ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری اور وفاقی سیکریٹری داخلہ خرم آغا کی حالیہ مشترکہ پریس کانفرنس میں بھارت کی ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کے جو ٹھوس شواہد پیش کیے گئے، وہ کسی بھی ملک کے لیے اعلان جنگ کے مترادف ہیں۔
ان شواہد میں بھارتی فوجی افسران کی براہِ راست مداخلت، بی ایل اے جیسی دہشت گرد تنظیموں کو مالی اور لاجسٹک سپورٹ، جعلی ویڈیوز کے ذریعے پروپیگنڈہ مہم، اور افغانستان کے ذریعے دہشت گردی کے نیٹ ورک کا ثبوت شامل ہے۔
پاکستان نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان تمام شواہد کو عالمی سطح پر پیش کیا اور ایک ذمہ دار ریاست کی طرح پرامن حل کا مطالبہ کیا، لیکن بھارت نے اس بہادری کو کمزوری سمجھ کر اپنا رویہ مزید جارحانہ بنا لیا۔
تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے ہمیشہ طاقت کی زبان سمجھی ہے، چاہے وہ 1965 کی جنگ ہو، 1998 کے ایٹمی تجربات ہوں یا سرجیکل اسٹرائیک کے جھوٹے دعوے۔
سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان کے پاس بھارت کی مداخلت کے اتنے ناقابلِ تردید شواہد ہیں، تو اب محض سفارتی احتجاج کافی ہے یا شجاعت کا وقت آن پہنچا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
کیا پاکستان کو اپنی سرزمین پر کھلی جارحیت اور دہشت گردی کے جواب میں سخت اور فوری اقدامات نہیں اٹھانے چاہئیں۔۔۔۔۔۔؟
کیا بھارتی فوجی افسران کے ملوث ہونے کے بعد بھی پاکستان عالمی برادری کی خاموشی کا مزید انتظار کرے۔۔۔۔؟
کیا دشمن کے ہاتھ میں بندوق دیکھ کر بھی ہم صرف دلیل کی زبان بولتے رہیں گے۔۔۔۔؟
یہ وقت ہے کہ پاکستان دفاعی بیانیے سے نکل کر ایک جارحانہ حکمت عملی اختیار کرے۔ اگر میزائل، ڈرون، اور جنگی سازوسامان صرف نمائش یا نمائش گاہوں تک محدود ہیں، تو ان کا وجود بے معنی ہے۔
دشمن کو اسی کی زبان میں جواب دینا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔
پاکستان کو اقوامِ متحدہ، او آئی سی، اور دیگر عالمی فورمز پر نہ صرف شواہد پیش کرنے چاہئیں بلکہ بھارت کو ریاستی دہشت گرد قرار دینے کی باقاعدہ قراردادیں پیش کرنی چاہئئے
۔پاکستان کو بھارت کی سرحدی خلاف ورزیوں کا بھرپور اور فوری جواب دینا چاہیے۔ شجاعت کا مطلب پہل کرنا نہیں، مگر دشمن کو منہ توڑ جواب دینا ضرور ہے۔مصنوعی ویڈیوز اور پروپیگنڈے کے خلاف پاکستان کو ایک مثر میڈیا اور سائبر حکمت عملی اپنانی چاہیے تاکہ عالمی رائے عامہ کو حقائق سے آگاہ کیا جا سکے۔
اس نازک وقت میں تمام سیاسی، عسکری اور سماجی قوتوں کو ایک پیج پر لانے کی ضرورت ہے تاکہ قومی بیانیہ واضح اور موثر ہو۔
اگر دشمن کھل کر حملہ آور ہو رہا ہے، تو افواجِ پاکستان کو بھی کھلی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ صرف دفاع نہیں، بلکہ دشمن کے مراکزِ فتنہ کو بھی نشانہ بنائیں۔صاصل بحث یہ کہ اگر بہادری ہمیں درست اقدام پر آمادہ کرتی ہے تو شجاعت اس اقدام کی تکمیل ہے۔ پاکستان نے بہادری دکھا دی،
بہادری اور شجاعت، بظاہر مترادف الفاظ، درحقیقت دو مختلف رویے اور کیفیات کی عکاسی کرتے ہیں۔ بہادری ایک داخلی قوت ہے، جو انسان کو خوف کے باوجود حق پر قائم رہنے، ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور سچائی پر ڈٹ جانے کا حوصلہ دیتی ہے۔ یہ وہ ہمت ہے جو کسی صحافی کو دھمکیوں کے باوجود سچ لکھنے پر آمادہ کرتی ہے، یا کسی استاد کو اندھیرے میں علم کا چراغ روشن کرنے پر۔ اس کے برعکس شجاعت وہ ظاہری اور عملی اقدام ہے جو دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، بغیر کسی جھجک کے، خود کو خطرے میں ڈالنے کے جذبے سے سرشار ہو۔ ایک سپاہی جو گولیوں کی بارش میں اپنے ساتھی کو بچاتا ہے، وہ شجاعت کا مظہر ہے۔پاکستان کو حالیہ برسوں میں ان دونوں کیفیات کا سامنا بھی ہے اور ان کا مظاہرہ بھی۔ خاص طور پر بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور دہشت گردی کی کارروائیوں نے جہاں پاکستان کی داخلی بہادری کو آزمائش میں ڈالا ہے وہیں
اب وقت اچکا ہے کہ دشمن کو شجاعت کے وہ نقوش دکھائے جائیں جو نسلوں تک یاد رکھے جائیں۔
Author
-
View all postsانیس الرحمٰن ایک مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اردو میں وہ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، اکثر ان موضوعات پر بصیرت انگیز تجزیے لکھتے ہیں۔ ای میل: