Nigah

اسلام امن، محبت اور انسانیت کا دین ہے۔

 

اسلام ایک ایسا دین ہے جو امن، سلامتی، محبت، سچائی، دیانت اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے۔ اس دین کے بنیادی اصولوں میں انسانیت کی حفاظت، عدل و انصاف کا قیام، اور مظلوم کی حمایت شامل ہیں۔نبی آخرالزاماں نے اسلام کا پیغام تلوار سے نہیں اپنے حسن اخلاق سے پھیلایا ان کے بعد صحابہ کرام اور بزرگان دین نے بھی ان کی پیروی کی اور اللہ کی وحدانیت کا پیغام امن اور سلامتی کے ذریعے دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا۔ بدقسمتی سے آج کے دور میں کچھ عناصر اسلام جیسے پرامن دین کو تشدد، نفرت اور دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی باتوں اور اعمال کا نہ تو قرآن سے کوئی تعلق ہے، نہ سیرتِ نبوی سے اور نہ ہی اسلامی تاریخ سے۔ ایسے افراد اسلام کی روح کو مسخ کرکے اپنے سیاسی یا ذاتی مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں، جو کہ کھلی منافقت ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"جس نے کسی انسان کو
بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد پھیلانے کے قتل کیا، گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا۔”(سورہ المائدہ، 5:32)یہ آیت واضح کرتی ہے کہ ایک بے گناہ انسان کی جان لینا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ اسلام کسی فرد یا گروہ کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر دوسروں کی جان لے۔ دینِ اسلام میں انسان کی جان، مال، عزت اور آبرو کو اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ کی پوری حیات طیبہ امن، صبر اور برداشت کا پیکر ہے۔ مکہ میں تیرہ برس کی سخت اذیتیں برداشت کرنے کے باوجود آپ ﷺ نے کبھی ظلم یا تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ طائف میں پتھروں سے زخمی کیے جانے کے بعد بھی آپ ﷺ نے اُن کے لیے بددعا نہیں کی بلکہ فرمایا: "اے اللہ! ان کو ہدایت دے، کیونکہ یہ نہیں جانتے۔”
فتح مکہ کے موقع پر جب آپ ﷺ کو اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل ہوا تو آپ نے انتقام لینے کے بجائے عام معافی کا اعلان کیا۔ یہ وہ تعلیمات ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ اسلام انتقام نہیں بلکہ معافی، عدل اور اصلاح کا دین ہے۔
دہشت گردی ایک ایسا فعل ہے جو نہ صرف شریعت کے بنیادی اصولوں سے ٹکراتا ہے بلکہ انسانیت کی بنیادوں کو بھی ہلا دیتا ہے۔ اسلام میں کسی بے گناہ پر حملہ کرنا، عوامی مقامات پر دھماکے کرنا، معصوم شہریوں کوہدف بنانا،یا ریاستی اداروں کے خلاف مسلح جدوجہد سراسر حرام ہے۔
اسلام جنگ کے قانوناور اصول بھی مقرر کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جہاد کے دوران سختی سے منع فرمایا کہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں، راہبوں، اور غیر مسلح افراد کو قتل نہ کیا جائے، فصلیں نہ جلائی جائیں، اور عبادت گاہوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ یہ تمام احکامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام کسی بھی صورت میں اندھی طاقت کے استعمال کو جائز نہیں سمجھتا۔ مذہب کو تشدد کا جواز بنانے والے منافق ہیں۔
وہ لوگ جو اسلام کے نام پر بم دھماکے کرتے ہیں، گولیاں چلاتے ہیں، نہتے شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں اور لوگوں کو ڈراتے ہیں، وہ دراصل نہ تو اسلام کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی ایمان کی حقیقت کو۔ یہ افراد خارجی فکر سے متاثر ہوکر اسلام کو بدنام کرتے ہیں۔ خارجی وہ گروہ تھے جنہوں نے حضرت علیؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ کے خلاف ہتھیار اٹھائے اور دین کے نام پر فتنہ پھیلایا۔ آج کے دور کے شدت پسند انہی خوارج کی ذہنیت کے وارث ہیں۔
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں ایسے فتنہ پرور عناصر کے لیے سخت وعید موجود ہے۔ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "میرے بعد کچھ لوگ قرآن کی تلاوت کریں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا۔ وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔” (صحیح بخاری)
اسلامی تعلیمات کے مطابق طاقت کا اصل مظاہرہ کسی کو مارنے یا دھمکانے میں نہیں، بلکہ کسی کو معاف کرنے اور صبر کا مظاہرہ کرنے میں ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: "اور جو لوگ غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں، اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔” (سورہ آل عمران، 3:134) یہ آیت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ مسلمان کا رویہ رحم، برداشت اور درگزر پر مبنی ہونا چاہیے۔ معاشرے میں امن قائم کرنے کے لیے صرف قانون ہی نہیں بلکہ کردار کی پختگی بھی ضروری ہے۔
اسلام مکمل طور پر عدم تشدد کا داعی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ جس قدر ممکن ہو، خونریزی سے بچا جائے۔ یہاں تک کہ اگر دو مسلمان آپس میں لڑ پڑیں تو قرآن کہتا ہے کہ ان کے درمیان صلح کراؤ، نہ کہ ایک کا ساتھ دے کر دوسرے پر ظلم کرو۔
اسلام نے ہمیشہ صلح، مفاہمت اور مکالمے کو فوقیت دی ہے۔ تشدد، فساد اور دہشت گردی اسلام کے دائرہ کار سے باہر افعال ہیں۔
خوارج کا ذکر نہ صرف تاریخ میں بلکہ احادیث نبویہ میں بھی آیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو دین کو اپنی من پسند تشریحات کے مطابق ڈھال کر دوسروں پر زبردستی مسلط کرتے ہیں۔ ان کا مقصد فتنہ پھیلانا، امت میں انتشار پیدا کرنا اور ریاستی ڈھانچے کو تباہ کرنا ہوتا ہے۔ ایسے افراد کو قرآن اور سنت کی روشنی میں سختی سے رد کرنا ضروری ہے۔فتنہ خوارج اسلام اور انسانیت کے لیے خطرہ ہیں۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو دلوں کو جوڑتا ہے، توڑتا نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے طرز عمل سے اسلام کے اس روشن چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کریں جو امن، رواداری، عدل اور انسان دوستی سے منور ہے۔ نفرت، انتقام اور دہشت گردی کے بجائے محبت، مکالمے اور اصلاح کو فروغ دینا ہی اصل کامیابی ہے۔ نفرت نہیں، امن کا راستہ اختیار کریں

دہشت کے راستے تباہی کی طرف لے جاتے ہیں، جب کہ اسلام کا راستہ فلاح، عدل اور امن کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ہمیں بحیثیت مسلمان یہ طے کرنا ہے کہ ہم کن اصولوں کو اپناتے ہیں: وہ جو چند شدت پسند بتاتے ہیں یا وہ جو نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی سے سکھائے؟

Author

  • ایک تجربہ کار صحافی ہیں جن کا 30 سال کا تحریری تجربہ ہے ۔انہوں نے ڈیلی مشرق ، ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی آج سمیت معروف اخبارات میں تعاون کیا ہے ۔:

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔