یو کے (برطانیہ) کا مستقبل کئی اہم سیاسی، معاشی اور سماجی عوامل سے جڑا ہوا ہے، جو اس کی عالمی پوزیشن کو اندرونی استحکام اور عوامی فلاح پر اثر انداز ہوں گے۔ بریگزٹ (EU سے علیحدگی) کے بعد یو کے کو نئی اقتصادی پالیسیوں، تجارتی معاہدوں اور عالمی تعلقات کو از سر نو ترتیب دینا پڑا ہے۔ اگرچہ اس سے کچھ خودمختاری ملی، لیکن تجارتی مشکلات، مہنگائی، اور لیبر مارکیٹ کی قلت جیسے مسائل بھی سامنے آئے ہیں۔
سیاسی سطح پر اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ میں علیحدگی کی تحریکیں مستقبل میں یو کے کے اتحاد کو چیلنج کر سکتی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے، ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دینے، اور سوشل ویلفیئر سسٹم کو مستحکم بنانے کے لیے بھی اہم اقدامات درکار ہیں۔ یو کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی میدان میں دنیا بھر میں نمایاں مقام رکھتا ہے، اور اگر ان شعبوں میں سرمایہ کاری جاری رہی تو ملک عالمی سطح پر اپنی پوزیشن کو مزید مضبوط بنا سکتا ہے۔
قارئین کرام اس موقع پر ہمیں
برطانیہ کی خارجہ پالیسی کا بھی سرسری جائزہ لینا ہوگا
برطانیہ کی خارجہ پالیسی دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ارتقا پذیر رہی ہے۔ بطور سابق نوآبادیاتی طاقت اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن، برطانیہ کی بین الاقوامی حیثیت مضبوط ہے، مگر بدلتے عالمی نظام میں اسے اپنی پالیسیوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنا پڑ رہا ہے۔
برطانیہ کی خارجہ پالیسی بنیادی اصولوں پر مبنی ہے جسمیں قومی مفادات کے تحفظ کو اولیت دی گئی ہے
عالمی امن و سلامتی کا فروغ،
تجارت اور معاشی ترقی ، جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی ترویج،
بین الاقوامی اتحادوں میں مؤثر شراکت بھی برطانیہ کی خارجہ پالیسی میں شامل ہیں
اسی طرح برطانیہ کی اہم علاقائی ترجیحات میں یورپی یونین کے ساتھ تعلقات(بریگزٹ کے بعد) برطانیہ نے یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کی، لیکن یورپ کے ساتھ قریبی تجارتی و سلامتی تعلقات برقرار رکھنا اب بھی پالیسی کا حصہ ہے۔
بارڈر کنٹرول، امیگریشن، اور مالیاتی معاہدات میں نئی حکمت عملیوں کی تشکیل جاری ہے۔
اسی طرح امریکہ کے ساتھ خصوصی تعلقات (Special Relationship) کو بھی فوکس کیا گیا ہے
امریکہ اور برطانیہ کے تعلقات تاریخی اور دفاعی لحاظ سے انتہائی اہم ہیں۔
انٹیلیجنس، دفاع، نیٹو، تجارت، اور بین الاقوامی پالیسیوں میں قریبی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
برطانیہ کی چین کے ساتھ تعلقات یکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ چین کو ایک اقتصادی موقع اور اسٹریٹجک چیلنج کے طور پر دیکھتا ہے۔
ہانگ کانگ، انسانی حقوق، اور ٹیکنالوجی (جیسے Huawei) پر تحفظات کے باوجود معاشی تعلقات اہم ہیں۔
دوسری طرف برطانیہ کی روس کے ساتھ کشیدگی بھی پائی جاتی ہے
یوکرین پر روسی حملے کے بعد برطانیہ نے سخت مؤقف اپنایا اور روس پر سخت پابندیاں عائد کیں۔
نیٹو میں برطانیہ کی قائدانہ کردار بھی اس پالیسی کو تقویت دیتا ہے۔
برطانیہ اپنے سابقہ نوآبادیاتی ممالک کے ساتھ سیاسی، اقتصادی، تعلیمی، اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دیتا ہے۔ اور
بھارت، آسٹریلیا، کینیڈا، اور افریقی ممالک برطانیہ کے اہم شراکت دار ہیں۔
برطانیہ کی دفاع اور سلامتی کی پالیسی پر غور کریں تو
برطانیہ نیٹو کا سرگرم رکن ہے اور یورپ کی سب سے بڑی دفاعی طاقتوں میں شمار ہوتا ہے۔
سائبر سکیورٹی، دہشت گردی کے خلاف جنگ، اور جوہری دفاع (Trident پروگرام) اس پالیسی کے کلیدی جز ہیں۔
برطانیہ دنیا کے پسماندہ ممالک کو ترقیاتی امداد فراہم کرتا ہے، خاص طور پر صحت، تعلیم اور انسانی حقوق کے شعبوں میں۔
حالیہ برسوں میں بجٹ میں کمی کے باوجود، یہ پالیسی اخلاقی اور سفارتی اثر و رسوخ کا ذریعہ ہے۔
یہاں یہ امر خوش آئند ہے کہ برطانیہ نے اپنی کچھ ترجیحات میں تبدیلی بھی کی ہیں
انڈو پیسیفک خطے کی طرف جھکاؤ: برطانیہ نے اپنی خارجہ پالیسی میں ایشیا پیسیفک خطے کو نئی اہمیت دی ہے (مثلاً AUKUS اتحاد)۔
برطانیہ نے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات (جیسے COP26 کی میزبانی) برطانیہ کی نئی ترجیحات کا حصہ ہیں۔
الغرض ا برطانیہ کی خارجہ پالیسی اب روایتی اثر و رسوخ سے ہٹ کر جدید چیلنجز جیسے بریگزٹ، عالمی طاقتوں کی کشمکش، سائبر خطرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر مرکوز ہوتی جا رہی ہے۔ یہ پالیسی قومی سلامتی، معاشی مفادات اور عالمی استحکام کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش ہے
یا پھر یوں کہہ لیں کہ
مجموعی طور پر برطانیہ کا مستقبل اس کی داخلی ہم آہنگی، عالمی کردار، اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگی پر منحصر ہے۔
Author
-
ڈاکٹر سید حمزہ حسیب شاہ ایک تنقیدی مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتے ہیں، خاص طور پر ایشیا اور جغرافیائی سیاست پر توجہ دیتے ہیں۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اردو میں اور علمی اور پالیسی مباحثوں میں فعال طور پر حصہ ڈالتا ہے۔