Nigah

بھارتی سفارتخانے۔ دہشت گردی کے گڑھ

Hotbeds India

حالیہ دنوں میں بھارتی سفارتخانوں اور سفارت کاروں پر تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے جو سنگین الزامات سامنے آئے ہیں، وہ عالمی سفارتی اصولوں، بین الاقوامی تعلقات اور امن و امان کے لیے انتہائی تشویشناک ہیں۔ سفارتخانے عموماً دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے، معاشی و ثقافتی تعاون بڑھانے اور عوامی رابطوں کے لیے قائم کیے جاتے ہیں۔ لیکن بھارت کے کئی سفارتی مشنز ان مثبت مقاصد کے بجائے دہشت گردی، خفیہ سازشوں، پراکسی جنگوں اور گمراہ کن پروپیگنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔

پہلگام حملے کے بعد بھارت کی خارجہ پالیسی اور سفارتی کوششوں پر عالمی سطح پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق کابل میں بھارتی سفارت خانے نے”کشمیر ریزسٹنس موومنٹ” قائم کی، جس کا مقصد پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنا اور کشمیری عوام کی حقیقی جدوجہد کو مسخ کرنا تھا۔ اس مہم کو خطے میں بدامنی پھیلانے اور عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی خطرناک چال قرار دیا جا رہا ہے۔
بھارتی سفارتخانے نے افغانستان میں ایک جعلی تحریک کو فروغ دیا جس کا مقصد یہ تاثر دینا تھا کہ کشمیر میں جاری مزاحمت دراصل پاکستان کی سرپرستی میں ہو رہی ہے۔ اس کا مقصد اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کو گمراہ کر کے پاکستان پر دباؤ بڑھانا تھا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیری عوام کی جدوجہد بھارت کے غیر قانونی قبضے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف ہے۔
ذرائع کے مطابق بھارتی سفارت کار افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان اور تحریک طالبان افغانستان کے جنگجوؤں کی مالی معاونت اور بھرتی میں ملوث ہیں تاکہ پاکستان کے اندر دہشت گردی پھیلائی جا سکے اور کشمیر کی تحریک کو دہشتگردی سے جوڑنے کا جھوٹا بیانیہ تیار کیا جا سکے۔ اس عمل کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔
دوحہ میں بھارتی سفارتخانے پر الزام ہے کہ وہ لابنگ فرموں، سوشل میڈیا انفلوئنسرز اور میڈیا اداروں کے ذریعے غلط معلومات پھیلا رہا ہے تاکہ پہلگام واقعے کو بھارت کی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کا مقصد عالمی توجہ اصل حقائق سے ہٹا کر بھارت کے بیانیے کی طرف موڑنا ہے۔
بھارت کی طرف سے سفارتی پلیٹ فارمز، خصوصاً سوشل میڈیا جیسے ٹوئٹر، کا استعمال جھوٹا بیانیہ پھیلانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہ عمل ویانا کنونشن اور دیگر بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس طرزِ عمل سے سفارتکاری کی روح کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
کینیڈا کی حکومت نے بھارتی خفیہ ایجنسی "را” پر سکھ رہنما ہر دیپ سنگھ نجار کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا، جس کی توثیق وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے خود پارلیمنٹ میں کی۔ اس واقعے نے بھارت کی بیرونِ ملک خفیہ کارروائیوں کو بے نقاب کر دیا ہے، اور اس کے باعث بھارت اور کینیڈا کے تعلقات خطرناک حد تک کشیدہ ہو چکے ہیں۔
بھارتی سفارتخانوں پر لگنے والے الزامات سے عالمی برادری میں بھارت کے سفارتی نیٹ ورک پر اعتماد کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ سفارت خانے جو امن، ترقی اور ہم آہنگی کے مراکز سمجھے جاتے ہیں، اب مشکوک ہو گئے ہیں۔
پراکسی وار، دہشت گرد گروہوں کی مالی معاونت اور جھوٹے بیانیے پھیلانے جیسے اقدامات عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ اگر سفارتخانوں کو اس طرح استعمال کیا جائے تو یہ نہ صرف مخصوص ممالک کے لیے بلکہ پورے خطے اور دنیا کے لیے خطرناک نتائج کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔
کینیڈا، افغانستان، قطر، پاکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ بھارت کے سفارتی تعلقات پہلے ہی متاثر ہو چکے ہیں۔ اس طرح کی سرگرمیاں بھارت کی بین الاقوامی ساکھ اور اس کے بطور "جمہوریت” اور "عالمی شراکت دار” کے دعوؤں کو مشکوک بنا رہی ہیں۔
بھارت کے سفارت خانوں اور سفارت کاروں پر تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات انتہائی سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔ اس طرز عمل سے صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی بلکہ عالمی سفارتی نظام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں بین الاقوامی برادری کی خاموشی نہ صرف خطرناک بلکہ مجرمانہ غفلت کے مترادف ہوگی۔
بھارت کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے، سفارتی مشنز کو ان کے اصل مقاصد کے لیے استعمال کرے، اور عالمی برادری کے ساتھ شفاف اور مثبت انداز میں تعاون کرے۔ بصورتِ دیگر، بھارت کا عالمی سطح پر تنہا ہونا بعید از قیاس نہیں۔
اس سلسلے میں عالمی برادری کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سفارتخانوں کو تخریبی مقاصد کے لیے استعمال ہونے سے روکا جا سکے۔ اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (ICC) کو چاہیے کہ وہ ان الزامات کی آزادانہ تحقیقات کریں اور حقائق عوام کے سامنے لائیں۔
اگر بھارت ان الزامات میں قصوروار پایا جائے تو اسے عالمی قوانین کے تحت جوابدہ ٹھہرایا جائے۔ ایسی سرگرمیوں کو برداشت کرنا مستقبل میں دیگر ممالک کو بھی ایسے اقدامات کی اجازت دے گا۔
تمام ممالک کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ سفارتخانے صرف پرامن مقاصد کے لیے استعمال ہوں۔ سفارتکاری کا احترام عالمی امن کے لیے بنیادی شرط ہے۔
اگر عالمی برادری بروقت ایک مضبوط موقف اختیار کرے، تو نہ صرف سفارتی نظام کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے بلکہ ایسے ممالک کو بھی واضح پیغام دیا جا سکتا ہے جو سفارتکاری کو اپنے تخریبی ایجنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بھارت کے موجودہ طرز عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے سفارتکاری کی روح کو پس پشت ڈال دیا ہے، جس پر فوری اور موثر ردعمل ناگزیر ہے۔

Authors

  • سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
    یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025

    بیورو چیف، پی این این، پشاور
    جنوری 2023 تا جنوری 2024

    بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
    16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023

    سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
    22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017

    سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
    16 فروری 2005 تا 21 جون 2008

    رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
    یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005

    رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
    فروری 2000 تا 30 نومبر 2003

     

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔