Nigah

اسرائیلی مظالم ۔۔۔ یورپ کا ضمیر جاگ اثھا

اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ اقدامات کی تکمیل کے لئے نہتے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی خاطر نا ختم ہونے والے مظالم اور جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے اس کے خلاف
آئرلینڈ کے نائب وزیرِاعظم سائمن ہیرس اور برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈلیمی کی طرف سے آواز اٹھانا اور غزہ میں اسرائیلی مظالم کی کھل کر مذمت، فوجی آپریشن بند کرنے اور فوری طور پر انسانی بنیاد پر رسائی کا مطالبہ کیا ہے
جو نہ صرف بین الاقوامی سطح پر ایک اہم تبدیلی کی جانب اشارہ کرتاہے بلکہ ان دونوں مغربی کی عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوششوں کا نقطئہ آغاز گردانتے ہیں۔
پاکستان جو دو ریاستی فامولے کا داعی ہے ان ممالک کی اخلاقی جرات کو سراہتا ہے، جنہوں نے نہ صرف اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے آواز اٹھائی بلکہ غزہ میں انسانی امداد کی فوری فراہمی کا مطالبہ بھی کیا۔

پاکستان نے ائرلینڈ اور یورپی یونین کے اتحادیوں کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کو بند کرنے کے مطالبے کو سراہا اور اس بات پر زور دیا کہ مغربی ممالک کی اخلاقی قیادت کو اس نسل کشی کو روکنے کے لیے فوری عملی اقدام کرنا چاہیے۔ پاکستان نے ہمیشہ ہر عالمی فورم پر اسرائیلی بربریت کی مذمت کی اور دوست ممالک کے ساتھ مل کر مسئلے کے حل کے لیے کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان کا موقف واضح ہے کہ اسرائیلی جارحیت کا یہ بھیانک عمل جنگ بندی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے اوریہ خطرناک تناؤ پورے خطے کو ایک بار پھر عدم استحکام کی طرف دھکیلنےکی نشاندھی ہے پاکستان عالمی برادری پر زور دیتا رہتا ہے کہ وہ تشدد کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرے، غزہ اور مشرق وسطی میں فوری اور دیرپا امن کے لیے سفارتی کوششیں بھرپور انداز میں شروع کرے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے بعد صیہونی فوجیں بلا ناغہ غزہ پر وحشیانہ بمباری کررہی ہیں خاص طور پر ہسپتالوں سکولوں اور فلسطینی کیمپوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے عالمی ادارہ صحت کے مطابق غزہ میں 95 فیصد اسپتال اور طبی مراکز ملیا میٹ ہو چکے ہیں اور باقی ماندہ ہسپتالوں میں طبی آلات اور ادویات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اسرائیل اور فلسطین کا تنازعہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ یہ تنازعہ 1948ء سے شروع ہوا، جب اسرائیل کا قیام عمل میں آیا اور لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا۔
کئی دہائیوں کی نسلی تطہیر اور نسل پرستی نے اس بحران کو جنم دیا امن صرف عارضی جنگ بندی کا نہیں بلکہ اسرائیل کی جبر کے نظام کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔حالیہ برسوں میں غزہ، جہاں لاکھوں فلسطینی محصور ہیں، ایک کھلی جیل جیسی صورتِ حال اختیار کر چکا ہے۔ اسرائیل کی ناکہ بندی کی بدولت غزہ کے شہریوں کو قحط جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔ غزہ کی سرحد پر امدادی سامان سے لدے ہزاروں ٹرک کھڑے ہیں لیکن اسرائیلی ہٹ دھرمی کے آگے اقوام متحدہ اور دیگر ممالک بے بس نظر آتے ہیں۔ غزہ میں انسانیت سسک رہی ہے۔
گزشتہ چند ماہ میں اسرائیل کی طرف سے غزہ پر شدید بمباری کی گئی، جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہری شہیدہو گئے، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔ کھانے پینے کی اشیاء ناپید ہو چکی ہیں، اور پانی تک میسر نہیں۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری امداد نہ پہنچی تو 14 ہزارسے زائد بچے جلد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو غزہ کے بچوں کو بچانے کے لیے اب کاروائی کرنی چاہیے۔ اسرائیلی مظالم کھلے عام جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ غزہ پر جاری بمباری اور محاصرہ بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق شہری آبادی کو نشانہ بنانا، خوراک اور ادویات کی فراہمی کو روکنا جنگی جرائم کی بد ترین مثال ہے۔عالمی برادری اسرائیل کو ان مظالم پر جوابدہ بنائے، ہتھیاروں پر پابندی نافذ کرے اور اسرائیل کو بغیر کسی تاخیر کے ائی سی سی کے حوالے کرے۔عالمی طاقتوں کی خاموشی اور دوہرے معیار نے اسرائیل کے مظالم کو ہوا دی۔یورپی یونین کا موقف ایک اہم لمحہ ہے اسے اسرائیل اور اس کے ساتھیوں کو جواب دہ ٹھہرانے، قبضہ ختم کرنے، فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو یقینی بنانے جیسے حقیقی اقدامات کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ فلسطینی علاقوں پر قبضہ، گھروں کو مسمار کرنا، عبادت گاہوں پر حملے اور شہریوں کو نشانہ بنانا ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ یہ نظام نسلی امتیاز اور ظلم کی بنیاد پر کھڑا ہے، جسے ختم کیے بغیر امن ممکن نہیں۔
آئرلینڈ اور برطانیہ کے رہنماؤں کی طرف سے دیے گئے بیانات امید کی کرن ہیں۔ ان رہنماؤں نے غزہ میں فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ پاکستان بھی انہی مطالبات کی حمایت کرتا ہے اور دنیا بھر کی اقوام سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خاموشی توڑیں اور مظلوموں کی حمایت کریں۔جنگ بندی اور مکمل انسانی رسائی ضروری ہے۔ برطانیہ کی مذمت کو پابندیوں کے ساتھ ملانا چاہیے۔پاکستان فلسطین کے مسئلے کا حل دو ریاستی حل میں دیکھتا ہے۔ ایک ایسی صورت،جس میں فلسطینیوں کو اپنی خودمختار ریاست ملے ۔جب تک فلسطینیوں کو ان کا حقِ خود ارادیت اور آزادی نہیں ملتی، اس وقت تک خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں۔ یورپی یونین دنیا کا ایک طاقتور بلاک ہے۔ اگر وہ اسرائیلی مظالم کے خلاف واضح موقف اختیار کرے، تو اس کے اثرات عالمی سطح پر ہوں گے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ یورپ صرف بیانات نہ دے، بلکہ عملی اقدامات کرے۔ ان میں اسرائیل پر اسلحہ کی پابندی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات، اور فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت شامل ہو سکتی ہے۔
نسل پرستی اور اسرائیل کی فلسطینیوں پر مظالم کی تاریخ کئی دہائیوں پر مبنی ہے۔
اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل خاموش تماشائی نہیں رہنا چاہئیے۔ سلامتی کونسل عملی اقدام کرے، اسرائیل کے خلاف قراردادیں پاس کرے، اور انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنائے۔ اگر اقوام متحدہ نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو اس کا وجود اور وقار دونوں سوالیہ نشان بن جائیں گے۔ چین، روس، مسلم دنیا کا کردار دنیا کے دیگر بڑے ممالک جیسے چین، روس، ترکی اور مسلم دنیا کو بھی ایک واضح اور متحدہ موقف اختیار کرنا ہوگا۔ اگر اسلامی دنیا متحد ہو کر فلسطین کے حق میں آواز بلند کرے تو بین الاقوامی برادری پر دباؤ بڑھے گا۔ ساتھ ہی غیر مسلم ممالک کو بھی اپنے ضمیر کو جگانا ہوگا۔ اب وقت عمل کا ہے پاکستان یورپی یونین اور برطانیہ کے ان رہنماؤں کی اخلاقی قیادت کو سراہتا ہے جنہوں نے مظلوموں کا ساتھ دیا۔ غزہ کے بچے، خواتین اور معصوم عوام دنیا کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ ان کی نظریں عالمی ضمیر پر لگی ہوئی ہیں۔ اگر دنیا آج خاموش رہی تو کل یہ آگ ہر دروازے تک پہنچ سکتی ہے۔ انسانی ہمدردی، انصاف اور قانون کا تقاضا ہے کہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہوا جائے۔ وقت آ چکا ہے کہ انسانیت کو بچایا جائے، اور مظلوموں کے لیے انصاف کا راستہ کھولا جائے۔

اسرائیلی مظالم ۔۔۔ یورپ کا ضمیر جاگ اثھا

تحریر ۔۔ ناصر حسین

اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ اقدامات کی تکمیل کے لئے نہتے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی خاطر نا ختم ہونے والے مظالم اور جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے اس کے خلاف
آئرلینڈ کے نائب وزیرِاعظم سائمن ہیرس اور برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈلیمی کی طرف سے آواز اٹھانا اور غزہ میں اسرائیلی مظالم کی کھل کر مذمت، فوجی آپریشن بند کرنے اور فوری طور پر انسانی بنیاد پر رسائی کا مطالبہ کیا ہے
جو نہ صرف بین الاقوامی سطح پر ایک اہم تبدیلی کی جانب اشارہ کرتاہے بلکہ ان دونوں مغربی کی عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوششوں کا نقطئہ آغاز گردانتے ہیں۔
پاکستان جو دو ریاستی فامولے کا داعی ہے ان ممالک کی اخلاقی جرات کو سراہتا ہے، جنہوں نے نہ صرف اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے آواز اٹھائی بلکہ غزہ میں انسانی امداد کی فوری فراہمی کا مطالبہ بھی کیا۔

پاکستان نے ائرلینڈ اور یورپی یونین کے اتحادیوں کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کو بند کرنے کے مطالبے کو سراہا اور اس بات پر زور دیا کہ مغربی ممالک کی اخلاقی قیادت کو اس نسل کشی کو روکنے کے لیے فوری عملی اقدام کرنا چاہیے۔ پاکستان نے ہمیشہ ہر عالمی فورم پر اسرائیلی بربریت کی مذمت کی اور دوست ممالک کے ساتھ مل کر مسئلے کے حل کے لیے کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان کا موقف واضح ہے کہ اسرائیلی جارحیت کا یہ بھیانک عمل جنگ بندی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے اوریہ خطرناک تناؤ پورے خطے کو ایک بار پھر عدم استحکام کی طرف دھکیلنےکی نشاندھی ہے پاکستان عالمی برادری پر زور دیتا رہتا ہے کہ وہ تشدد کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرے، غزہ اور مشرق وسطی میں فوری اور دیرپا امن کے لیے سفارتی کوششیں بھرپور انداز میں شروع کرے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے بعد صیہونی فوجیں بلا ناغہ غزہ پر وحشیانہ بمباری کررہی ہیں خاص طور پر ہسپتالوں سکولوں اور فلسطینی کیمپوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے عالمی ادارہ صحت کے مطابق غزہ میں 95 فیصد اسپتال اور طبی مراکز ملیا میٹ ہو چکے ہیں اور باقی ماندہ ہسپتالوں میں طبی آلات اور ادویات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اسرائیل اور فلسطین کا تنازعہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ یہ تنازعہ 1948ء سے شروع ہوا، جب اسرائیل کا قیام عمل میں آیا اور لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا۔
کئی دہائیوں کی نسلی تطہیر اور نسل پرستی نے اس بحران کو جنم دیا امن صرف عارضی جنگ بندی کا نہیں بلکہ اسرائیل کی جبر کے نظام کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔حالیہ برسوں میں غزہ، جہاں لاکھوں فلسطینی محصور ہیں، ایک کھلی جیل جیسی صورتِ حال اختیار کر چکا ہے۔ اسرائیل کی ناکہ بندی کی بدولت غزہ کے شہریوں کو قحط جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔ غزہ کی سرحد پر امدادی سامان سے لدے ہزاروں ٹرک کھڑے ہیں لیکن اسرائیلی ہٹ دھرمی کے آگے اقوام متحدہ اور دیگر ممالک بے بس نظر آتے ہیں۔ غزہ میں انسانیت سسک رہی ہے۔
گزشتہ چند ماہ میں اسرائیل کی طرف سے غزہ پر شدید بمباری کی گئی، جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہری شہیدہو گئے، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔ کھانے پینے کی اشیاء ناپید ہو چکی ہیں، اور پانی تک میسر نہیں۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری امداد نہ پہنچی تو 14 ہزارسے زائد بچے جلد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو غزہ کے بچوں کو بچانے کے لیے اب کاروائی کرنی چاہیے۔ اسرائیلی مظالم کھلے عام جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ غزہ پر جاری بمباری اور محاصرہ بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق شہری آبادی کو نشانہ بنانا، خوراک اور ادویات کی فراہمی کو روکنا جنگی جرائم کی بد ترین مثال ہے۔عالمی برادری اسرائیل کو ان مظالم پر جوابدہ بنائے، ہتھیاروں پر پابندی نافذ کرے اور اسرائیل کو بغیر کسی تاخیر کے ائی سی سی کے حوالے کرے۔عالمی طاقتوں کی خاموشی اور دوہرے معیار نے اسرائیل کے مظالم کو ہوا دی۔یورپی یونین کا موقف ایک اہم لمحہ ہے اسے اسرائیل اور اس کے ساتھیوں کو جواب دہ ٹھہرانے، قبضہ ختم کرنے، فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو یقینی بنانے جیسے حقیقی اقدامات کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ فلسطینی علاقوں پر قبضہ، گھروں کو مسمار کرنا، عبادت گاہوں پر حملے اور شہریوں کو نشانہ بنانا ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ یہ نظام نسلی امتیاز اور ظلم کی بنیاد پر کھڑا ہے، جسے ختم کیے بغیر امن ممکن نہیں۔
آئرلینڈ اور برطانیہ کے رہنماؤں کی طرف سے دیے گئے بیانات امید کی کرن ہیں۔ ان رہنماؤں نے غزہ میں فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ پاکستان بھی انہی مطالبات کی حمایت کرتا ہے اور دنیا بھر کی اقوام سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خاموشی توڑیں اور مظلوموں کی حمایت کریں۔جنگ بندی اور مکمل انسانی رسائی ضروری ہے۔ برطانیہ کی مذمت کو پابندیوں کے ساتھ ملانا چاہیے۔پاکستان فلسطین کے مسئلے کا حل دو ریاستی حل میں دیکھتا ہے۔ ایک ایسی صورت،جس میں فلسطینیوں کو اپنی خودمختار ریاست ملے ۔جب تک فلسطینیوں کو ان کا حقِ خود ارادیت اور آزادی نہیں ملتی، اس وقت تک خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں۔ یورپی یونین دنیا کا ایک طاقتور بلاک ہے۔ اگر وہ اسرائیلی مظالم کے خلاف واضح موقف اختیار کرے، تو اس کے اثرات عالمی سطح پر ہوں گے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ یورپ صرف بیانات نہ دے، بلکہ عملی اقدامات کرے۔ ان میں اسرائیل پر اسلحہ کی پابندی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات، اور فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت شامل ہو سکتی ہے۔
نسل پرستی اور اسرائیل کی فلسطینیوں پر مظالم کی تاریخ کئی دہائیوں پر مبنی ہے۔
اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل خاموش تماشائی نہیں رہنا چاہئیے۔ سلامتی کونسل عملی اقدام کرے، اسرائیل کے خلاف قراردادیں پاس کرے، اور انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنائے۔ اگر اقوام متحدہ نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو اس کا وجود اور وقار دونوں سوالیہ نشان بن جائیں گے۔ چین، روس، مسلم دنیا کا کردار دنیا کے دیگر بڑے ممالک جیسے چین، روس، ترکی اور مسلم دنیا کو بھی ایک واضح اور متحدہ موقف اختیار کرنا ہوگا۔ اگر اسلامی دنیا متحد ہو کر فلسطین کے حق میں آواز بلند کرے تو بین الاقوامی برادری پر دباؤ بڑھے گا۔ ساتھ ہی غیر مسلم ممالک کو بھی اپنے ضمیر کو جگانا ہوگا۔ اب وقت عمل کا ہے پاکستان یورپی یونین اور برطانیہ کے ان رہنماؤں کی اخلاقی قیادت کو سراہتا ہے جنہوں نے مظلوموں کا ساتھ دیا۔ غزہ کے بچے، خواتین اور معصوم عوام دنیا کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ ان کی نظریں عالمی ضمیر پر لگی ہوئی ہیں۔ اگر دنیا آج خاموش رہی تو کل یہ آگ ہر دروازے تک پہنچ سکتی ہے۔ انسانی ہمدردی، انصاف اور قانون کا تقاضا ہے کہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہوا جائے۔ وقت آ چکا ہے کہ انسانیت کو بچایا جائے، اور مظلوموں کے لیے انصاف کا راستہ کھولا جائے۔

Author

  • ایک تجربہ کار صحافی ہیں جن کا 30 سال کا تحریری تجربہ ہے ۔انہوں نے ڈیلی مشرق ، ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی آج سمیت معروف اخبارات میں تعاون کیا ہے ۔:

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔