امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ دنوں سعودی عرب کا دورہ کیا۔ مشرق وسطی کے دیگر ممالک کے بھی امریکی صدر نے دورے کیے ہیں، لیکن اس خطے میں سب سے زیادہ اہمیت سعودی عرب کے دورے کو رہتی ہے اور دنیا کی نظریں اس پر لگی رہتی ہیں۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری مرتبہ امریکا کا اقتدار سنبھالا ہے اس کے بعد ان کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ تھا جس میں انہوں نے ریاض میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی اس دورے کے دوران سعودی عرب اور امریکہ کے مابین 600 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری اور 142 بلین ڈالر کے دفاعی معاہدوں پر دستخط ہوئے جن میں مصنوعی ذہانت خلائی تحقیق اور دفاعی شعبے شامل ہیں
صدر ڈونلڈ ٹرم اپنے پہلے دور کی اقتدار میں یعنی 2017 میں سردی عرب کا دورہ کر چکے ہیں اور وہ بھی ان کے غیر ملکی دوروں میں پہلا دورہ تھا گویا ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب کو بہت اہمیت دیتے ہیں اس لیے انہوں نے دونوں مرتبہ پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا ہی کیا 2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دورے کے دوران 350 ملین ڈالر کے دفاعی معاہدے کیے تھے
سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات کی بنیاد 1930 کی دہائی میں رکھی گئی جب امریکی کمپنیوں نے سعودی عرب میں تیل کی تلاش اور پیداوار کا اغاز کیا تھا 1951 میں دونوں ممالک کے درمیان باہمی دفا عی تعاون کا معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت امریکہ نے سعودی عرب کو دفاعی ساز و سامان فراہم کیا تھا 1990 -91 کی خلیجی جنگ ادھر امریکہ نے سعودی عرب میں اپنی فوجیں تہنات کی تاکہ عراق کی طرف سے جارحیت نہ ہونے پائے حالیہ برسوں میں سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں اقتصادی اور دفاعی تعاون کو مرکزی حیثیت رہی ہےـ امریکی صدر کے حالیہ دورے کے دوران توانائی مصنوعی ذہانت اور دفاعی شعبوں میں بڑے معاہدے کیے گئے اس کے علاوہ قطر نے بوئنگ 2010 تیاروں کی خریداری کا معاہدہ کیا جس کی مالیت 96 بلین ڈالر ہے
جب دنیا کی کوئی اہم شخصیت کسی بھی خطے یا ملک کا دورہ کرے تو دنیا کی نظریں اس نقطہ نظر سے بھی جمی رہتی ہیں کہ اس دورے کے اثرات کیا ہوں گے یا کیا ہو رہے ہیں چنانچہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے دوران یہ احساس پایا گیا کہ انہوں نے اسرائیل کو اس دورے میں کوئی مرکزی حیثیت نہیں دی ماضی میں امریکی صدر جب مشرق وسطی کے دورے پر ایا کرتے تھے تو وہ اسرائیل کا دورہ بھی کرتے تھے نہ ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشق کے وسطہ کی اس دورے کے دوران ابراہیم معاہدوں میں شمولیت کا اعلان کرنے پر زور دیا جب ڈالر ٹرمپ کے مشرق وسطے کے دورے کا پلا اور اس میں اسرائیل شامل نہیں کیا گیا اس سے اسرائیلی حکام میں بڑی تشویش کی لہر دوڑی اور اسرائیل میں یہ محسوس کیا گیا کہ شاید امریکا اپنی پالیسی بدل رہا ہے
امریکی صدر کے اس دورے میں متحدہ عرب امارات ہیں اقتصادی عورتوں پر بہت دلچسپی کا اظہار کیا جبکہ اس خطے میں قطر کے ساتھ مل کر علاقائی ذات میں ثالثی کا کردار بھی ادا کر رہا ہے
یہ بھی محسوس کیا گیا کہ ترکیہ امریکی صدر کے دورے کے دوران سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے اور خطے میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے اقدامات بھی کیے ہیں ـ البتہ صدر ٹرمپ نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ جوہری پروگرام پر مذاکرات کرے ورنہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کا سامنا کرے گا گویا امریکہ اور ایران کے درمیان جو کہ شیدگی کئی عشروں سے جاری ہے اس میں مزید تازگی پیدا کر دی گئی ہے اگر جائزہ لیا جائے تو صدر ٹرمپ کا کھا لیا دورہ سعودی عرب دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش ہے تا ہم اس دور کے مشرق وسطی کے دیگر ممالک پر اثرات متنوع پڑھیں گے اور خطے میں طاقت کے توازن پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے
جبکہ یہ احساس بھی ہو رہا ہے کہ گزشتہ برسوں میں جی عرب اور امریکا کے تعلقات میں سرد مہری دیکھی گئی تھی خاص طور پر انسانی حقوق یمن جنگ اور چین اور روس کے ساتھ سعودی عرب کے بڑھتے تعلقات کے تناظر میں یہ سب موری بہت ہی عروج پر نظر ائی تھی اب دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری ا رہی ہے یہاں پر یہ واضح رہے کہ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان پہلے سے دفاعی معاہدہ موجود ہے اور ایک محدود تعداد میں امریکی فوج مخصوص نوعیت کے لیے تعاون کر رہی ہے جو زیادہ تر تربیتی اور مشاورتی کردار ادا کرتی ہے ریاض کے قریب اسکال ویلج میں ایک ایک امریکی فوجی کمپاؤنڈ ہے جہاں مختلف امریکی مشاورتی مشن تعینات ہیں پرنس سلطان ایر بیس میں فوجی مشقوں میں امریکا سمیت آٹھ دیگر ممالک میں شرکت کی جس کا مقصد مشترکہ دفاعی تیاری اور تعاون کو فروغ دینا تھا کنگ خالد ملٹری سٹی جو سعودی عرب کی فوجی تنصیبات میں ہے یہاں امریکی ارمی انجینئرنگ کور کی مدد سے تعمیرات ہوئی ہیں گلف وار کے دوران یہاں امریکی اور اتحادی فوج تعینات رہی اس وقت بھی محدود تعداد میں امریکی فوجیں موجود ہیں امریکی فوج کی موجودگی کا بنیادی مقصد سعودی عرب افواج کی تربیت مشاورت اور دفاعی صلاحیتوں کو بہتر بنانا ہے اس کے علاوہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعلقات بھی گہرے ہیں پاکستانی افواج نے ماضی میں سعودی افواج کی تربیت اور مشاورت میں ایم کردار ادا کیا ہے
جیسے پہلے اوپر ذکر ا چکا ہے کہ اسرائیل کو امریکی صدر کے اس دورے پر تشویش ہے اور وہ صدر ٹرمپ کی تقریر پر محتاط اور قدر مایوس کن رد عمل ظاہر کر رہے ہیں اسی طرح صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو نظر انداز کرتے ہوئے سعودی عرب قطر اور متحدہ عرب امارات پر خصوصی توجہ مرکوز رکھی جس سے اسرائیل کو خطے میں اپنے روایتی اتحادی کے طور پر نظر انداز کرنے کا احساس ہوا اس احساس کی بنیاد پر اسرائیل نے حماس کی حمایت کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیلی حکام کو اس پر تشویش ہے علاوہ ازیں اسرائیل کو شام کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کی بحالی پر بھی تحفظات ہیں جہاں پر سے پابندیاں ہٹانا اور اس کے عبوری صدر احمد الشرعض ملاقات کرنا جس کا ماضی میں القاعدہ سے تعلقات بتائے جاتے ہیں اسے اسرائیل کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیا جا رہا ہے ـ ٹرمپ کی جانب سے امریکی یرغمالی کی رہائی کے لیے حماس کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنا اسرائیل کے لیے ایک اور تشویش ناک کا قدم ہے کیونکہ اسرائیل حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے
ابھی صدر ٹرمپ نے سعودی عرب کا دورہ شروع نہیں کیا تھا اس سے پہلے ہی بعض مبثرین کی یہ رائے سامنے ا رہی تھی کہ شاید امریکی صدر سعودی عرب پر زور ڈالے گا کہ وہ اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کر لے اور اسے تعلقات قائم کرے اور سعودی عرب فلسطین کی ریاست کے قیام کی شرط سے پیچھے ہٹ جائے گا یہ سب اندیشے اندیشے ہی رہ گئے سعودی عرب نے ان تمام اندیشوں کی سختی سے تردید کر دی سعودی وزارت خارجہ نے فوری طور پر تردید کی اور واضح کیا کہ فلسطینی ریاست کا قیام سعودی عرب کی غیر متزلزل پالیسی ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا
ابراہیم معاہدات کا کا بڑا چرچا سننے میں اتا ہے یہ ایک سفارتی اصطلاح ہے جو ان ماہدات کے لیے استعمال ہوتی ہے یہ اسرائیل اور متحدہ عرب ہمارا،بحرین،سوڈان،اور مراکش کے درمیان امریکہ کی ثالثی سے طے پائے تھے یہ معاہدہ 13 اگست 2020 کو سب سے پہلے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان طے پایا گیا تھا اس معاہدے کا نام ابراہیم اس لیے دیا گیا کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تینوں ابراہیمی مذاہب (اسلام،یہودیت،عیسائیت) میں ایک مشترکہ روحانی پیشوا تسلیم کیا جا رہا ہے یہ نام بین المذاہب ہم اہنگی اور پرامن بقائے باہمی کی علامت کے طور پر چنا گیا ہے لیکن اس کے در پردہ اسلامی ممالک میں یہودیت اور عیسائیت کو فروغ دینے کی کاوشیں کی جا رہی ہیں ـ ابراہیم مہجے پر اعتراضات بھی ہو رہے ہیں اور اس کی حمایت بھی ہو رہی ہے امریکہ خاص طور پر ٹرمپ انتظامیہ نے اسے مشرق وسطی میں امن کے لیے تاریخی قدم قرار دیا ہے جبکہ اسرائیل نے اس معاہدے سے بہت فائدہ اٹھایا ہے خاص طور پر تجارتی اور دفاعی شعبے میں اسی طرح ایران اور ترکیا نے اس معاہدے پر صدیق ترین تنقید کی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل اس معاہدے کی اڑ میں مشرق وسطی میں پوری طرح گھسنا چاہتا ہے اور اپنے مفادات کے استحکام کے ساتھ ساتھ اس کا فروغ بھی جاتا ہے بہرحال سعودی عرب اور امارات کا امریکی صدر کے دورے سے گہرے اثرات مرتب ہوں گے جو چند مہینوں میں ہی ظہور پذیر ہونا شروع ہو جائیں گے
Author
-
صحافت میں ایک ممتاز کیریئر کے ساتھ ، میں نے یو ایس اے ٹوڈے اور وائس آف امریکہ کے نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیں ، اے ایف پی اور اے پی کے لیے رپورٹنگ کی ، اور ڈیلی خبرائن اور اردو نیوز جیسے بڑے آؤٹ لیٹس کے لیے بیورو چیف اور رہائشی ایڈیٹر سمیت سینئر کردار ادا کیے ۔
View all posts