Nigah

عالمی دہشت گرد اور دی سنڈے گارڈین کا خطرناک گٹھ جوڑ

terrorism
[post-views]

احسان اللہ احسان اور دی سنڈے گارڈین: ایک خطرناک گٹھ جوڑ جو علاقائی استحکام کو نقصان پہنچا رہا ہے

جنوبی ایشیا کی بدلتی ہوئی جیوپولیٹیکل صورتحال اور میڈیا کے اثر و رسوخ کے تناظر میں ایک نہایت تشویشناک رجحان سامنے آیا ہے. بھارتی میڈیا پلیٹ فارمز اور دہشت گردی میں ملوث افراد کے درمیان تعاون بڑھتا جارہا ہے
اس تنازعے کے مرکز میں دی سنڈے گارڈین نامی ہفت روزہ نے کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے کئی مضامین شائع کیے ہیں۔
2010 میں قائم ہونے والا دی سنڈے گارڈین تحقیقاتی صحافت، سیاسی تبصروں اور تجزیات کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ اخبار بھارت کے بڑے میڈیا گروپ ITV نیٹ ورک کے زیرِ انتظام ہے، جو آج سماج، دی ڈیلی گارڈین اور ٹی وی چینلز جیسے نیوز ایکس، انڈیا نیوز، انڈیا نیوز ہریانہ اور انڈیا نیوز راجستھان چلاتا ہے۔

آئی ٹی وی نیٹ ورک کے مالک کارتکیاشرما شرما، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے راجیہ سبھا میں موجود رکن ہیں، جو ہریانہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے حکومت سے قریبی تعلقات نے اس نیٹ ورک کی ادارتی خود مختاری پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق، نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت اس نیٹ ورک کے ادارتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ میڈیا رپورٹس یہ بھی بتاتی ہیں کہ کارتکیا شرما اور حکومت کے درمیان ذاتی روابط بھی موجود ہیں، جو میڈیا اور ریاست کے درمیان حد بندی کو مزید دھندلا کرتے ہیں۔
ان تعلقات کا فائدہ صحافی ابھینندن مشرا جیسے افراد کو بھی ہوتا ہے، جو پاکستان مخالف مضامین شائع کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں اور انہیں وزیراعظم مودی سے ملاقاتوں کا بھی موقع ملتا ہے۔
دی سنڈے گارڈین کی سب سے خطرناک پالیسیوں میں سے ایک وہ ہے جس کے تحت اس نے احسان اللہ احسان کے مضامین کو مسلسل شائع کیا۔ احسان، جو کبھی ٹی ٹی پی اور بعد ازاں جماعت الاحرار کا ترجمان رہا، پاکستان میں متعدد دہشت گرد حملوں کا اعتراف کر چکا ہے، جن میں 2014 کا آرمی پبلک اسکول پشاور کا خونی سانحہ شامل ہے۔

باوجود اس کے کہ وہ ایک مطلوب دہشت گرد ہے۔ دی سنڈے گارڈین نے اس کے دس مضامین شائع کیے جن میں پاکستان کے ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز بیانیہ اور انتشار پھیلانے والی باتیں شامل تھیں۔ ان مضامین میں احسان اللہ احسان کو ایک مبصر کے طور پر پیش کیا گیا، نہ کہ ایک دہشت گرد کے طور پر، جس سے ایک خطرناک تاثر پیدا ہوتا ہے۔

ابھینندن مشرا جیسے بھارتی صحافی ان مضامین کو مزید پھیلانے میں کردار ادا کرتے ہیں، جس سے یہ پیغامات ایک گونج پیدا کرتے ہیں جو جھوٹی معلومات اور پروپیگنڈہ کو تقویت دیتی ہے۔

اس میڈیا-دہشت گرد تعاون کا سب سے نمایاں مظاہرہ 2021 میں ہوا، جب نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کا پاکستان کا دورہ اچانک منسوخ کر دیا گیا۔ اس کی بنیاد ایک سوشل میڈیا پوسٹ تھی جو احسان اللہ احسان کے نام سے کی گئی، جس میں حملے کی دھمکی دی گئی تھی۔ بعد ازاں، مارٹن گپٹل کی بیوی کو ایک دھمکی آمیز ای میل موصول ہوئی۔تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ ای میل بھارت سے بھیجی گئی تھی اور پاکستانی حکام نے اس کے ممکنہ بھیجنے والے کے طور پر ابھینندن مشرا کی نشاندہی کی۔ اس پورے واقعے سے یہ تاثر ملا کہ یہ ایک مربوط سازش تھی جس کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا اور خوف کی فضا پیدا کرنا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد ازاں ابھینندن مشرا نے احسان اللہ احسان کے اقوال پر مبنی ایک مضمون بھی 21 اگست 2021 کو دی سنڈے گارڈین میں شائع کیا، جس سے دہشت گرد کے بیانیے کو مزید بین الاقوامی سطح پر جگہ ملی۔دی سنڈے گارڈین
کی ویب سائٹ، sundayguardianlive.com، 2015 میں رجسٹر کی گئی، جو مشہور برطانوی اخبار دی گارڈین کی مشابہت پر مبنی ہے۔ اگرچہ یہ خود کو معتبر نیوز پورٹل ظاہر کرتا ہے، مگر اس کے زیادہ تر مضامین پاکستان مخالف بیانیے پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہ ویب سائٹ امبالہ، ہریانہ سے آپریٹ ہوتی ہے، اور اسے ماہانہ تقریباً 3.7 لاکھ وزیٹرز ملتے ہیں، جن میں سے 70 فیصد بھارت سے ہوتے ہیں۔

ان اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ دی سنڈے گارڈین کا بنیادی مقصد عالمی صحافت نہیں بلکہ مقامی بیانیہ سازی ہے، اور یہ ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں دہشت گرد نظریات کو میڈیا کی آڑ میں فروغ دیا جا رہا ہے۔

بھارتی میڈیا اور ایک دہشت گرد کے درمیان یہ گٹھ جوڑ صرف ایک ملکی مسئلہ نہیں، بلکہ عالمی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اس سے نہ صرف صحافتی اقدار مجروح ہوتی ہیں بلکہ یہ عالمی امن کے لیے بھی چیلنج بن جاتا ہے۔

بھارت، ایک طرف خود کو دہشت گردی کا شکار قرار دیتا ہے، اور دوسری جانب اپنے میڈیا کے ذریعے انہی دہشت گردوں کو پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔ یہ منافقت نہ صرف بھارت کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے بلکہ جنوبی ایشیاء میں امن و استحکام کو بھی خطرے میں ڈالتی ہے۔
اس صورتحال پر عالمی برادری کی خاموشی ناقابلِ فہم ہے۔ اقوامِ متحدہ، بین الاقوامی میڈیا واچ ڈاگز اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ ایسے میڈیا اداروں کے خلاف کارروائی کریں جو دہشت گردوں کو رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔

عالمی میڈیا اداروں کو بھی محتاط رہنا ہوگا کہ وہ کس قسم کے ذرائع سے خبریں لیتے ہیں اور کس پلیٹ فارم کی خبریں دوبارہ نشر کرتے ہیں۔ جعلی خبریں اور دہشت گردی پر مبنی بیانیہ اگر معتبر صحافت کی شکل میں پھیلایا جائے تو وہ کہیں زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے۔
دی سنڈے گارڈین اور احسان اللہ احسان کے درمیان تعلق صرف ادارتی غفلت کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ اس بات کی مثال ہے کہ کس طرح میڈیا کو ریاستی مفادات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جب صحافت اور نفسیاتی جنگ کے درمیان فرق مٹ جائے، تو اس کے اثرات قومی سرحدوں سے کہیں آگے تک پہنچتے ہیں۔

بھارت کو عالمی سطح پر جوابدہ بنایا جانا چاہیے کہ وہ کس طرح دہشت گردوں کو میڈیا میں جگہ دے رہا ہے۔ جب تک ایسی سرگرمیوں پر روک نہیں لگائی جائے گی، عالمی امن اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو سکیں گے۔

Author

  • صحافت میں ایک ممتاز کیریئر کے ساتھ ، میں نے یو ایس اے ٹوڈے اور وائس آف امریکہ کے نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیں ، اے ایف پی اور اے پی کے لیے رپورٹنگ کی ، اور ڈیلی خبرائن اور اردو نیوز جیسے بڑے آؤٹ لیٹس کے لیے بیورو چیف اور رہائشی ایڈیٹر سمیت سینئر کردار ادا کیے ۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔