بلوچستان، پاکستان کا سب سے بڑا اور وسائل سے بھرپور صوبہ، کئی دہائیوں سے بدامنی، شورش اور بیرونی مداخلت کا شکارہے اگرچہ بلوچستان میں سماجی، معاشی اور سیاسی چیلنجز کی طویل تاریخ موجود ہے، مگر تقریبا دو دہائیوں میں ایک تشویشناک پہلو بھارت کی جانب سے ریاست مخالف عناصر کی پشت پناہی اور پراکسی دہشتگردی کی صورت میں سامنے آیا ہے، جس نے نہ صرف پاکستان کی خودمختاری کو چیلنج کیا بلکہ پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
بھارت کی خفیہ ایجنسی را پر پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں اور بین الاقوامی مبصرین کی جانب سے متعدد بار بلوچستان میں دہشتگردوں کی مالی معاونت، اسلحہ فراہمی اور تربیت دینے کے الزامات عائد کیے جا چکے ہیں۔
2009 میں پاکستان نے مصر کے شہر شرم الشیخ میں دو طرفہ بات چیت کے دوران باضابطہ طور پر بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا معاملہ اٹھایا۔ وکی لیکس میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ 2010 میں امریکی سفارتی کیبلز کے مطابق بین الاقوامی مبصرین پاکستان میں بھارتی خفیہ سرگرمیوں بشمول بلوچستان میں بدامنی سے منسلک کارروائیوں سے آگاہ تھے۔
2015 میں پاکستان نے اپنی شکایات سے اقوام متحدہ کو ایک تفصیلی ڈوزیئرکے ذریعے آگاہ کیا، جس میں بلوچستان میں دہشت گردی کی سرپرستی میں بھارت کے کردار کا خاکہ پیش کیا گیا۔ اس ڈوزیئر میں انٹیلی جنس ثبوت شامل تھے ۔
سب سے اہم ثبوت مارچ 2016 میں سامنے آیا، جب پاکستان نے بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو بلوچستان سے گرفتار کیا۔ کلبھوشن نے اپنے اعترافی بیان میں واضح کیا کہ وہ ایران کے راستے پاکستان آیا اور بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کو فنڈنگ، تربیت اور ہتھیار فراہم کرنے میں ملوث رہا۔
کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے باوجود بھارت نے اس کے اعترافات کو مسترد کر دیا اور عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کیا، مگر پاکستان نے اپنے موقف کو مضبوط دلائل اور شواہد سے پیش کیا۔
2019 میں پاکستان نے نئے ثبوت ایک بار پھر اقوام متحدہ کو ڈوزیئر صورت میں فراہم کیے۔ 2023 میں بلوچستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث سرفراز بنگل زئی اور گلزار امام شمبے کے اعتراف نے پاکستانی موقف کی تائید کی، سرفراز بنگلہ زئی اور گلزار امام شمبے نے بھارتی کارندوں کی طرف سے تربیت اور ہدایت کاری کا اعتراف کیا۔ جعفر ایکسپریس پر حملے کی تمام پلاننگ میں بھارتی ایجنسی کے ملوث ہونے کے ثںوت موجود ہیں کالعدم بی ایل اے کے فتنہ الہند مسافر ٹرین پر حملے اور بے گناہوں کو شہید کرنے تک بھارتی اور افغانستان کے ہینڈلرز سے مسلسل رابطے میں تھے۔ کلبھو شن یادیو کا کیس نہ صرف پاکستان کے مؤقف کی تائید کرتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھارت کے دوہرے کردار کو بھی بے نقاب کرتا ہے,ایک طرف وہ خود کو دہشتگردی کا شکار ظاہر کرتا ہے، تو دوسری جانب ہمسایہ ممالک میں انتشار پھیلانے کے لیے دہشتگردی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے ۔
بلوچستان میں متعدد کالعدم تنظیمیں جیسے بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ریپبلکن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ بھارتی خفیہ اداروں کی پشت پناہی سے متحرک رہی ہیں۔ ان تنظیموں نے فوج، چینی انجینئرز، گیس پائپ لائنز، ریلوے ٹریکس, معصوم طالبات اور عام شہریوں کو بارہا نشانہ بنایا ہے۔ بی ایل اے کو امریکہ اور برطانیہ نے بھی دہشتگرد تنظیم قرار دیا ہے، جس سے اس کے عالمی نیٹ ورک اور بیرونی روابط کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کالعدم تنظیموں کے دہشتگرد حملوں کا واضح مقصد پاکستان میں خوف و ہراس پھیلانا، بلوچستان کو غیر مستحکم کرنا، اور سی پیک جیسے اسٹریٹجک منصوبوں کو ناکام بنانا ہے۔ سی پیک اور گوادر بندرگاہ کی ترقی بھارت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ بھارت نہ صرف اس منصوبے کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھتا ہے بلکہ اسے چین کے ان مفاد کا حصہ بھی گردانتا ہے، جو بحیرہ ہند میں بھارت کے اثر و رسوخ کو محدود کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سی پیک کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے بھارت نے بلوچستان میں بدامنی کو فروغ دینا شروع کیا۔
کالعدم بی ایل اے اور دیگر علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے چینی ورکرز، قونصل خانوں اور دفاتر پر حملے دراصل بھارت کی پراکسی حکمت عملی کا حصہ ہیں، تاکہ عالمی سرمایہ کاری کو بلوچستان سے دور رکھا جا سکے۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بین الاقوامی طاقتیں، بھارت کی بلوچستان میں کھلی مداخلت پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
پاکستان نے نہ صرف دہشتگردی کے خلاف کامیاب آپریشنز کیے بلکہ بلوچستان کی ترقی کے لیے بھی متعدد منصوبے شروع کیے ہیں۔ فوج اور سول حکومت کی کوششوں سے آج بلوچستان میں کئی مقامات پر امن بحال ہو چکا ہے۔ گوادر پورٹ فعال ہو چکی ہے، تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں، اور نوجوانوں کو روزگار کے مواقع دیے جا رہے ہیں۔
یہ مثبت پیشرفت بھارت کے لیے پریشانی کا سبب ہے، کیونکہ اس کا سارا منصوبہ بلوچستان کو مسلسل عدم استحکام کا شکار رکھنا ہے۔
بلوچستان میں سیکیورٹی اداروں نے دہشتگردی کے خلاف بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ ایف سی، پولیس، اور پاک فوج نے جانوں کا نذرانہ دے کر دشمن کے ناپاک عزائم کو ناکام بنایا۔ ان اداروں کی مسلسل کارروائیوں کی بدولت بی ایل اے اور دیگر علیحدگی پسند گروہوں کی طاقت میں نمایاں کمی آئی ہے، اور ان کے نیٹ ورکس کو مسلسل توڑا جا رہا ہے۔
بھارت صرف عسکری سطح پر نہیں بلکہ میڈیا کے ذریعے بھی بلوچستان کے حوالے سے جھوٹا پروپیگنڈا پھیلاتا رہا ہے۔ جعلی ویڈیوز، جھوٹے اعداد و شمار اور نام نہاد انسانی حقوق کے کارکنان کے ذریعے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ ان کوششوں کا مقصد عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا اور پاکستان پر دباؤ بڑھانا ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں پاکستانی میڈیا، سول سوسائٹی اور سوشل میڈیا صارفین نے ان جھوٹے بیانیوں کو بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بلوچستان میں بھارت کی دہشتگردی اور پراکسیز کا گھناؤنا کردار نہ صرف پاکستان کے داخلی امن کو متاثر کرتا ہے بلکہ جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کے امن کے لیے بھی خطرہ ہے۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ عالمی برادری اس معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لے اور بھارت کو دہشتگرد عناصر کی سرپرستی سے باز رکھا جائے۔
Author
-
ایک تجربہ کار صحافی ہیں جن کا 30 سال کا تحریری تجربہ ہے ۔انہوں نے ڈیلی مشرق ، ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی آج سمیت معروف اخبارات میں تعاون کیا ہے ۔:
View all posts