Nigah

خون اور پانی ایک ساتھ

 

بھارت کے وزیراعظم بھڑکو نریندر مودی نے شکست کے دو دن بعد اپنی قوم سے خطاب کیا وہ خطاب کیا تھا وہ یہ تھا کہ یا تو وہ اپنی قوم کو بے وقوف سمجھتے ہیں یا خود بے وقوف ہے کیونکہ اس میں انہوں نے بھڑکیاں ہی بھڑکیاں ماری ہیں اپنے 22 منٹ کے خطاب میں نریندر مودی نے کہا ہے کہ ہندوستان نیوکلیئر بلیک میل کے اگے نہیں جھکے گا ادھر سے ادھر ٹرمپ نے کہا ہے کہ پاک بھارت جنگ میں نیوکلیئر ہتھیار کے استعمال کا امکان تھا اس لیے انہوں نے جنگ بندی کی کوشش کی ان دونوں حضرات کے بیانات تو یکجا کر کے دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نے ایٹمی حملے کے خوف سے ہتھیار ڈال دیے یا گھٹے گی اب وہ تڑیاں لگا رہے ہیں انہوں نے اپنی تقریر میں یہ جب بیماری کہ پاکستان کے ساتھ صرف دہشت گردی اور پاک مقبوضہ کشمیر پر ہی بات چیت ہوگی اپنی تقریر میں بھارتی وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پ کی جانب سے یہ بتائے جانے کے چند منٹوں کے بعد انہوں نے ہند پاک سے کہا تھا کہ اگر وہ جنگ جاری رکھتے ہیں تو ان دونوں ممالک سے امریکہ تجارت نہیں کرے گا یہ بات کچھ بیٹوں کی سی اور نہ سمجھ میں انے والی بات ہے مودی نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی طرف سے ہندوستان سے فوجی کاروائی روک دینے کی درخواست کی اور ان کی جانب سے مہم جی روک دینے کے وعدے کے بعد ہی نہیں دہلی نے اس پر غور کیا اور عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا حیرت کی بات ہے کہ ایک طرف امریکی صدر یہ دعوی کر رہے ہیں کہ انہوں نے درا ملکوں کے درمیان جنگ بندی کرائی ہیں ادھر یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے درخواست کی قصے کی کب کی کہاں کی اس کا کوئی حد تک پتہ نہیں اس سے اندازہ لگا لیں کہ اپنی شکست کے بعد وہ اپنے زخموں کو چاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں بھارت وہ ملک ہے جو ابی جنگ کے منصوبے بنا رہا ہے پانی کا تنازہ پاکستان کے ساتھ کوئی بھی نہیں ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان سندھ طاس معاہدہ موجود ہے اور یہ معاہدہ برقرار ہے اس کو کوئی فریق بھی یک طرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتا چین کے ساتھ بھارت کا کوئی ابی معاہدہ نہیں ہے کام چین کے ساتھ بھی بھارت کا ابی جنازہ رہتا ہے یہاں یہ عرض کر دوں کہ دریائے سندھ جو پاکستان کا سب سے بڑا ذریعہ ہے وہ چین سے بھارت اور بھارت سے پھر پاکستان میں داخل ہوتا ہے چنانچہ بھارت یہ مجال نہیں کر سکتا کہ وہ دریا سندھ کے پانی کا رخ اپنی طرف موڑ لے چین اور بھارت کے تعلقات میں ابھی مسئلہ ایک خاموش مگر اہم تناؤ ہے بھارت کو خطرہ ہے کہ چین ڈیم بنا کر پانی کو اسٹریٹجک پیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے چین اور بھارت کا سردی تنازعہ بھی موجود ہے لیکن اس کے باوجود چین اور بہرحال کئی شعبوں میں اشتراک رکھتے ہیں جن میں اہم شعبے تجارت ہیں ٹیکنالوجی ہے تعلیم ہے کچھ بھارتی طلبہ چین میں طب کی تعلیمات حاصل کرتے ہیں ماحولیاتی تحفظ اقوام متحدہ کے تحت کچھ مشترکہ اقدامات شنگائی تعاون ارگنائزیشن بھارت چین کے ساتھ شامل ہیں ادویات اور صحت میں بھی تعاون ہے ثقافتی وفود کی تباد بھی ہوتے ہیں چین اور بھارت کے درمیان تجارت کا حجم 2024 کے مطابق 136 بلین ڈالر ہے چین کی برامدات بھارت کو تقریبا 100 بلین ڈالرز ہیں اس میں الیکٹرانکس کا سامان مشینری اور کیمیکل شامل ہیں بھارت کی چین کو برامدات تقریبا 36 بلین ڈالرز جو ائرن کاٹن اور ایلومونیم اور کیمیکل پر مشتمل ہے بھارت کو چین کے ساتھ تجارت کرنے میں 64 بلین ڈالرز کا خسارہ ہے پاکستان اور چین کے درمیان تجارت کا حجم 2024 کے اعداد و شمار کے مطابق 27 بلین ڈالرز ہیں چین کی برامدات پاکستان کو تقریبا 23 بلین ڈالرز مشینری الیکٹرانکس کیمیکل گاڑیاں اور دیگر اشیاء شامل ہیں کرتے ہیں پاکستان کی چین کو تقریبا چار بلین ڈالرز چاول ٹیکسٹائل کھجور چمڑا تیل دار بیج برابر کرتا ہے پاکستان کا تجارتی خسارہ چین کے ساتھ تقریبا 10 بلین ڈالر کا ہے جس سے اپ اندازہ لگا لیں کہ بھارت کو چین کے ساتھ تجارت میں پاکستان کی نسبت کتنا زیادہ خسارہ ہے اس کے باوجود بھارت اپنے مفادات کی خاطر سے تجارت کر رہا ہے اور ادھر پاکستان کو دھمکی دے رہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تجارت نہیں ہوگی نریندر مودی کی تقریر کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کی حالت اس وقت اس شخص کی طرح ہے جس نے سو جھوٹے بھی کھائے اور سو پیاز بھی کھائی اور اب بھنبھنار رہے ہیں نریندر مودی کی تقریر کے علاوہ اگر پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے جو قوم سے خطاب کیا ہے اس کا جائزہ لیا جائے تو اس میں بڑا واضح فرق نظر اتا ہے اور اس میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان امن پسند ملک ہے اور امن کو فروغ دینا چاہتا ہے جبکہ بھارتی وزیر اعظم خون اور پانی بہنے کی ٹیڑھی لگا رہے ہیں اور قوم کو دھوکے میں رکھ رہے ہیں لیکن اس جنگ بندی کے بعد پاکستان اور بھارت کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو جو ماحول نظر ا رہا ہے اس سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ پاکستان میں عوام کا اپنی فوج اور اپنی حکومت پر اعتماد بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور انہیں اپنی فوج اور حکومت کی کارکردگی سے بہت اطمینان حاصل ہوا ہے جبکہ بھارت میں حکومت اور فوج کے خلاف شدید رد عمل سامنے ایا ہے جس طرز عمل سے نریندر مودی نے پاکستان پر حملہ کیا تھا اس کے پس پردہ ایک بات اور بھی تھی وہ یہ تھی کہ ایک تو بہار میں انتخابات ہو رہے ہیں اس ریاست میں بی جے پی کو مکمل کامیابی دلانے کے لیے یہ تنازعہ کھڑا کیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی نظریں بھارت کے عام انتخابات پر بھی لگی ہوئی ہیں وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان اقتصادی سیاسی اور دیگر بڑا عالم میں شدید طور پر ملبے سے اس پہ اتنی سکت نہیں ہوگی کہ وہ بہرحال کے سامنے ٹک سکے موقع سے فائدہ اٹھانے کی بھارت نے غلطی کی اور نتیجہ سامنے توقعات کے بالکل برسائے اب مودی کو بھارت میں وہ مقبولیت حاصل نہیں رہی ہے جو کسی زمانے میں تھے یا جب وہ پہلی دفعہ برسر اقتدار ائے تھے پاکستان کو سب سے بڑا فائدہ اس جنگ میں یہ ملا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ایک مرتبہ پھر عالمی سکرین پر اجاگر ہو گیا ہے اور دنیا نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو پائے گا دونوں ممالک میں امن و امان کی فضا قائم نہیں ہو سکتی نہ اس خطے میں امن و امان کو استحکام حاصل ہو سکتا ہے چنانچہ اس وقت تمام بیرونی طور پہ یہ کاوش کر رہی ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو ترجیحی بنیاد پر حل کرایا جائے تاکہ خطے میں استحکام قائم ہو سکے اس طرح بھارت کو نہ صرف جنگی محاذ پر شکست فارم کی ہزیمت اٹھانی پڑی بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ ثابت ہو گیا کہ بھارت ایک حملہ اور ملک تھا پاکستان نے امن کے استحکام کے لیے ایک مثبت کردار ادا کیا کیونکہ پاکستان نے پیشکش کی تھی کہ پہلگام میں ہونے والی واقع کی غیر جانبدار تحقیقات کرا لی جائیں اور بھارت اس بات پر راضی نہیں ہوا اگر بھارت غیر جانبدار تحقیقات کے لیے راضی ہو جاتا تو یہ نوبت نہ اتی بھارت کے مسلسل انکار اور دھمکیوں نے اس امر کو عالمی سطح پر جا کر کیا کہ بھارت امن و امان اور استحکام کی طرف ایک انچ بھی قدم بڑھانے کو تیار نہیں ہے وہ فیصلہ کشت و خون کے ذریعے کرنا چاہتا ہے تو ان حالات میں کیا بھارت یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک امن پسند ملک ہے پاکستان کے خلاف جارحیت کر کے اس نے خود ہی ثابت کر دیا کہ وہ خود سب سے بڑا دہشت گرد ملک ہے جہاں پر اقلیتیں قدم تحفظ کا شکار ہیں
نریندر مودی جب تقریر کر رہے تھے اور جو لفاظی ان کے منہ سے جھڑ رہی تھی اس اندازہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے ہوش اواز میں نہیں ہیں اور شکست کی گوبر کھائے ہوئے ہیں وہ شرائط بیان کر رہے تھے کہ ان شرائط پر یا ان مسائل پر بات ہوگی اس سے زیادہ احمقانہ کیا بات ہو سکتی ہے شرائط تو وہ فریق پیش کرتا ہے جس نے میدان مارا ہو پاکستان کی جانب سے بات چیت کی جو پیشکش ہوئی ہے اس میں انتہائی معقول نکات بیان کیے گئے ہیں کہ ان نکات پر بات چیت ہوگی پاکستان میں اس کو شرائط بھی نہیں کرا دیا برسوں سے پاکستان کے بارے میں بھارت کا یہ پروپیگنڈا رہا ہے اور جدوجہد رہی ہے کہ پاکستان کو ایک جارحہ ملک قرار دیا جائے جبکہ اب یہ بات کھلم کھلا ہو چکی ہے کہ جاہلیت کا مرتکب بھارت رہا ہے بھارت خود کو ایک سیکولر ملک قرار دیتا ہے لیکن نریندر مودی جس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں وہ RSS کے پیروکار ہیں جو ایک: متعصبانہ ہندو مت:
نظریہ ہے بھارت میں مسلمان دوسرے نمبر پر اکثریت ہے وہ اقلیت نہیں ہے اور پہلے نمبر پر بھارت میں اقلیت سکھ ہیں یہ دونوں قومیں انتہائی عدم تحفظ کا شکار ہیں ان کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ اب دھکا چھپا نہیں رہا زندگی کے ہر شعبے میں ان کے ساتھ بہت زیادتی کی جاتی ہے اور ہر وقت ان کو اپنی جان و مال کے تحفظ کا خوف بھی رہتا ہے اپنے ملک کے اندر بی جے پی کی حکومت کا یہ حال ہے تو عالمی سطح پر امن کا مدعی کیسے بن سکتا ہے پھر اس کے ہمسایوں کی بھی حالت بھارتی رویوں کی وجہ سے پتلی ہے نیپال کے ساتھ بھی سرحدی تنازع ہے سری لنکا پر بالادستی حاصل کرنے کی کاوشیں بھی امن کو خطرے میں ڈالے رکھے ہیں کیا بھارت یہ بچا سکتا ہے کہ اس کے چاروں پہلوؤں میں کوئی ملک ایسا ہے جس کی اس سے گہری دوستی تعاون ہو یا اس کے ساتھ اس کا رویہ جابرانہ نہ ہو بنگلہ دیش کے حالیہ انقلاب سے بھی یہ ثابت ہو گیا کہ بنگلہ دیش کے عوام بھارت سے کتنی نفرت کرتے ہیں اور کیوں کرتے ہیں اور بھارت نے بنگلہ دیش کے عوام کے مخالفین کو پناہ دے رکھی ہے جو اس عمل کا ثبوت ہے کہ بھارت بنگلہ دیش کے بارے میں کیا عزائم رکھتا ہے اور اس کی کیا کرتوت ہے پھر بھارت کے اندر تامل ناڈو گاوا اور دوسرے علاقے جیسے پنجاب میں سکھ تحریک ہے یہ سب بھارت سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں عالمی برادری کو ان پہلوؤں پر نظر رکھنا چاہیے اور حقائق کو تسلیم کرنا چاہیے

Author

  • صحافت میں ایک ممتاز کیریئر کے ساتھ ، میں نے یو ایس اے ٹوڈے اور وائس آف امریکہ کے نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیں ، اے ایف پی اور اے پی کے لیے رپورٹنگ کی ، اور ڈیلی خبرائن اور اردو نیوز جیسے بڑے آؤٹ لیٹس کے لیے بیورو چیف اور رہائشی ایڈیٹر سمیت سینئر کردار ادا کیے ۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔