور زراعت سے متعلق اشیاء کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ دیکھنے کو ملا ہے۔ سرمایہ کاروں میں بے یقینی اور عدم اعتماد کی فضا پیدا ہو چکی ہے، اور کئی بین الاقوامی کمپنیوں نے شمالی امریکی مارکیٹ میں اپنی سرمایہ کاری یا پیداوار کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے۔
دونوں ممالک میں عوامی سطح پر بھی اس تناؤ پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ کینیڈا میں امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چل رہی ہے، جبکہ امریکہ میں بھی کئی صارفین کینیڈین مصنوعات سے اجتناب برتنے لگے ہیں۔یہ نفسیاتی اثرات دونوں معیشتوں کو مزید نقصان پہنچا سکتے ہیں، کیونکہ صارفین کا رجحان مارکیٹ کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
اگرچہ صورتحال اس وقت خاصی کشیدہ ہے، لیکن سفارتی اور تجارتی ماہرین کے مطابق اس تناؤ کو کم کرنے کے لیے چند ممکنہ راہیں موجود ہیں:
یعنی دونوں ملکوں کو ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر آ کر اپنے مفادات کا موازنہ کرنا ہوگا اور درمیانی راستہ نکالنا ہوگا۔
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) جیسے ادارے اس تنازع میں ثالثی کر سکتے ہیں۔
تیسرا دونوں ممالک کے عوام اگر اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالیں تو پالیسی میں تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے۔
امریکہ اور کینیڈا کے مابین حالیہ تجارتی تناؤ نے ثابت کیا ہے کہ اقتصادی فیصلے صرف اعداد و شمار کا کھیل نہیں ہوتے بلکہ ان کے پیچھے سیاسی ارادے اور قومی مفادات بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ اس تنازعے نے نہ صرف دونوں ملکوں کی معیشت کو متاثر کیا ہے بلکہ ان کے دیرینہ سیاسی و تجارتی تعلقات کو بھی زک پہنچائی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا دونوں حکومتیں حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کوئی تعمیری راستہ اختیار کرتی ہیں یا یہ تجارتی جنگ مزید شدت اختیار کرے گی۔

Author

  • ایک تجربہ کار صحافی ہیں جن کا 30 سال کا تحریری تجربہ ہے ۔انہوں نے ڈیلی مشرق ، ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی آج سمیت معروف اخبارات میں تعاون کیا ہے ۔:

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔