سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں ایک اہم کلیدی طاقت کے طور پر علاقائی امن اور استحکام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسلامی دنیا کے مرکز کی حیثیت سے سعودی عرب نہ صرف مذہبی سطح پر بلکہ سیاسی اور سفارتی محاذ پر بھی اثرورسوخ رکھتا ہے۔
سعودی عرب کی سفارتی اہمیت اس وقت بہت زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ ممالک کے مابین مسائل کو حل کرنے میں اسے ایک قابل بھروسہ ثالث گردانا جاتا ہے
سعودی عرب پر یہ عالمی اعتماد اسکی عالمی اور علاقائی امن کے برسوں پر محیط مخلصانہ کوششوں کا نتیجہ ہے
سعودی عرب کی ثالثی پر اقوام عالم کے اعتماد کی بنیادی وجہ ثالثی کے دوران اس کی غیر جانبدار رہنے کی پالیسی ہے
بلاشبہ دنیا آج ایک بحرانی کیفیت سے گزر رہی ہے جو ممالک سماجی ،معاشی اور معاشرتی طور پر مستحکم تصور کیے جاتے تھے آج انھیں بھی کئی ایک چیلنجرز کا سامنا ہے اور دنیا میں امن و امان کا مسئلہ پہلے سے زیادہ درپیش ہے دنیا میں جنگی جنون لاکھوں انسانوں کو نگل چکا ہے ایسے حالات میں سعودی عرب اقوام عالم میں امن کے قیام کو یقینی بنانے کے لئے مزاکرات کو فروغ دینے کے حوالے سے نہایت اہم ملک بنتا جارہا رہا ہے اور دنیا سعودی عرب کے اس کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے
بلاشبہ علاقائی اور عالمی امن کے تناظر میں سعودی عرب آج سفارت کاری کا مرکز بن چکا ہے جبکہ عدم استحکام سے دو چار اقوام عالم کو معاشی قیادت بھی فراہم کر رہا ہے
سعودی عرب اپنی فعال اور متحرک خارجہ پالیسیوں کی بدولت اپنی معاشی اور تزویراتی حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی اور علاقائی مسائل کے حوالے سے بطور ثالث اپنی پوزیشن کو مستحکم بنا چکا ہے جس کا مقصد معاشی تنوع اور استحکام کو دیرینہ مسائل پر ترجیح دینے ہوئے آگے بڑھنا ہے
علاقائی امن کے لئے سعودی عرب نے 2002 میں عرب امن انیشی ایٹو ( اے پی آئی ) تجویز کیا تھا جو اب فلسطین اور اسرائیل کے مسئلے کو لے کر سعودی خارجہ پالیسی کا لازمی جزو سمیت امن کے لئے سعودی عزم کا مظہر ہے
سعودی عرب کے تجویز کردہ اے پی آئی منصوبے کو عرب لیگ کی حمایت بھی حاصل تھی جس کے تحت اسرائیل فلسطین کے مقبوضہ علاقے خالی کرکے فلسطینی مہاجرین کی آباد کاری کا انتظام کرے اور بدلے میں عرب ریاستیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کریں گی لیکن اسرائیل اس تجویز اور منصوبہ کو مسترد کر چکا ہے
یہ سعودی عرب کی کامیاب عالمی سفارتکاری کا ہی نتیجہ ہے کہ امریکہ اور روس کے مابین یوکرین کے مسئلے پر مذاکرات کی میزبانی سعودی عرب نےکی جس پر دونوں ممالک نے سعودی کردار کو سراہا ۔
آج سعودی عرب اقوام عالم میں اپنے کلیدی مثبت کردار کی بدولت ایک ممتاز مقام کی حیثیت اختیار کر چکا ہے دراصل سعودی عرب نے اپنے بعض روایتی پالیسیوں میں تبدیلی کی ہے
2023 میں سعودی عرب نے ایران کے ساتھ اپنے برسوں سے انجماد کے شکار تعلقات بحال کئے اس کے لئے چین نے دونوں ممالک کے درمیان ثالث کا کردار ادا کیا یہ فیصلہ اس سعودی حکمت عملی کے تحت لیا گیا جس کے تحت مملکت نے لڑائی سے اجتناب کرتے ہوئے ایک مربوط حکمت عملی وضع کرنا تھا۔
اسی طرح 2021 میں سعودی عرب نے قطر کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے ساتھ ساتھ شام کو عرب لیگ میں پھر سے شامل کرلیا جس کا مقصد علاقائی طور پر ایک مربوط حکمت عملی وضع کرنا تھا
ایک سابق پاکستانی سفارت کار وحید احمد کہنا ہے کہ سعودی عرب کے تعلقات ماضی میں امریکہ کے ساتھ مضبوط تھے لیکن گزشتہ برسوں میں سعودی حکومت نے اپنی خارجہ پالیسی کو زیادہ متنوع بنایا ہے یہ تنوع اس وقت ذیادہ ہوا جب 2023 میں سعودی عرب نے چین کی ثالثی کے تحت ایران کے ساتھ تعلقات بہتر کئے اور اس کے بعد روس کے ساتھ تعلقات بھی بہتر بنائے جس سے دنیا کے ممالک کا سعودی عرب پر اعتماد بڑھ گیا ہے اب امریکہ کے لئے روس جانا ممکن نہ تھا اور نہ روسی صدر پیوٹن امریکہ جا سکتے تھے تو اس کے لئے مزاکرات سعودی عرب کی میزبانی میں ہوئے کیونکہ یہ دونوں بڑی طاقتیں یوکرین جنگ میں بری طرح پھنسی ہوئی تھیں۔
یاد رہے کہ سعودی عرب گزشتہ کچھ عرصے سے کثیر الملکی کانفرنسوں کا انعقاد بھی کرتا چلا ارہا ہے سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے حوالے سے کوشش تو کرتا رہتا ہے لیکن عالمی امن کے تناظر میں سعودی عرب ایک اہم ترین ملک ہے پاک بھارت حالیہ جنگ بندی میں بھی سعودی عرب کا کردار جھٹلایا نہیں جاسکتا
آج اقوام عالم کو غزہ کی تعمیر نو کی فکر ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب غزہ کی تعمیر نو میں اپنا کردار کس طرح نبھاتا ہے
Author
-
سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025بیورو چیف، پی این این، پشاور
جنوری 2023 تا جنوری 2024بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
16 فروری 2005 تا 21 جون 2008رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
فروری 2000 تا 30 نومبر 2003