جی اس روز پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ہوا اس کے دوسرے روز بھارت کے فوجی افسروں کی جانب سے ابلاغ عامہ کے نمائندوں کو جنگ کی صورتحال اور جنگ بندی کے بارے میں بھارت کے فوجی افسروں نے تفصیلات سے اگاہ کیا ان میں ایک خاتون صوفیہ قریشی بھی موجود تھیں کرنل صوفیہ قریشی بھارتی ایک تجربہ کار اور ممتاز افسر شمار کی جاتی ہیں ـ بھارت نے اپنے جنگی جنون کی بنیاد پر پاکستان پر” اپریشن سندور”کی تختی سے جا کر جو جارحیت کی اس میں ان محترمہ کا بھی ایک بڑا کردار مانا جاتا ہے انہوں نے کچھ اور بھی جنگی پر امور انجام دیے بات اگے بڑھانے سے پہلے مختصرا صوفیا قریشی کے بارے میں جان لیتے ہیں ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ 18 اپریل 1981 کو بھارت کی ریاست اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں پیدا ہوئی 1994 میں انہوں نے بھارتی فوج میں کمیشن حاصل کیا کہ منیکیشن انجینئرنگ ڈیفنس سروس سٹاف کالج ویلنگٹن ارمی وار کالج مہو اور نیشنل ڈیفنس کالج نئی دہلی سے تربیت حاصل کی ان کا خاندانی پس منظر بھی فوجی خاندان ہے ان کے دادا اور والد بھارت کی فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور فوج کے تعلیمی شعبے سے وابستہ رہے ہیں اسی بنیاد پر یہ مطالبہ بھارتی فوج میں شامل ہو پائی ہیں یہ جو اخری بریفنگ انہوں نے دی تھی اس میں ایک جملہ ادا کیا تھا کہ بھارت ایک سیکولر ریاست ہے چنانچہ یہاں پر کسی کے حقوق سلپ نہیں کیے گئے ہیں سب کو یکسا مرات اور سہولیات حاصل ہیں کتنا سچ بولا انہوں نے۔
ائیے اس کا اندازہ لگا لیتے ہیں ویسے تو دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں جو مسلمان ملکوں کی شمار میں نہیں ہے ان ملکوں میں بھی مسلمان فوج میں شامل ہیں یہ اپ کے لیے انکشاف ہو کہ اسرائیل اسرائیل کی فوج میں بھی مسلمان فرائض انجام دیتے ہیں اسرائیل میں مسلمان شہریوں پر فوجی سروس لاگو نہیں ہے البتہ اسرائیلیوں پر لازمی فوجی سروس لاگو ہے ریکارڈ کے مطابق اسرائیل میں 606 مسلمان عرب شہریوں 2020 نے دفاعی افواج میں شمولیت اختیار کی ان مسلمانوں کا تعلق بدو قبیلے سے بتایا جاتا ہے ریکارڈ کے مطابق تقریبا 13 مسلمان اسرائیل فوج میں فرائض انجام دے رہے ہیں جن میں سے 70 فیصد بدو ہیں اسرائیل کے جنوبی اور شمالی علاقوں سے تعلق ہے ان کا اور یہ اسرائیلی شہری ہیں دیگر جو مسلمان اسرائیلی فوج میں شامل ہوتے ہیں وہ زیادہ تر اسرائیل کے شمالی علاقوں جیسے ناصرت دیر الاسد بعینہ اور رینا سے تعلق رکھتے ہیں ،اسرائیلی فوج میں تقریبا 1700 مسلمان اہلکار خدمات انجام دے رہے ہیں اور ان کی بٹالین ریکونیسنس بچالن کے نام سے جانی جاتی ہے جس 40 فیصد غیر بدھو مسلمان عرب عیسائی اور چر کس شامل ہیں
اب مختصر طور پر دوسرے ممالک میں مسلمان فوجیوں کے بارے میں جائزہ لے لیتے ہیں
امریکا: امریکی فوج میں مسلمان فوجی اہلکاروں تقریبا 5897 ہے جو کل فوجی اہلکاروں کا 0.45 % بنتا ہے برگیڈیئر جنرل سنڈی سالا دین پہلے مسلمان جنرل افیسر ہیں مسلمان فوجیوں کا تعلق مختلف نسل اور جو رائفہ ہی منظر سے ہے جن میں پاکستان عرب افریقہ امریکی اور دیگر شامل ہیں
برطانیہ ـ برطانوی مسلح افواج میں مسلمانوں کی تعداد 0.4% ہے گویا امریکہ میں مسلمان فوجیوں کی تعداد کے مقابلے میں زیادہ ہے یہ برطانیہ کی مجموعی مسلم ابادی کے تناسب سے کم ہے برطانوی فوج میں امام عاصم حفیظ 25 سے چیف اف سٹاف کے اسلامی مشیر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں
فرانس ـ فرانس سی سی فوج میں مسلمانوں کی تعداد کا تخمینہ 15% سے 20% کے درمیان ہے جو کہ فراز کی مجموعی مسلم ابادی کے تناسب سے دو سے تین گنا زیادہ ہے یعنی فراز کی فوج میں مسلمان اپنی ابادی کے حساب سے دو سے تین گنا تک زیادہ ہیں یعنی اکثریت میں ہیں 2019 میں فرانسیسی فوج سے 36 فعال امام خدمات انجام دے رہے ہیں
یوکرین فوج میں کریمین تا تار اور دیگر مسلمان شامل ہیں یوکرائن میں پہلی فوجی مسجد”اسلام”کاف ڈیٹا 2025 میں ہوا یعنی رواں سال ہو
روس ـ یو سی فوج میں مسلمانوں کی تعداد تقریبا نو فیصد بتائی جاتی ہے لیکن یہاں پر کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے مذہبی سہولیات محدود ہیں صرف ایک مسجد ہے اور دو امام کائنات ہے
اٹلی میانمار کینیڈا جنوبی افریقہ فلپائن نیوزی لینڈ جاپان جنوبی کوریا اور ایسے دیگر ممالک میں بھی بتایا جاتا ہے کہ وہاں پر مسلمان فوجی خدمات انجام دے رہے ہیں
اب بھارتی مسلمان کرنل صوفیہ کہ اکھنڈ بھارت کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں برطانوی دور دور حکومت میں ہندوستان میں مسلمانوں کی سرکاری ملازمتوں میں نمایاں نمائندگی تھی مثال کے طور پر 1947 میں اتر پردیش میں سینیئر پولیس اور سول سروس افسران میں مسلمانوں کا تناسب 40 فیصد تھا تاہم 1958 تک یہ تناسب کم ہو کر صرف سات فیصد رہ گیا اب یہ بتایا جائے کہ ابادی بننے کے ساتھ تناسب بھی بننا چاہیے یہاں تو تناسب کس حد تک کم ہو گیا ہے بھارت کے 2011 کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی ابادی اتر پردیش ریاست میں 19.26 صد ہے موجودہ دور میں ریاستی اسمبلی میں مسلمانوں کو سات فیصد نمائندگی دی گئی ہے سرکاری اداروں میں مسلمانوں کی تعداد یا تناسب کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے اور یہ ریکارڈ اس لیے موجود نہیں ہے کہ مسلمانوں کی تعداد یہاں پر اٹے میں نمک کے برابر ہے یہی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ بدتر سلوک کیا جا رہا ہے بلکہ عیسائیوں کے ساتھ اور سکھوں کے ساتھ بھی ایسے ہی رویہ رکھا گیا ہے
اب بھارتی فوج کی صورتحال کا بھی جائزہ لے لیا جائے ہندوستان کی ازادی سے پہلے یعنی 1945 میں ہندوستانی فوج کی تعداد 25 لاکھ تھی جس میں مسلمانوں کی تعداد 30 فیصد تھی سکھ 10 فیصد ہندو 45 فیصد عیسائی تین فیصد اور گورکھا قبائلی اور دیگر اقوام 12 فیصد اس چارٹ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ برطانوی دور میں ہندو اور مسلمان فوجیوں کے درمیان تناسب کا کوئی خاص فرق نہیں تھا ابادی کے لحاظ سے مناسب بھی نظر اتا ہے برطانوی ہندوستان میں ہندو افسران سب سے زیادہ تھے کلرک اور اکیڈمک میں موضوع مضبوط پوزیشن تھی مسلمان کم مگر اہم عہدوں پر موجود تھے خاص کر پنجابی مسلمان سکھ تعداد نسبتا کم مگر اعلی کا ارد گردی کے باعث کچھ نے جنرل رینک حاصل کیا عیسائی محدود تعداد رکھتے تھے مگر برٹش فیورزم کے سبب کچھ افراد موجود تھے جنرل اکبر خان پہلے اعلی افسر تھے برطانوی دور میں فیڈ مارشل کر یاپا ہندو تھے اور وہ پہلے چیف تھے جنرل اواری عیسائی تھے ازادی کے بعد وہ پاکستان فوج میں معروف پاکستانی افسر تھے اور ہائی رینک پر تعینات تھے
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ 1857 کی جنگ ازادی سے قبل برطانوی ہندوستان میں بنگالی مسلمانوں کی بڑی تعداد موجود تھی ان میں گھڑ سوار دستے میں 75 فیصد مسلمان اور 80 فیصد پیادہ ہندو تھے
1941 میں برطانوی ہندوستانی فوج میں مسلمانوں کا تناسب تقریبا 30 فیصد تھا کہاں دیگر دستاویز کے مطابق 37 فیصد مسلمان فوج میں فرائض انجام دے رہے تھے برطانوی راج کے دوران مارشل ریس کے نظریے کے تحت فوج میں سکھوں کو بھرتی کیا گیا دوسری جگہ عظیم میں سکھوں کی تعداد 3 لاکھ تھی جو 12 فیصد کے قریب تھی اور ابادی کے تناسب سے کم تھی اب اندازہ لگائیے کہ جب 1941 میں ہندوستان کی فوج میں مسلمانوں کی تعداد 37 فیصد تھی وہ 1953 میں جا کر صرف دو فیصد تک رہ گئی 1990 کی دہائی کے اخر میں یہ تناسل مزید کم ہو کر ایک فیصد رہ گیا 2004 میں بھارتی فوج میں کل 29 ہزار 93 مسلمان فوجی مسلمان ہیں ازادی کے وقت فوج میں سکھوں کی تعداد اٹھ فیصد تھی 1990 میں یہ تناسب بڑھ کر 13 فیصد ہو گئی تھی موجودہ وقت میں سکھوں کی تعداد تقریبا اٹھ فیصد ہے جو ان کی ابادی کے تناسب کا 1.7 فیصد ہے
اب کرنل صوفیا قریشی ان سرکاری اداد و شمار کے سامنے نقاب ڈال کر بیٹھ کر یہ کہیں کہ بھارت سیکولر ملک ہے اور یہاں پر تمام مذاہب کے لوگوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں برابر کے حقوق تو بہت بڑی بات ہے ان کا جو حق ابادی کے حساب سے بنتا ہے کیا انہیں ملا ہوا ہے سول سروس میں تو کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک فیصد سے بھی کم اقلیتوں کو سرکاری ملازمت فراہم کی گئی ہے کسی نے سچ کہا ہے
حسین سانپ کے نقش و نگار خوب سہی
نگاہ زہر پہ رکھ خوشنما بدن پہ نہ جا
Author
-
صحافت میں ایک ممتاز کیریئر کے ساتھ ، میں نے یو ایس اے ٹوڈے اور وائس آف امریکہ کے نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیں ، اے ایف پی اور اے پی کے لیے رپورٹنگ کی ، اور ڈیلی خبرائن اور اردو نیوز جیسے بڑے آؤٹ لیٹس کے لیے بیورو چیف اور رہائشی ایڈیٹر سمیت سینئر کردار ادا کیے ۔
View all posts