دنیا کی سیاست میں بعض اتحاد ایسے بھی تشکیل پاتے ہیں جو نہ صرف علاقائی توازن کو بگاڑتے ہیں بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ بن جاتے ہیں۔ بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ اسی قسم کا اتحاد ہے جو نظریاتی، عسکری، اقتصادی اور سیاسی بنیادوں پر پروان چڑھ رہا ہے۔ ان دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے بظاہر ہزاروں میل کی دوری اور مذہبی و نسلی اختلافات کے باوجود ایک قدر مشترک نے جوڑ رکھا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی، بالخصوص پاکستان سے شدید عناد۔۔
اسرائیل کا قیام 1948 میں فلسطین کی سرزمین پر غیر قانونی طور پر عمل میں آیا جبکہ بھارت نے 1947 میں آزادی حاصل کی، مگر دونوں ریاستوں کا جنم تنازع اور ظلم کے سائے میں ہوا۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کر کے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کیا جبکہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں طاقت کے زور پر قبضہ جما رکھا ہے۔ یہی ظلم و جبر ان کی مشترکہ شناخت بن چکا ہے۔
دونوں ممالک نے ہمیشہ سے مسلم اکثریتی علاقوں کو دبانے، اقلیتوں کے حقوق پامال کرنے اور مذہبی بنیاد پر سیاست کو فروغ دینے کی روش اپنائی ہے۔
اسرائیل بھارت کو دوسرا سب سے بڑا اسلحہ فراہم کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ بھارت اپنی دفاعی ضروریات کا بڑا حصہ اسرائیل سے پورا کرتا ہے۔جس میں میزائل سسٹم، جاسوسی ڈرونز، راڈار، جدید ترین گائیڈڈ بم اور سائبر سیکیورٹی ٹیکنالوجی شامل ہیں۔
کارگل جنگ (1999) کے دوران اسرائیل نے بھارت کو فوجی مدد فراہم کی۔ کشمیر میں حالیہ کریک ڈاؤنز کے دوران بھی اسرائیلی ساختہ ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کا استعمال ہوا۔ اسرائیلی ماہرین کی تربیت اور نگرانی میں بھارتی فوج نے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے نئے طریقے آزمائے۔
بھارت کی خفیہ ایجنسی "را” اور اسرائیل کی موساد کے درمیان قریبی تعلقات ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دونوں ایجنسیاں مل کر مسلم تنظیموں، دینی اداروں، اور بالخصوص پاکستان کے خلاف مشترکہ آپریشنز، پروپیگنڈا اور سائبر حملے کرتی رہی ہیں۔
یہی خفیہ گٹھ جوڑ پاکستان کے خلاف "ففتھ جنریشن وار” کی بنیاد ہے جس میں سوشل میڈیا، جعلی نیوز ویب سائٹس، اور مذہبی منافرت کے ذریعے پاکستان کے خلاف عالمی رائے عامہ کو متاثر کیا جا رہا ہے۔
بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے بڑھتے رجحانات کے ساتھ اسرائیل کی صیہونی پالیسیوں میں بھی مماثلت دیکھی جا سکتی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی مساجد شہید کی گئیں، حجاب پر پابندی، قربانی پر بندش، اور لاؤڈ اسپیکر کے خلاف کارروائیاں عام ہیں۔ اسرائیل بھی مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر حملے کرتا ہے، رمضان المبارک میں عبادات پر پابندیاں عائد کرتا ہے اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کرتا ہے۔
دونوں ریاستوں کا مذہبی اقلیتوں کے خلاف رویہ نہ صرف جمہوری اصولوں کی توہین ہے بلکہ عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔
پاکستان ان دونوں ممالک کے لیے مشترکہ "دشمن” کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسرائیل کو اس بات پر اعتراض ہے کہ پاکستان فلسطین کے حق میں ہمیشہ کھڑا رہا ہے، اس نے اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور عالم اسلام کی قیادت کا دعوے دار رہا ہے۔
بھارت، جو پاکستان کو اپنا ازلی دشمن تصور کرتا ہے، اسرائیل کے ساتھ مل کر پاکستان کو کمزور کرنے کے ہر ممکن حربے استعمال کرتا رہا ہے۔ چاہے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی ہو، یا کشمیر میں ظلم کا جواز، یا FATF جیسے پلیٹ فارمز پر پاکستان کو نقصان پہنچانا ہو — ہر مقام پر بھارت اور اسرائیل کی مشترکہ حکمت عملی واضح دکھائی دیتی ہے۔
اسرائیل کی مہارت سائبر جنگ میں دنیا بھر میں معروف ہے۔ بھارت نے اسرائیلی کمپنیوں کی مدد سے کئی سائبر مہمات چلائیں جن میں پاکستان کے خلاف جعلی ویب سائٹس، سوشل میڈیا ٹرینڈز اور جھوٹی رپورٹس شامل ہیں۔
یہ بات باعث افسوس ہے کہ عالمی ادارے، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوام متحدہ ان دونوں ممالک کے مظالم اور مسلم دشمنی پر خاموش ہیں۔ اسرائیل کو امریکہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے جبکہ بھارت مغرب کی بڑی مارکیٹ بن چکا ہے، اس لیے انسانی حقوق کی پامالی پر آنکھیں بند کی جاتی ہیں۔
یہی خاموشی ان دو ریاستوں کو مزید نڈر بناتی ہے کہ وہ مسلم اقلیتوں کے حقوق کو پامال کریں اور پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔
بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ نے مسلم دنیا کے لیے ایک چیلنج پیدا کر دیا ہے۔ اگرچہ کچھ مسلم ممالک نے اسرائیل سے تعلقات استوار کر لیے ہیں، مگر پاکستان نے اب تک اصولی موقف برقرار رکھا ہے۔ مسلم دنیا کو چاہیے کہ وہ اتحاد، اجتماعی سفارت کاری اور معاشی دباؤ کے ذریعے اس گٹھ جوڑ کو چیلنج کرے۔
معاشی بدنامی، سائبر حملے
عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا بھارت اور اسرائیل دونوں جیسے چیلنج جیسے خطرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو نہ صرف عسکری دفاع مضبوط بنانا ہوگا بلکہ سفارتی محاذ پر بھی فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ میڈیا، نوجوان نسل، اور ٹیکنالوجی کے میدان میں خود انحصاری ضروری ہے تاکہ ہر سطح پر ملک کا دفاع کیا جا سکے۔
بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ عالم اسلام کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ ان کا مشترکہ مقصد صرف زمینوں پر قبضہ یا طاقت کا مظاہرہ نہیں، بلکہ اسلام، مسلمانوں اور نظریاتی ریاست پاکستان کو کمزور کرنا ہے۔ اس لیے ہمیں بحیثیت امت، بحیثیت قوم اور بحیثیت فرد بیدار ہونا ہوگا۔
Author
-
انیس الرحمٰن ایک مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اردو میں وہ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، اکثر ان موضوعات پر بصیرت انگیز تجزیے لکھتے ہیں۔ ای میل: