پاکستان سے عسکری سطح پر مسلسل ناکامیوں اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بڑھتی ہوئی عالمی تنقید نے بھارت کو ایک عجیب قسم کی ہٹ دھرمی اور جارحانہ سنسرشپ کی طرف دھکیل دیا ہے۔ مودی حکومت نے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی ان رپورٹس کو "گمراہ کن” قرار دے کر ان کے خلاف قانونی کارروائی، آن لائن پابندیاں، اور پروپیگنڈا مہمات کا آغاز کیا ہے، تاکہ سچ کو چھپایا جا سکے اور عالمی سطح پر اپنی تصویر کو "صاف ستھرا” پیش کیا جا سکے۔
سینسرشپ بطور ہتھیار: بھارت نے 8,000 سے زائد سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کیے، جن میں BBC اُردو، مکّتوب میڈیا اور The Wire جیسے عالمی ادارے شامل ہیں۔ ان اکاؤنٹس کی رپورٹنگ کو "ملک دشمن” قرار دے کر بند کیا گیا، حالانکہ یہ پر مبنی ہیں
آزادئ صحافت پر حملے کرتے ہوئے The Wire نے CNN کی رپورٹس کے حوالے سے سرحدی کشیدگی پر خبر دی، تو اسے عارضی طور پر بند کر دیا گیا۔ BBC اُردو کا اکاؤنٹ روک دیا گیا، اور معروف صحافی انورادھا بھاسن و مظمل جلیل جیسے افراد پر غداری کے الزامات لگا کر ان کے اکاؤنٹس معطل کر دیے گئے۔سوشل میڈیا کمپنیوں کو دھمکیاں: X (سابقہ ٹوئٹر) جیسے پلیٹ فارمز کو بھارت نے پابند کیا کہ وہ مذکورہ مواد ہٹائیں، ورنہ ان کے مقامی ملازمین کو گرفتار کیا جائے گا۔ کمپنی کے مطابق بھارتی حکومت نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا، بلکہ صرف دباؤ کا استعمال کیا گیا۔
ریاستی پروپیگنڈا کاتو یہ حال تھا کہ بھارتی میڈیا ہاؤسز جیسے Times Now، Zee News اور Republic TV نے غیر مصدقہ اور اشتعال انگیز دعوے کیے جیسے "کراچی بندرگاہ تباہ ہو گئی” یا "پاکستان کے 26 شہر مٹا دیے گئے”۔ یہاں تک کہ ریٹائرڈ میجر گورَو آریہ نے "پاکستانی شہروں کو جلانے” کا مطالبہ کیا، جو ریاستی سطح پر قوم پرستی کو جنگی جنون میں بدلنے کی واضح مثال ہے۔رپورٹرز without border ، فریڈم ہاؤس اور وی-ڈیم انسٹیٹیوٹ نے بھارت میں آزادی صحافت کی شدید زبوں حالی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بھارت کو صحافت کی آزادی کے لحاظ سے دنیا کے 180 ممالک میں سے 151ویں نمبر پر رکھا گیا۔ یہ تنزلی جمہوریت کے نام پر آمریت کے فروغ کی نشاندہی کرتی ہے۔
عوام اور خاص کر یہ تو تو اقلیتوں حقوق کی خلاف ورزیوں پر بڑھتی ہوئی عالمی تنقید نے بھارت کو ایک عجیب قسم کی ہٹ دھرمی اور جارحانہ سنسرشپ کی طرف دھکیل دیا ہے۔ مودی حکومت نے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی ان رپورٹس کو "گمراہ کن” قرار دے کر ان کے خلاف قانونی کارروائی، آن لائن پابندیاں، اور پروپیگنڈا مہمات کا آغاز کیا ہے، تاکہ سچ کو چھپایا جا سکے اور عالمی سطح پر اپنی تصویر کو "صاف ستھرا” پیش کیا جا سکے۔سنسرشپ بطور ہتیار استعمال کرتے ہوئے بھارت نے 8,000 سے زائد سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کیے، جن میں BBC اُردو، مکّتوب میڈیا اور The Wire جیسے عالمی ادارے شامل ہیں۔ ان اکاؤنٹس کی رپورٹنگ کو "ملک دشمن” قرار دے کر بند کیا گیا، حالانکہ یہ رپورٹیں زمینی حقائق پر مبنی تھیں، جیسے عام شہریوں کی ہلاکتیں اور عسکری ناکامیاں۔
ھارت میں آزادئ صحافت پر حملے کر کے The Wire نے CNN کی رپورٹس کے حوالے سے سرحدی کشیدگی پر خبر دی، تو اسے عارضی طور پر بین کر دیا گیا۔ BBC اُردو کا اکاؤنٹ روک دیا گیا، اور معروف صحافی انورادھا بھاسن و مظمل جلیل جیسے افراد پر غداری کے الزامات لگا کر ان کے اکاؤنٹس معطل کر دیے گئے۔اسی طرح سوشل میڈیا کمپنیوں کو دھمکیاں: X (سابقہ ٹوئٹر) جیسے پلیٹ فارمز کو بھارت نے پابند کیا کہ وہ مذکورہ مواد ہٹائیں، ورنہ ان کے مقامی ملازمین کو گرفتار کیا جائے گا۔ کمپنی کے مطابق بھارتی حکومت نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا، بلکہ صرف دباؤ کا استعمال کیا گیا۔ ریاستی پروپیگنڈ کی غرض سےبھارتی میڈیا ہاؤسز جیسے Times Now، Zee News اور Republic TV نے غیر مصدقہ اور اشتعال انگیز دعوے کیے جیسے "کراچی بندرگاہ تباہ ہو گئی” یا "پاکستان کے 26 شہر مٹا دیے گئے”۔ یہاں تک کہ ریٹائرڈ میجر گورَو آریہ نے "پاکستانی شہروں کو جلانے” کا مطالبہ کیا، جو ریاستی سطح پر قوم پرستی کو جنگی جنون میں بدلنے کی واضح مثال ہے
عالمی سطح پر تنقید: رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز{without border)، فریڈم ہاؤس اور وی-ڈیم انسٹیٹیوٹ نے بھارت میں آزادی صحافت کی شدید زبوں حالی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بھارت کو صحافت کی آزادی کے لحاظ سے دنیا کے 180 ممالک میں سے 151ویں نمبر پر رکھا گیا۔ یہ تنزلی جمہوریت کے نام پر آمریت کے فروغ کی نشاندہی کرتی ہے۔
یہ تمام اقدامات ایک ایسے نظام کی غمازی کرتے ہیں جو سچائی سے خائف ہے۔ بھارت نے شفافیت، تحقیقاتی صحافت اور تنقیدی نقطہ نظر کو دبانے کے لیے قوانین اور پروپیگنڈے کو ہتھیار بنا لیا ہے۔ یوں دنیا کی سب سے نام نہاد بڑی جمہوریت کہلانے والا ملک ایک آمرانہ طرز حکمرانی کی جانب بڑھ رہا ہے، جہاں صرف وہی سچ ہے جو حکومت کہتی ہے، اور باقی سب کو غداری سمجھا جاتا ہے۔
اسلام میں اظہارِ رائے، انصاف اور صداقت کو بنیادی قدر مانا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"وَلاَ تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ”
(البقرہ: 42)
"اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو، اور حق کو نہ چھپاؤ جب کہ تم جانتے ہو۔”
بھارت کا یہ طرزِ عمل نہ صرف اخلاقی اور جمہوری اصولوں کے خلاف ہے بلکہ عالمی ضمیر کی بھی توہین ہے۔آزادی اظہارِ رائے، تحریر، تقریر اور صحافت کےلیے بین الاقوامی قوانین موجود ہیں ان میں(الف) اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا عالمی منشور (UDHR 1948)آرٹیکل 19 جس کے تحت”ہر شخص کو آزادی رائے اور اظہارِ خیال کا حق حاصل ہے۔ اس میں یہ آزادی بھی شامل ہے کہ وہ بلا خوف و خطر کسی رائے کا اظہار کرے، معلومات اور خیالات کو تلاش کرے، حاصل کرے اور پہنچائے، خواہ وہ کسی بھی وسیلے سے ہوں اور سرحدوں سے آزاد ہوں۔”
(ب) بین الاقوامی عہدنامہ برائے شہری و سیاسی حقوق (ICCPR 1966) آرٹیکل 19:اقوام متحدہ کے اس معاہدے کے تحت بھی آزادئ اظہار کو بنیادی حق قرار دیا گیا ہے، اور یہ معاہدہ قانونی حیثیت رکھتا ہے۔یہاں پر یہ نوٹ کر لیں کہ بھارت اس معاہدے پر دستخط کنندہ ہے، مگر اس کی خلاف ورزی بھی کرتا ہے۔
پلوامہ حملے (2019) اور بالاکوٹ ایئر اسٹرائیک کے بعد بھارتی میڈیا پر سرکاری بیانیہ تھوپا گیا۔ان میڈیا ہاؤسز کو "قوم مخالف” قرار دیا گیا جنہوں نے سرکاری موقف سے مختلف سوال اٹھائے پاکستان سے امن کی بات کرنے والے صحافیوں کو غدار کہا گیا، اور کئی کے لائسنس منسوخ کیے گئے۔کشمیر میں:آرٹیکل 370 کی منسوخی (2019) کے بعد، کشمیر میں میڈیا کا کالا آؤٹ ہوا۔جن میںانٹرنیٹ بندشیں، گرفتاری، تھریٹس، اور پریس کلب کی معطلی بھارتی حکومت کی آزاد صحافت سے دشمنی کی واضح علامتیں ہیں۔بھارت حکومت کی طرف سے آزادی اظہار پر کنٹرول کے لیے جو اقدامات کیے گئے ان میں
1. غداری (Sedition) کا قانون (IPC 124A):
بھارت میں ازادی صحافت قدغن لگانے کے لیے جو برطانوی نوآبادیاتی دور کا قانون تھاآج بھی استعمال ہوتا ہے
حکومت پر تنقید کرنے والوں کو "غدار” قرار دے کر گرفتار کیا جاتا ہے۔
یو اے پی اے (Unlawful Activities Prevention Act): کے تحت صحافیوں کو بغیر الزام کے لمبے عرصے کے لیے جیل بھیجنے کا قانون۔
نیشنل میڈیا کو سرکاری اشتہارات کی بندش کے ذریعے دبایا جاتا ہے۔
تنقید کرنے والے چینلز کے خلاف انکم ٹیکس اور ای ڈی چھاپے۔
2021 کے نئے IT قوانین کے تحت حکومت کو اختیار دیا گیا کہ وہ کسی بھی آن لائن مواد کو فوری ہٹا سکے۔
آزاد صحافت کی درجہ بندی (2024 رپورٹ)
(Reporters Without Borders – RSF)
بھارت 161ویں نمبر پر (180 میں سے) – خطرناک ملک برائے صحافت قرار دیا گیا ہےناروے 1 نمبر (سب سے آزاد)چین، اریٹیریا، شمالی کوریا سب سے نچلی سطح پر ہیں بھارت ایک جمہوریت ہونے کا تودعویٰ کرتا ہے، مگر اس کا رویہ آمریت سے بھی زیادہ جابر ہوتا جا رہا ہے، خاص طور پر جب بات صحافت اور اختلافِ رائے کی ہو۔ وہ صحافت کو "قوم پرستی” کے تابع کرنے پر تُلا ہوا ہے۔یہ رجحان نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک عالمی خطرہ بھی ہے، کیونکہ جب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا نام نہاد دعوی کرنے والا والا ملک ہی جبر کرے تو دنیا کے ظالموں کو جواز مل جاتا ہے۔
نریندر مودی کے 2014 میں وزیرِ اعظم بننے کے بعد سے بھارت میں صحافیوں کو ان کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کی وجہ سے مختلف نوعیت کے دباؤ، قانونی کارروائیوں، گرفتاریوں، اور حتیٰ کہ قتل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ذیل میں اس حوالے سے اہم اعداد و شمار اور واقعات کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے:
قانونی کارروائیاں اور گرفتاریاں
36 صحافیوں کو 2014 سے 2023 کے درمیان گرفتار کیا گیا، جن میں سے کئی پر غداری یا انسدادِ دہشت گردی کے سخت قوانین جیسے Unlawful Activities (Prevention) Act (UAPA) کے تحت مقدمات قائم کیے گئے ۔15 صحافیوں پر UAPA کے تحت مقدمات درج کیے گئے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق کشمیر سے تھا ۔صدّیق کپن، ایک صحافی، کو 2020 میں ہاتھرس واقعہ کی رپورٹنگ کے دوران گرفتار کیا گیا اور دو سال سے زائد عرصہ قید میں رکھا گیا ۔کِشور چندرا وانگکھیم کو فیس بک پر بی جے پی کی قیادت پر تنقید کرنے پر متعدد بار گرفتار کیا گیا اور ان پر قومی سلامتی ایکٹ (NSA) کے تحت مقدمات قائم کیے گئے ۔
د صحافیوں کے قتل28 صحافی 2014 سے 2024 کے درمیان قتل کیے گئے، جو کہ منموہن سنگھ کے دورِ حکومت میں قتل ہونے والے 29 صحافیوں کے قریب ہے ۔ان میں سے کئی صحافی ماحولیاتی مسائل، بدعنوانی، اور منظم جرائم پر رپورٹنگ کر رہے تھے ۔
گوری لنکیش، ایک معروف صحافی، کو 2017 میں بنگلور میں ان کے گھر کے باہر گولی مار کر قتل کیا گیا ۔ششی کانت وارشے کو 2023 میں مہاراشٹرا میں ایک زمین کے سوداگر نے گاڑی سے کچل کر ہلاک کر دیا ۔
روی شنکر کمار جیسے معروف صحافیوں کو دھمکیاں دی گئیں، جس کے بعد انہوں نے NDTV چھوڑ دیا اور یوٹیوب پر آزادانہ رپورٹنگ شروع کی ۔نیوز کلک کے دفتر پر 2023 میں چھاپے مارے گئے، اور اس کے بانی پربیر پرکایستھا کو گرفتار کیا گیا ۔
بی بی سی کے دفاتر پر 2023 میں ٹیکس کے بہانے چھاپے مارے گئے، جو ان کی ایک دستاویزی فلم پر تنقید کے بعد ہو
بھارت کی پریس فریڈم انڈیکس میں درجہ بندی 2015 میں 136 سے گر کر 2024 میں 159 ہو گئی، مودی حکومت کے دوران صحافیوں کو شدید قانونی، جسمانی، اور معاشی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گرفتاریوں، قتل، سنسرشپ، اور میڈیا اداروں پر دباؤ نے بھارت میں آزاد صحافت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس کے باوجود، کچھ صحافی اور آزاد پلیٹ فارمز اب بھی سچائی کی تلاش میں سرگرم ہیں۔
مودی سرکار کو چاہیے کہ وہ دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان کی طرف دیکھیں کہ چار انگلی اس کی طرف ہوتی ہیں بھارت نے پاکستان کے ساتھ جنگ کر کے اسے میڈیا کے ذریعے جیتنے کی کوشش کی جس جس پر اسے منھ کی کھا نی پڑی ہے
یہ ضرور ہے کہ موجودہ دور میڈیا کا دور ہے اور خاص طور سوشل میڈیا کا دور ہے لیکن سورج کو ہاتھ دیکھا اسے چھپا نہیں جا سکتا،،،،
Author
-
صحافت میں ایک ممتاز کیریئر کے ساتھ ، میں نے یو ایس اے ٹوڈے اور وائس آف امریکہ کے نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیں ، اے ایف پی اور اے پی کے لیے رپورٹنگ کی ، اور ڈیلی خبرائن اور اردو نیوز جیسے بڑے آؤٹ لیٹس کے لیے بیورو چیف اور رہائشی ایڈیٹر سمیت سینئر کردار ادا کیے ۔
View all posts