Nigah

بھارت کی آبی جارحیت: پاکستان کے لیے ماحولیاتی خطرہ

[post-views]

جنوبی ایشیا کے دو بڑے ہمسایہ ممالک، بھارت اور پاکستان، طویل عرصے سے سیاسی و علاقائی تنازعات کا شکار ہیں، جن میں سب سے اہم مسئلہ پانی کی تقسیم کا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا، جس کے تحت دریائے سندھ کے مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا، جبکہ مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) بھارت کے حصے میں آئے۔
تاہم گزشتہ کئی سالوں سے بھارت پر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ اس معاہدے کی روح کے خلاف اقدامات کر رہا ہے، جنہیں "آبی جارحیت” کا نام دیا گیا ہے۔ بھارت نے مغربی دریاؤں پر درجنوں چھوٹے بڑے ڈیمز اور آبی منصوبے تعمیر کیے ہیں، جن سے پاکستان کی زراعت، ماحولیات اور پانی کی دستیابی کو سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔

پاکستان کو لاحق ماحولیاتی خطرات:
1. زرعی نظام پر اثرات: پاکستان کی معیشت کا بڑا دارومدار زراعت پر ہے، جو دریائی پانی پر منحصر ہے۔ پانی کی کمی سے فصلوں کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے، جس سے غذائی قلت کا اندیشہ بڑھتا جا رہا ہے۔
2. پانی کی قلت: بھارت کی جانب سے پانی کے بہاؤ کو روکنے یا کم کرنے سے پاکستان میں نہ صرف دریا خشک ہو رہے ہیں بلکہ زیرِ زمین پانی کی سطح بھی خطرناک حد تک نیچے جا رہی ہے۔
3. سیلاب اور خشک سالی:
بھارت کبھی اچانک پانی چھوڑ دیتا ہے، جس سے پاکستان میں تباہ کن سیلاب آتے ہیں، اور کبھی پانی روک لیتا ہے، جس سے خشک سالی جنم لیتی ہے۔ اس غیر متوازن صورتحال سے لاکھوں افراد متاثر ہوتے ہیں۔
4. ماحولیاتی نظام کی تباہی: پانی کی کمی سے پاکستان کے آبی حیات، جنگلات اور ماحولیاتی توازن بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر مینگرووز، دلدلی علاقے اور قدرتی جھیلیں خشک ہو رہی ہیں۔
5. سندھ ڈیلٹا کا سکڑاؤ: دریائے سندھ کا ڈیلٹا علاقہ، جو سمندری حیات کا مرکز ہے، پانی کی شدید کمی کا شکار ہے۔ سمندر کا کھارا پانی اندرونی علاقوں تک آ رہا ہے، جس سے زمینیں بنجر ہو رہی ہیں۔

دریائے چناب کے پانی کو کنٹرول کرنے کا بھارتی عمل کھلی جارحیت اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہےاس بین الاقوامی آبی معاہدے کو تعطل میں ڈالنے کا بھارت کو قطعاً اختیار نہیں اور اس حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے دو ٹوک موقف سامنے آچکا ہے اور پاکستان کی جانب سے پانی میں روکاوٹ ڈالنے کسی بھی بھارتی اقدام کو جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے
اور پاکستان کے 24 کروڑ عوام کے لئے لائف لائن حیثیت رکھنے والے دریائے سندھ اور معاون دریاؤں کے پانی میں کسی بھی روکاوٹ کے سنگین نتائج سے خبردار کیا گیا ہے مگر حالیہ بھارتی اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف وقتی طور پر بلکہ طویل مدتی بنیادوں پر پانی کے تنازعے کو بھڑکانے کی نیت رکھتی ہے دریائے چناب کے پانی میں 90 فیصد کے قریب روکاوٹ اس کا واضح ثبوت ہے
دریائے چناب ہمارے ملک کے آبپاشی نظام کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہےاور اس کی نہریں بشمول اپر چناب اور لوئر چناب وسطی پنجاب کے زرعی اہمیت والے علاقوں کو سیراب کرتی ہیں یہ علاقے چاول کی اعلیٰ پیداوار کے لئے مشہور ہیں اور اچھی قسم کا باسمتی چاول اسی پانی سے سیراب ہونے والے کھیتوں میں اگتا ہے
قارئین کرام جیسے کہ آپ جانتے ہیں کہ ان دونوں پنجاب بھر میں چاول فصل کی تیاری ہے ایسے میں بھارت کی طرف سے ابی جارحیت کے اثرات معمولی نہیں ہیں
عالمی مارکیٹ میں پاکستان کے اعلیٰ قسم کے چاول نے بھارتی پیداوار کو دفاعی پوزیشن پر مجبور کردیا ہے 2025 کے آغاز میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھارت کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا جس میں اس نے باسمتی چاول برانڈنگ اور پیداوار کے حصوصی حقوق تسلیم کرنے کی اپیل کی تھی
پاکستان میں چاول کی فصل کی بوائی کے تیاریوں کے دنوں میں دریائے چناب کا پانی روکنا ہے دراصل بھارتی ہدف پاکستان کی زرعی پیداوار ہے

:بھارت کی آبی جارحیت نہ صرف سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک سنگین ماحولیاتی بحران کو بھی جنم دے رہی ہے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کو عالمی سطح پر مؤثر انداز میں اٹھائے، سفارتی دباؤ بڑھائے اور داخلی طور پر آبی وسائل کے مؤثر انتظام کے لیے جامع پالیسی اپنائے۔ اس کے ساتھ ساتھ علاقائی تعاون کو فروغ دے کر ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

Author

  • انیس الرحمٰن ایک مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اردو میں وہ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، اکثر ان موضوعات پر بصیرت انگیز تجزیے لکھتے ہیں۔ ای میل:

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔