چین کے دارلحکومت بیجنگ میں پاکستان، افغانستان اور چینی قیادت کے اجلاس نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان عقیدہ، ثقافت اور جغرافیہ کی گہرائیوں میں جڑے تعلقات کسی بھی دیگر دو ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور فطری ہیں۔ ان مشترکہ بنیادوں پر دوطرفہ تعاون نہ صرف ممکن بلکہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔ موجودہ علاقائی اور عالمی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون کو فروغ دیا جائے اور اس راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔
پاک افغان سرحد ہزاروں کلومیٹر پر مشتمل ہے، لیکن اس سرحد نے کبھی بھی دونوں اقوام کے درمیان ثقافتی اور مذہبی رشتوں کو کمزور نہیں کیا۔ دونوں ممالک کے عوام نہ صرف زبان، لباس اور رہن سہن کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں بلکہ ان کے دل بھی ایک دوسرے کے لیے دھڑکتے ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہے جو تعاون کو فطری اور ضروری بناتی ہے۔
بیجنگ اجلاس میں تینوں ممالک نے تسلیم کیا کہ افغانستان کا طویل مدتی استحکام پاکستان کی شرکت اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے امن، سلامتی اور ترقی کے لیے مثبت کردار ادا کیا ہے۔ ماضی کے تلخ تجربات اور موجودہ چیلنجز کے باوجود پاکستان نے افغانستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ اب یہ فیصلہ طالبان قیادت کو کرنا ہے کہ وہ تنہائی کا راستہ اختیار کرتی ہے یا بین الاقوامی مصروفیت کا۔
افغانستان اس وقت اقتصادی مسائل، انسانی بحران اور عالمی تنہائی جیسے سنگین چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں علاقائی رنجشوں کو ہوا دینا خود افغانستان کے مفاد میں نہیں۔ اس کی معاشی بقا تجارت، سرمایہ کاری اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات سے مشروط ہے۔ پاکستان نہ صرف افغانستان کے لئے سب سے قریبی اور کم لاگت والا تجارتی راستہ فراہم کرتا ہے بلکہ اس کی بندرگاہیں، سڑکیں اور ریلوے افغانستان کو وسطی ایشیا سے جوڑنے کا قدرتی ذریعہ بھی ہیں۔
کسی بھی تجارتی راہداری کا افغانستان کو جو فائدہ پاکستان دے سکتا ہے، وہ کوئی دوسرا ملک نہیں دے سکتا۔ یہی حقیقت افغانستان کے لیے موقع ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو نئی جہت دے اور اس حقیقت کو نظر انداز کرنا دراصل خود اپنی ترقی میں تاخیر کا باعث ہوگا۔
پاکستان کو ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے حوالے سے تحفظات ہیں۔جو افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں۔
اگر افغانستان ان گروپوں کے خلاف موثر اقدامات اٹھاتا ہے اور خطے میں امن و استحکام کے لیے عملی اقدامات کرتا ہے تو نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ اعتماد کا رشتہ مضبوط ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں بھی طالبان کی حکومت کو دہشت گردی سے وابستہ حکومت کے بجائے ایک ممکنہ سیاسی حقیقت کے طور پر تسلیم کرنے پر غور کر سکتی ہیں۔
*ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے بارے میں علاقائی خدشات کو دور کرنے سے نہ صرف پڑوسیوں کے ساتھ اعتماد میں بہتری آئے گی بلکہ سیاسی شناخت کے لیے آئی اے جی کے کیس کو بھی تقویت ملے گی * تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے بارے میں علاقائی خدشات ایک سنگین مسئلہ ہیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ہمسایہ ممالک کے لیے بھی باعثِ تشویش ہیں۔ ان گروپوں کی موجودگی اور ان کی افغانستان کی سرزمین سے مبینہ سرگرمیاں، خطے میں سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔ اس تناظر میں، عبوری افغان حکومت (Interim Afghan Government – IAG) کے لیے یہ ایک نازک مگر اہم موقع ہے کہ وہ ان گروپوں کے حوالے سے علاقائی تحفظات کو سنجیدگی سے لے اور ان کے تدارک کے لیے عملی اقدامات کرے۔
اگر IAG ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد عناصر کے خلاف واضح اور موثر کارروائیاں کرتی ہے، تو یہ قدم نہ صرف پڑوسی ممالک، خاص طور پر پاکستان، کے ساتھ اعتماد سازی میں معاون ہوگا بلکہ یہ افغانستان کو علاقائی انضمام کے راستے پر بھی ڈالے گا۔ یہ اقدامات ظاہر کریں گے کہ افغانستان کسی بھی دہشت گرد گروہ کو اپنی سر زمین کو ہمسایہ ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے رہا، جو ایک ذمہ دار ریاست کی علامت ہے۔
مزید برآں، ایسے اقدامات IAG کے بین الاقوامی سطح پر سیاسی شناخت اور قبولیت کے امکانات کو بھی بڑھا سکتے ہیں۔ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں فی الحال طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہیں، اور ایک بڑی وجہ ان کی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مبینہ روابط ہیں۔ اگر IAG ان گروپوں کے خلاف واضح مؤقف اپناتی ہے اور عملی سطح پر ان کے خلاف کارروائیاں کرتی ہے، تو امریکہ کو بھی اپنے موجودہ مؤقف پر نظرثانی کرنے کا جواز مل سکتا ہے۔
یہ نکتہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ امریکہ کی جانب سے طالبان حکومت کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کا موقف بین الاقوامی سطح پر ان کی سفارتی حیثیت کو محدود کرتا ہے اور افغانستان کو مالی امداد، سرمایہ کاری، اور ترقیاتی منصوبوں سے محروم رکھتا ہے۔ اگر IAG اس رکاوٹ کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے، تو اسے نہ صرف علاقائی حمایت حاصل ہو سکتی ہے بلکہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے بھی سیاسی اور معاشی معاونت کے دروازے کھل سکتے ہیں۔
لہٰذا، دہشت گردی کے حوالے سے علاقائی خدشات کا حل IAG کے لیے داخلی استحکام، علاقائی ہم آہنگی، اور بین الاقوامی شناخت حاصل کرنے کے لیے ایک فیصلہ کن قدم بن سکتا ہے۔
چین اس سارے عمل میں متحرک اور ذمہ دار شراکت دار کے طور پر سامنے آیا ہے۔ چین نے افغانستان کے حوالے سے حقیقت پسندانہ پالیسی اپنائی ہے اور مشکل وقت میں افغان قیادت کا ساتھ دیا ہے۔ اس کے برعکس بعض دیگر ممالک نے صرف بیانات تک خود کو محدود رکھا یا اپنی سیاسی پالیسیوں کے تحت افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا۔ چین کا کردار طالبان قیادت کے لیے آئینہ ہے کہ کون اصل شراکت دار ہے اور کون محض موقع پرست۔
بیجنگ اجلاس میں یہ بھی واضح ہو گیا کہ چین کا علاقائی نقطہ نظر انتشار اور تنازع سے فائدہ اٹھانے والوں کو الگ کر رہا ہے اور تعاون کے ذریعے امن کو فروغ دینے والوں کو بااختیار بنا رہا ہے۔ یہی وہ نقطہ نظر ہے جس پر پاکستان، افغانستان اور چین کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
کابل میں ہونے والا حالیہ سربراہی اجلاس طالبان حکومت کیلئے اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ عالمی برادری سے انکار کرنا اور مصروفیت سے گریز کرنا عدم تحفظ کو جنم دیتا ہے۔ اس کے برعکس، بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے نہ صرف مسائل کا حل ممکن ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر مثبت تاثر بھی پیدا کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب افغانستان کو چاہیے کہ وہ کھلے دل سے بات چیت کا عمل اپنائے اور اپنے رویے میں وہ لچک دکھائے جو بین الاقوامی تعلقات کی کامیابی کی بنیاد ہوتی ہے۔
پاکستان، افغانستان اور چین تینوں ممالک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں تعاون کا راستہ نہ صرف ان کی اپنی ترقی بلکہ پورے خطے کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔ اس راہ میں سب سے اہم عنصر باہمی اعتماد، حقیقت پسندانہ سوچ اور مشترکہ مفادات پر مبنی پالیسی ہے۔ افغانستان کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مثبت اور دیرپا تعلقات استوار کرے تاکہ اس کی معاشی، سیاسی اور سماجی ترقی کو تقویت ملے۔
پاکستان نے ہمیشہ بھائی چارے، امن اور ترقی کے جذبے کے تحت افغانستان کا ساتھ دیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ افغانستان اسی جذبے کے تحت پاکستان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے۔
خطے کا مستقبل مشترکہ ترقی اور ہم آہنگی میں پوشیدہ ہے اور یہی وہ پیغام ہے جو بیجنگ اجلاس نے دنیا کو دیا ہے۔
Author
-
مصنف ایک معزز میڈیا پیشہ ور ہیں جو نیشنل نیوز چینل ایچ ڈی کے چیف ایگزیکٹو اور "دی فرنٹیئر انٹرپشن رپورٹ" کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ان سے پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔
View all posts