Nigah

امریکہ کی ثالثی یا تزویراتی مفادات کی تکمیل؟

حالیہ دنوں میں پاک بھارت کشیدگی ایک نہایت خطرناک مرحلے میں داخل ہو چکی تھی، جب بھارت کی جانب سے مسلسل جارحانہ اقدامات، سفارتی دروازوں کی بندش، اور جنگی ماحول کو گرمانے کی کوششوں نے خطے کو ممکنہ ایٹمی تصادم کے دہانے پر پہنچا دیا ۔ ایسے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت اور فوری جنگ بندی کا اعلان بظاہر ایک امن دوست قدم کے طور پر سامنے آیا، لیکن اس عمل کے پس پردہ عوامل اور اس کے وقت پر سنجیدہ سوالات بھی جنم لیتے ہیں۔امریکہ نے جب بھارت کی جنگی تیاریوں کو پاکستان کی اسٹر یٹیجک بردباری کے باوجود نظر انداز کیا اور فیصلہ کن لمحے پر میدان میں آ کر مودی سرکار کو سہارا دیا، تو یہ بات واضح ہوگئی کہ واشنگٹن میں صرف امن کا خیال نہیں، بلکہ اپنے تزویراتی مفادات کا تحفظ اصل ہدف ہے۔ اگر واقعی انسانی جانیں عزیز ہوتیں تو کیا یہی کردار مشرق وسطی میں فلسطینی، شامی، یمنی یا افغانی عوام کے حق میں ادا نہ کیا جاتا۔۔۔۔۔۔؟

جہاں معصوم بچوں، عورتوں اور نہتے شہریوں کا خون بہایا جا رہا ہے، وہاں امریکہ کی خاموشی یا جانبداری دنیا کے سامنے ہے۔اس سلسلے میں گزشتہ دنوں ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں گفتگو کرتے ہوئے یہ دعوی کیا کہ انہوں نے "تجارت کو بطور ہتھیار” استعمال کرتے ہوئے دونوں ممالک کو جنگ سے روکا۔
صدر ٹرمپ نےکہا کہ اگر پاکستان اور بھارت جنگ بند کریں تو امریکہ ان سے "بہت تجارت” کرے گا

۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا امن صرف تجارتی لالچ سے ہی قائم رہتا ہے۔۔۔۔۔۔؟
اور اگر یہ تجارتی دباو موثر تھا، تو اسے کچھ گھنٹے پہلے کیوں نہ آزمایا گیا۔۔۔۔۔۔؟

اس تاخیر نے لاکھوں انسانوں کو ایٹمی خطرے کے سائے میں کیوں دھکیل دیا۔۔۔۔۔۔؟

یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکہ خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لیے بھارت کو ایک تزویراتی مہرے کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مودی سرکار کے غیرذمہ دارانہ اقدامات کو نہ صرف نظر انداز کرتا ہے ، بلکہ پس پردہ حمایت بھی فراہم کرتا ہے ۔جس کی مثال مودی کا تازہ ترین بیان ہے کہ پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہے سکتا ، یعنی آوندہ بھی وہ بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ، اور وہ موجودہ ناکامی کو دل میں رکھے جیسے ہی موقع ملے گا وہ انتہائی تیز حملہ کرنے کی کوشش کرے گا ، جس کے اثرات انتہائی خطرناک ہونگے ۔

ویسے مودی سرکار کہتے ہیں کہ پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے، تھیک ہے مودی جی

خون اور پانی ایک ساتھ بہنے کا تصور بظاہر غیر فطری اور متضاد محسوس ہوتا ہے، کیونکہ خون انسانی جسم میں زندگی کی علامت ہے جبکہ پانی فطرت کا ایک پُر سکون اور شفاف عنصر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جب یہ دونوں ایک ساتھ بہنے لگتے ہیں تو مودی جی وہ ایک نہایت گہری اور دردناک حقیقت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ منظر اکثر کسی شدید حادثے، جنگ، ظلم یا قربانی کے وقت دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں انسان کی زندگی اور فطرت آپس میں گتھم گتھا ہو جاتی ہیں۔ خون جو رشتہ داری، وفاداری، غیرت اور قربانی کی علامت ہے، جب پانی کے ساتھ مل کر بہنے لگے تو وہ صرف جسمانی زخم نہیں بلکہ روح کی تکلیف، جذبات کی ٹوٹ پھوٹ اور رشتوں کے بکھرنے کی داستان بھی سناتا ہے۔ بعض اوقات یہ منظر انسان کی بے بسی، ظلم کے خلاف مزاحمت، یا انسانیت کی بقا کی جدوجہد کی تصویر بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب کوئی ماں اپنے بچے کو بچانے کے لیے خود قربانی دیتی ہے، یا جب کوئی سپاہی اپنی زمین کے لیے جان دے دیتا ہے، تو وہاں خون اور پانی دونوں بہتے ہیں —
"ایک جسم سے اور دوسرا آنکھوں سے”
۔ یہ دونوں عناصر مل کر انسان کے درد، قربانی، اور سچائی کی وہ زبان بن جاتے ہیں جو الفاظ بیان نہیں کر سکتے۔ اس لیے خون اور پانی کا ایک ساتھ بہنا محض ایک جسمانی کیفیت نہیں بلکہ ایک علامتی پیغام ہے کہ جب انسان اپنی اعلیٰ اقدار، محبت، اور وفاداری کے لیے کھڑا ہوتا ہے، تو قدرت بھی گواہ بن جاتی ہے کہ یہ قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔

قارئین کرام! قصہ المختصر یہ کہ امریکہ کی یہ پالیسی جنوبی ایشیا کو امن کی بجائے ایک مستقل تصادم کا میدان بنائے رکھے گی اس تمام صورتحال میں پاکستان نے غیر معمولی صبر و تدبر کا مظاہرہ کیا، جہاں وہ دس طیارے تباہ کر سکتا تھا وہاں اس نے چھ پر اکتفا کیا ، اور اپنی عسکری طاقت کے ساتھ دنیا کو یہ باور کرایا کہ ہم امن کے داعی ضرور ہیں، مگر جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے سائبر حملوں، فضائی دفاعی کامیابیوں اور موثر سفارتی حکمت عملی نے بھارت اور اس کے اتحادیوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ اب کوئی "فالس فلیگ” کارروائی عالمی آنکھوں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔
امریکی صدر کے اس خطرناک یعنی ایٹمی جنگ کے بیان کے سامنے آنے کے بعد آج عالمی برادری پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس دوغلی امریکی حکمت عملی کا سنجیدہ نوٹس لے۔

اگر امن ہی اصل ہدف ہے تو کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حقِ خودارادیت دیا جائے، اور بھارت کو پابند کیا جائے کہ وہ خطے کو اپنے انتہا پسندانہ عزائم کی بھینٹ نہ چڑھائے۔
مسئلہ فلسطین کو فوری طور پر حل کیا جائے ۔

علا وہ ازیں امریکہ کو بھی یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ واقعی امن کا علمبردار ہے یا صرف اپنے مفادات کے تحفظ میں مصروف ایک عالمی طاقت۔

ٹرمپ کی ثالثی صرف اس وقت معتبر ہو سکتی ہے جب وہ اصولی، غیر جانبدارانہ اور تمام انسانوں کے لیے یکساں ہو خواہ وہ کشمیر میں بستے ہوں یا غزہ میں۔

اقوام عالم کو فلسطین سمیت کشمیری عوام کو بھی جینے کا حق دینے کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہوگا ۔

Author

  • انیس الرحمٰن ایک مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اردو میں وہ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، اکثر ان موضوعات پر بصیرت انگیز تجزیے لکھتے ہیں۔ ای میل:

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔