Nigah

بھارت کا سرحد پار حملہ

بھارت کی حالیہ جارحیت نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ جنوبی ایشیا کے امن کے لیے خطرہ بھی بن چکی ہے۔ عام شہریوں، خاص طور پر خواتین اور بچوں کو نشانہ بنانا جنیوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے۔ عالمی برادری کو فوری مداخلت کر کے بھارت کو ایسے اقدامات سے باز رکھنے کے لیے مؤثر کارروائی کرنا ہوگی۔

— عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بھارت مغربی میڈیا کی تنقید کی زد میں
حالیہ دنوں میں بھارت کی جانب سے پاکستان کے سرحدی علاقوں پر بلا اشتعال اور بزدلانہ حملے اور پھر کل رات بھارتی فضائیہ کا پاکستان کی سرزمین پہ میزائل حملے نہ صرف جنوبی ایشیا میں امن کے لیے خطرہ ہیں بلکہ یہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر، جنیوا
کنونشن، اور انسانی حقوق کے عالمی اصولوں کی سنگین خلاف ورزی بھی ہیں۔ بھارت نے اپنے اس جارحانہ اقدام سے عالمی برادری کے سامنے نہ صرف اپنی اخلاقی و قانونی پوزیشن کمزور کی ہے بلکہ اپنے آپ کو ایک ناقابلِ بھروسہ اور غیر ذمہ دار ریاست کے طور پر پیش کیا ہے۔

پاکستان کے سرحدی علاقوں میں کیے گئے بھارتی حملے بظاہر عسکری نوعیت کے تھے، مگر ان میں سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں، خاص کر معصوم بچوں اور خواتین کو پہنچا۔ آزاد کشمیر اور مرید۔کے کے قریبی دیہات میں کئی رہائشی مکانات تباہ ہوئے، ایک جامع مسجد پر گولہ باری کی گئی، اور ہسپتالوں کے قریب بھی فائرنگ کی گئی۔ ایسے حملے واضح طور پر جنیوا کنونشن (1949) کے "پروٹوکول I، آرٹیکل 51” کی خلاف ورزی ہیں جس کے مطابق عام شہریوں کو کسی بھی صورتِ حال میں نشانہ بنانا غیر قانونی ہے۔

بھارت کا یہ اقدام میدانِ جنگ میں کھلے تصادم کی بجائے محفوظ رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ ایک بزدلانہ کارروائی تھی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جنگوں میں وہی اقوام عزت پاتی ہیں جو بہادری اور قانون کے دائرے میں رہ کر دشمن کا سامنا کرتی ہیں۔ معروف مؤرخ "مارٹن وان کریفلڈ” اپنی کتاب The Transformation of War میں لکھتا ہے کہ "اگر جنگ اخلاقی اصولوں سے ہٹ جائے تو وہ قتلِ عام بن جاتی ہے”۔

اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2(4) کے تحت کوئی بھی ملک دوسرے ملک کی خودمختاری، علاقائی سالمیت یا سیاسی آزادی کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کر سکتا۔ بھارت نے پاکستان پر حملہ کر کے نہ صرف اس قانون کو پامال کیا بلکہ خطے میں ایک نئی جنگ چھیڑنے کی بنیاد بھی رکھ دی۔

اس حملے کے بعد بین الاقوامی سطح پر بھارت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن (UNHRC) نے اس واقعے پر تشویش کا اظہار کیا اور متاثرہ شہریوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔ برطانیہ، ترکی، چین، اور ایران جیسے ممالک نے بھارتی جارحیت کی مذمت کی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ "ہیومن رائٹس واچ” جیسی تنظیموں نے بھی ان حملوں کو انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔

عالمی سطح پر بھارت اپنی ساکھ کو ایک جمہوری، سیکولر اور پرامن ملک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے، مگر حالیہ حملے اس کی منافقانہ پالیسی کو بے نقاب کرتے ہیں۔ بھارت کی یہ کارروائیاں مغرب میں موجود انسانی حقوق کے علمبرداروں کو بھی پریشان کر رہی ہیں، اور یورپی یونین کی کئی رکن ریاستوں نے بھارت کی خارجہ پالیسی کو متنازعہ قرار دینا شروع کر دیا ہے۔

یہ پہلی بار نہیں کہ بھارت نے پاکستان پر بلا اشتعال حملے کیے ہوں۔ 1965 اور 1971 کی جنگیں اس بات کی مثال ہیں کہ بھارت ہمیشہ پاکستان کو کمزور کرنے کی نیت رکھتا آیا ہے۔ 1999 میں کارگل کے دوران بھی بھارت نے سیز فائر لائن کی خلاف ورزی کی، مگر اُس وقت بھی عالمی برادری نے دونوں ملکوں کو تحمل سے کام لینے کی تلقین کی تھی۔

"ایمنسٹی انٹرنیشنل” اور "ریڈ کراس” جیسی تنظیموں نے بارہا بھارت سے اپیل کی ہے کہ وہ نہتے شہریوں کو نشانہ بنانا بند کرے اور عالمی قوانین کی پاسداری کرے۔ ایمنسٹی کی 2023 کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں اور کشمیریوں، کے خلاف ریاستی پالیسیوں میں شدت آ رہی ہے، جو کہ خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔

بھارت کا یہ جارحانہ رویہ نہ صرف پاک بھارت تعلقات کو مزید خراب کرے گا بلکہ خطے میں ایک بڑی جنگ کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے۔ نیوکلیئر اسلحے سے لیس دو ملکوں کے درمیان کشیدگی عالمی امن کے لیے ایک خطرناک پیغام ہے۔ اس تناظر میں اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو فوری طور پر مداخلت کر کے حالات کو کنٹرول کرنا ہوگا۔

بھارت کا حالیہ حملہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق، اور اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی ہے، بلکہ یہ بھارت کی عالمی ساکھ کے لیے بھی ایک بڑا دھچکہ ہے۔ اگر عالمی برادری نے اس جارحیت پر خاموشی اختیار کی تو مستقبل میں ایسی کارروائیاں مزید بڑھ سکتی ہیں، جو صرف پاکستان کے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ، سلامتی کونسل، اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو اس معاملے پر فوری اور مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ امن اور انصاف کا بول بالا ہو۔

Author

  • ڈاکٹر سید حمزہ حسیب شاہ ایک تنقیدی مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتے ہیں، خاص طور پر ایشیا اور جغرافیائی سیاست پر توجہ دیتے ہیں۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اردو میں اور علمی اور پالیسی مباحثوں میں فعال طور پر حصہ ڈالتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔