Nigah

غزہ میں اسرائیلی مظالم اور مسلم امہ۔

 

 

اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام کے خلاف کی جانے والی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عالمی سطح پر شدید تنقید کا باعث رہی ہیں۔ مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم میں اسرائیلی حکومت نے زمینوں پر ناجائز قبضے، جبری بے دخلی، اور بستیوں کی تعمیر کے ذریعے فلسطینیوں کے حق خودارادیت کو پامال کیا ہے۔ اسرائیلی فوج کی کارروائیاں، بشمول بلاجواز گرفتاری، تشدد، اور بچوں تک کو حراست میں لینا، انسانی حقوق کے عالمی معیارات کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ غزہ کی پٹی میں مسلسل ناکہ بندی، طبی سہولیات کی کمی، اور خوراک و پانی کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنا بھی اجتماعی سزا کے مترادف ہے۔ اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیمیں بارہا ان اقدامات کو نسل پرستانہ پالیسیوں اور جنگی جرائم سے تعبیر کر چکی ہیں۔ ان مظالم نے فلسطینی عوام کی زندگی کو غیر یقینی، خطرناک اور انسانی وقار سے محروم کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کے اہلکاروں کے مطابق اسرائیل کی طرف سے غزہ میں امداد کی فراہمی پر پابندی اور بمباری کے نتیجے میں خوراک اور بنیادی ضروریات کی اشیاء کا بحران دو بارہ جنم لے رہا ہے امدادی امور کے لئے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر ( سوچا ) کے ترجمان جینز لائرکے نے کہا ہے کہ اسرائیل کے جنگی اقدامات ظالمانہ جرائم کی ذیل میں آتے ہیں حملوں میں گنجان آباد علاقوں میں واقع ہسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا ہے مریضوں کو بستروں پر مارا جا رہا ہے ایمبولینس گاڑیوں پر فائرنگ کی جارہی ہے اور لوگوں کی مدد کے لئے آنے والے افراد کو ہلاک کیا جارہا ہے
عالمی ادارہ صحت کی ترجمان
ڈاکٹر مارگریٹ ہیرس نے کہا ہے کہ غزہ میں حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہیں جہاں لوگوں کی زندگی کو تحفظ دینے کے لئے نئی جنگ بندی کی فوری ضرورت ہے

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں
یو این ویمن کی نمائندہ میرس گوئمنڈ نے کہا ہے کہ غزہ کے لوگ اسرائیل کی جانب سے دئے گئے انخلاء کے احکامات پر کان نہیں دھریں گے کیونکہ ان کے لئے کوئی ایسی محفوظ جگہ نہیں جہاں وہ جا سکیں انکے لئے اپنے اور خاندان کی یہ بقا کی جنگ ہے

مقبوضہ مغربی علاقے میں عالی ادارہ صحت کے ایک اور رکن ڈاکٹر رک پیپر کورن کا کہنا ہے کہ امداد کی فراہمی بند ہونے کے باعث علاقے میں طبی صورت حال مخدوش ہیں ادویات سمیت دیگر ضروریات زندگی کی شدید کمی ہے جبکہ ایندھن کی کمی کے باعث ایمبولینس گاڑیاں بھی غیر فعال ہیں

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوتریس نے غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں اور تباہی کو تاریخ کی بدترین صورتحال قرار دیا ہے
دوسری جانب سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے عرب لیگ کے قاہرہ میں منعقدہ 162 اجلاس کے بعد کہا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں داخل ہونے والی امداد میں رکاوٹیں ڈالنا جنگی جرم ہے جبکہ غزہ میں اسرائیلی مظالم کا سلسلہ جاری ہے ۔

فلسطین پر اسرائیل دن رات بمباری کر رہا ہے معصوم بچوں اور خواتین کو شہید کیا جا رہا ہے غزہ اس وقت مکمل طور اسرائیلی بمباری سے زمیں بوس ہو چکا ہے سینکڑوں نہیں ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے اور ہسپتال مردہ خانے بنا دیئے گئے ہیں
دوسری طرف غزہ میں اسرائیلی جنگ نے نیتن یاہو کو ایک مشکل صورتحال سے دو چار کردیا ہے غزہ سے متعلق انکی حکومت کے طرز عمل کے خلاف احتجاج بھی دیکھنے کو مل رہا ہے اور نیتن یاہو سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبے بھی آرہے ہیں

جنگ بندی معاہدہ طے کرنے میں نیتن یاہو کا پس و پیش کی وجہ شائد یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی طاقت کو تنازعے کے خاتمے پر ترجیح دیتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ بڑھتا ہوا عدم اعتماد اس حد تک پھیل جائے گا جہاں اسے جاری رکھنا ناممکن ہو جائیگا

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا جنگ بندی معاہدے کی طرف نہ آنے کی وجہ بڑی سیدھی سادھی ہے کہ اگر کوئی معاہدہ ہو جائے تو حکومت نہیں رہے گی اسی لئے انھیں حکومت پر اپنے مسلسل کنٹرول یا کسی معاہدے میں سے کوئی ایک انتخاب کرنا ہوگا جس سے یرغمالی بچ جائیں اور فوجی کاروائی ختم ہو

دراصل اسرائیلی حکومت جاری تنازعہ پر بیرونی آوازوں اور ماہرین کی آراء کو نظر انداز کر رہی ہے اور انتہائی نوعیت کی بیان بازی اور انفرادی سیاسی مفادات پر توجہ دی جا رہی ہے
اسرائیلی حکام تسلط برقرار رکھنے کے لیے فلسطینیوں کے خلاف منظم امتیازی سلوک کا مظاہرہ کر رہی ہے

اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کے خلاف ادارہ جاتی امتیاز میں ایسے قوانین بھی شامل ہیں جو سینکڑوں یہودی قصبوں سے فلسطینوں کے موثر اخراج کی اجازت دیتے ہیں
مقبوضہ علاقے میں فلسطینوں پر ظالمانہ فوجی نظام رائج ہے
جبکہ اسی علاقے میں آباد یہودی اسرائیلیوں کو اسرائیل کے حقوق کے احترام پر مبنی دیوانی قانون کے تحت مکمل حقوق حاصل ہیں

سنگین ریاستی ظلم کی یہ شکلیں منظم جبر کے مترادف ہیں اور یہ صورتحال نسلی امتیاز کی تعریف پر پورا اترتی ہے
مسلم امہ کی بے حسی کی بڑی وجہ معاشی مفادات ،داخلی تنازعات اور عالمی دباؤ ہے اسلامی ممالک کی اکثریت نے مسئلہ فلسطین کو ایک رسمیں بیان بازی تک محدود کر رکھا ہے اور مسلم امہ کا جو کردار ہونا چاہیئے تھا وہ اب تک نظر نہیں آرہا مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کی کمی ہے بہت سے ممالک نے اقتصادی اور سیاسی مفادات کی خاطر اسرائیل کو تسلیم کرلیا جو فلسطینی عوام کی جدو جہد کے لئے آیک دھچکا ہے اس تمام بے حسی کے باوجود اپنی جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہیں وہ اپنے حق ارادیت اذادی اور عزت کی جنگ لڑی رہے ہیں ۔

Author

  • مصنف ایک معزز میڈیا پیشہ ور ہیں جو نیشنل نیوز چینل ایچ ڈی کے چیف ایگزیکٹو اور "دی فرنٹیئر انٹرپشن رپورٹ" کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ان سے  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔