Nigah

مصنوعی ذہانت کا آغاز پس منظر، مثبت و منفی پہلو اور معاشرے پر پڑنے والے اثرات

دنیا تیزی سے ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ رہی ہے، اور اس سفر میں مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence ) انقلابی تبدیلی کا باعث بنی ہے۔ جہاں انسان نے پہیہ ایجاد کر کے ترقی کی راہیں کھولیں، وہیں اب اے آئی کی بدولت انسان مشینوں کو "سوچنے” اور "فیصلے کرنے” کے قابل بنا چکا ہے۔

موجودہ دور میں آرٹیفشل انٹیلی جنس کا آغاز

مصنوعی ذہانت کا تصور نیا نہیں، مگر موجودہ دور میں اس کا حقیقی آغاز 2010 کے بعد ہوا، جب کمپیوٹر کی رفتار، اسٹوریج، اور ڈیٹا تک رسائی میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ اس ترقی نے مصنوعی ذہانت کو سائنسی تجربات سے نکال کر عملی زندگی میں لا کھڑا کیا۔

2012 میں ایک اہم کامیابی نے آرٹیفشل انٹیلی جنس کی دنیا میں انقلاب برپا کیا، جب "AlexNet” نامی ڈیپ لرننگ ماڈل نے تصویری شناخت کے ایک بین الاقوامی مقابلے میں بہترین کارکردگی دکھائی۔ اسی واقعے کو جدید اے آئی کا نقطۂ آغاز مانا جاتا ہے۔ اس کے بعد بڑی ٹیک کمپنیاں جیسے گوگل، فیس بک، مائیکرو سافٹ، اور ایمیزون نے آرٹیفشل انٹیلی جنس میں بھرپور سرمایہ کاری کی، اور آج ہم آرٹیفشل انٹیلی جنس کا مختلف شعبوں میں استعمال دیکھ رہے ہیں۔

پس منظر

مصنوعی ذہانت کا نظریاتی آغاز 1950 کی دہائی میں ہوا، جب برطانوی ریاضی دان ایلن ٹیورنگ نے یہ سوال اٹھایا کہ "کیا مشینیں سوچ سکتی ہیں؟”۔ ان کے پیش کردہ "ٹیورنگ ٹیسٹ” کو آج بھی اے آئی کے معیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

1956 میں "ڈارٹ ماؤتھ کانفرنس” میں آرٹیفشل انٹیلی جنس کی اصطلاح پہلی بار استعمال ہوئی، جسے اس کی پیدائش کا نقطہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد کئی دہائیوں تک اے آئی تحقیق اور تجربات سے گزرتا رہا کیونکہ اس وقت کمپیوٹرز میں مطلوبہ طاقت موجود نہ تھی۔تاہم، جیسے ہی انٹرنیٹ عام ہوا، ڈیٹا وافر مقدار میں دستیاب ہوا، اور کمپیوٹرز طاقتور بنے، ویسے ہی اے آئی نے تیزی سے ترقی کی راہ پکڑ لی۔

مثبت پہلو
آرٹیفشل انٹیلی جنس نے زندگی کے کئی شعبوں میں حیران کن بہتری لائی ہے۔
اے آئی کی مدد سے کینسر، دل کے امراض اور دیگر پیچیدہ بیماریوں کی ابتدائی تشخیص ممکن ہو گئی ہے۔ روبوٹس سرجری میں ڈاکٹروں کی مدد کر رہے ہیں۔
تعلیم کے میدان میں ہر طالب علم کو صلاحیت کے مطابق سیکھنے کے مواقع مل رہے ہیں۔ آن لائن لرننگ مزید مؤثر ہو گئی ہے۔
کارخانوں میں اے آئی روبوٹس کام کی رفتار اور معیار میں اضافہ کر رہے ہیں۔ خودکار سسٹمز پروڈکشن کو زیادہ مؤثر اور کم خرچ بنا رہے ہیں۔
ہماری روزمرہ زندگیوں میں اے آئی اسسٹنٹس (جیسے Siri، Alexa)، گوگل میپس، آن لائن شاپنگ میں سفارشات، اور ترجمے کی سہولیات نے عام انسان کی زندگی کو آسان بنایا ہے۔
فصلوں کی نگرانی، کیڑوں کی شناخت، اور بہتر پیداوار کے لیے اے آئی مشورے دے رہا ہے، جو ترقی پذیر ممالک کے لیے نعمت ہے۔

منفی پہلو

جہاں آرٹیفشل انٹیلی جنس نے آسانیاں پیدا کی ہیں، وہیں اس کے کئی منفی پہلو بھی ہیں، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
خودکار مشینیں اور روبوٹس انسانوں کی جگہ لے رہے ہیں، جس سے ملازمتوں میں کمی آ رہی ہے، خصوصاً محنت کش طبقہ متاثر ہو رہا ہے۔
اے آئی کی بنیاد ڈیٹا پر ہے، اور اس ڈیٹا کے غلط استعمال سے لوگوں کی ذاتی معلومات خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
اے آئی کی مدد سے جعلی ویڈیوز اور جھوٹی خبریں بنانا آسان ہو گیا ہے، جو سچ اور جھوٹ میں تمیز کو مشکل بنا رہی ہیں۔
اگر آرٹیفشل انٹیلی کو بغیر نگرانی کے فیصلے کرنے کی اجازت دی جائے، تو وہ ایسے فیصلے بھی لے سکتا ہے جو اخلاقی یا قانونی حدود سے باہر ہوں۔

اثرات
اے آئی کے معاشرتی اثرات گہرے اور ہمہ گیر ہیں۔ یہ تبدیلیاں مثبت بھی ہیں اور چیلنجز بھی پیدا کر رہی ہیں
اے آئی نے علم، صحت، تعلیم اور سروسز کو عام انسان کے قریب کر دیا ہے۔ دیہی علاقوں میں بھی آن لائن سہولیات کی رسائی ممکن ہو رہی ہے۔
اے آئی کی بدولت ہر طالب علم کو اپنی دلچسپی اور ضرورت کے مطابق سیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔
اے آئی کا جہاں ترقی یافتہ ممالک کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں، وہیں ترقی پذیر اقوام پیچھے رہ سکتی ہیں۔ یہ فرق عالمی سطح پر معاشی عدم توازن کو بڑھا سکتا ہے۔
اے آئی پر انحصار نے انسانوں کو فکری اور مشینی سوچ والا بنانے کا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ فیصلہ سازی میں انسانی شعور کمزور پڑ سکتا ہے۔
اے آئی کی بدولت نئے نئے شعبے سامنے آ رہے ہیں جیسے ڈیٹا سائنس، مشین لرننگ، روبوٹکس، وغیرہ — جو نئی نوکریوں کا سبب بن رہے ہیں۔
مصنوعی ذہانت انقلابی ایجاد ہےجو اگر درست سمت میں استعمال ہو تو انسانیت کے لیے نعمت بن سکتی ہے، لیکن اگر اس کے استعمال میں بے احتیاطی برتی گئی تو یہ سماج، معیشت اور انسانیت کے لیے خطرہ بھی بن سکتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم AI کو اخلاقی، قانونی اور انسانی اصولوں کے تحت ترقی دیں۔ ساتھ ہی معاشرے کو اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے مطابق تیار کریں۔۔

Author

  • سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
    یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025

    بیورو چیف، پی این این، پشاور
    جنوری 2023 تا جنوری 2024

    بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
    16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023

    سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
    22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017

    سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
    16 فروری 2005 تا 21 جون 2008

    رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
    یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005

    رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
    فروری 2000 تا 30 نومبر 2003

     

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔