پاکستان کی مسلح افواج ایک طویل عرصے سے پاکستان کے خلاف ہونے والی تمام بیرونی سازشوں کے خلاف جہد مسلسل کر رہی ہے اور عوام اس معاملے میں اپنی افواج کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں گو کے کچھ شر پسند عناصر مختلف ذرائع ابلاغ کا استعمال کر کے پاک فوج کے خلاف انتہائی غلیظ اور گھٹیا پروپیگنڈہ کرتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ پاک فوج وطن کی سلامتی استحکام اور سازشوں کے خلاف جس طرح قربانی دے رہی ہے اور جدوجہد کر رہی ہے لیکن یہ کیسے دیکھیں گے ان کے بارے میں تو قران میں کہا گیا ہے
یہ اندھے ہیں بہرے ہیں گونگے ہیں پر نہیں پلٹنے والے
پلٹنے سے مراد ہے صراط مستقیم کی طرف لوٹ انا جو ان کی قسمت میں نہیں ہے
جب جنرل حافظ سید منیر عاصم نے فوج کی کمان سنبھالی تو پاکستان میں اس وقت فتنہ خوارج حد سے زیادہ فعال تھا چنانچہ ملک کی سلامتی اور استحکام کی خاطر پاکستان کی فوج کے سربراہ نے سب سے پہلا قدم اس فتنے کو تہس نہس کرنے کے لیے اٹھایا جس کا نتیجہ سامنے یوں ایا ہے کہ اس فتنے کی کمر ٹوٹ چکی ہے
خوا رج کا مطلب عربی لغت کے مطابق دین سے ائین سے قوانین سے خروج کرنا ہے تاریخی طور پر ایک گروہ خلافت راشدہ کے زمانے میں وجود میں ایا تھا جس نے فتنہ پرورش کی تھی اور انہیں خوارج کہا گیا تھا کیونکہ وہ دین کے بنیادی اصولوں سے ہٹ گئے تھے اور بغاوت پر تلے ہوئے تھے اور فساد برپا کرتے تھے چنانچہ”خوارج” کا اصل مطلب ہے: "دین سے خروج کرنے والے”۔ تاریخی طور پر یہ اصطلاح اُن لوگوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو اسلامی ریاست و قیادت کے خلاف بغاوت کریں، اپنے سوا سب کو کافر سمجھیں اور فساد فی الارض کو "جہاد” کا نام دیں۔
پاکستان میں جن گروہوں کو "خوارج” کہا جاتا ہے، ۔ ان کا طرزِ عمل اسی خارجی فکر پر مبنی ہے:
ریاست پاکستان کو "کافر” کہنا
سیکیورٹی فورسز، مساجد، مدارس اور عام شہریوں پر حملے
"خلافت” یا "شرعی نظام” کے نام پر قتل و غارت یہ سب خوارج کی کلاسیکی علامات ہیں، جنہیں تمام مکاتبِ فکر کے معتبر علماء نے بھی تسلیم کیا ہے۔کہ یہ فتنہ ہے اور خوارج ہیں
2.
پاکستان میں فتنۂ خوارج کے تحت ہونے والی دہشت گردی میں شامل عناصر کو پوری پاکستانی قوم جانتی ہے ان کے چہرے پہ نقاب ہو چکے ہیں چنانچہ یکسو ہو کر فتنہ خوارج کو ملیا میٹ کرنا چاہتی ہے
یہ گروہ مختلف علاقوں خصوصاً خیبرپختونخوا، وزیرستان، بلوچستان، اور سرحدی قبائلی علاقوں میں سرگرم رہے ہیں۔یہ فتنہ بیرونی امداد اور معاونت سے پاکستان میں سرگرم عمل ہے اداروں کی رپورٹ کے مطابق اس میں اس خوارج کو بعض ہمسایہ ممالک کی سرپرستی حاصل ہے؟
پاکستان کے ریاستی اداروں کے مطابق:
بھارت (RAW) اور بعض اوقات افغان سرزمین سے ان گروہوں کو مالی، تکنیکی، اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کی گئی ہے
افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد بھی TTP کو مکمل روکنے میں ناکامی پر پاکستان نے کئی بار تشویش کا اظہار کیا۔
پاکستان نے کئی بار عالمی برادری، اقوام متحدہ، FATF وغیرہ کو ان نیٹ ورکس کے بارے میں ثبوت فراہم کیے۔
ملک کے اندر ضربِ عضب، ردالفساد، اور خیبر-IV جیسے بڑے فوجی آپریشن بھی کیے گئے۔اس بارے میں ریاستی بیانیہ واضح ہے: دہشت گردوں اور ان کے نظریاتی حامیوں کو خوارج قرار دیا جائے گا، اور کسی رعایت کے بغیر نمٹا جائے گا۔علمائے کرام، خصوصاً وفاق المدارس اور دارالعلوم دیوبند مکتبہ فکر کے علماء بھی کھل کر TTP اور داعش کو خوارج قرار دے چکے ہیں۔پاکستان اس وقت فتنۂ خوارج کے خلاف فکری، عسکری، اور سفارتی محاذ پر بھرپور انداز سے نبرد آزما ہے۔ ریاستی بیانیہ، علما کا ساتھ، اور عوامی شعور اس فتنے کے خاتمے کے لیے کلیدی عوامل ہیں۔
فتنہ الخوارج اسلام اور اس کی مقدس تعلیمات کا غلط استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنی بربریت کو درست ثابت کر سکیں۔ وہ بھولے بھالے لوگوں کو دین کے لبادے میں دھوکہ دیتے ہیں۔ جبکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اسلام رحم، محبت اور امن کا دین ہے، نہ کہ تباہی کا۔ ان کا نظریہ الٰہی ہدایت نہیں بلکہ گمراہی ہے۔
اسلام عام شہریوں کے قتل کی مکمل ممانعت کرتا ہے، لیکن فتنہ الخوارج شہادت کے نام پر قتل و غارت کو عظیم سمجھتے ہیں۔ وہ اسکولوں، عوامی مقامات اور مساجد پر حملے کرتے ہیں جنہیں وہ "فساد” سمجھتے ہیں، حالانکہ قرآن فساد کو سختی سے منع کرتا ہے۔ یہ لوگ مجاہد نہیں، بلکہ قاتل ہیں۔ان خوارج کے فتور کا اندازہ اس طرح لگائیں کہ
اسلام عورتوں کی عزت کرتا ہے، مگر فتنہ الخوارج انہیں تعلیم سے محروم کرتے ہیں۔ وہ خواتین کے اسکولوں پر حملے کرتے ہیں جو نہ صرف نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے خلاف ہیں بلکہ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ان کا نظریہ ظلم ہے، تحفظ نہیں۔
فتنہ الخوارج نہ صرف شریعت بلکہ انسانیت کے قوانین کی بھی مسلسل خلاف ورزی کرتے ہیں۔ امدادی کارکنوں، ایمبولینسوں، اور طبی عملے پر حملے اس بات کی علامت ہیں کہ وہ رحم کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں عمل استحکام اور خوشحالی کی جدوجہد کرنے والوں کے خلافجنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ لوگ زندگی کے دشمن ہیں اور جھوٹے طور پر دین کا نام لیتے ہیں۔فتنہ الخوارج مساجد کو بموں سے اڑاتے ہیں اور نمازیوں کو نشانہ بناتے ہیں، جو اسلام کی حرمت کی کھلی بے حرمتی ہے۔ ایسے اعمال منافقت پر مبنی ہیں اور اسلامی ہدایت کے سراسر منافی ہیں۔ وہ دین کی حرمت کو پامال کرتے ہیں۔نبی کریم محمد ﷺ انسانیت کے لیے رحمت تھے، نہ کہ انتقام یا ظلم کی علامت۔ فتنہ الخوارج نبی ﷺ کے نام پر دھمکی اور دشمنی پھیلاتے ہیں۔ وہ سب سے بڑے خیانت کار ہیں اور ان کا کوئی تعمیری مقصد نہیں ہے
پاکستان، ایک پرامن اور باوقار قوم، ایک بار پھر ایک مکار، غیر ملکی پشت پناہی یافتہ سازش کو ناکام بنانے میں کامیاب رہا ہے، جس کا مقصد ملک کے جمہوری ڈھانچے کو عدم استحکام سے دوچار کرنا اور عوام میں انتشار پھیلانا تھا۔جب کہقابلِ اعتماد شواہد سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ بھارت براہِ راست خوارج کی زیرِ قیادت فتنہ انگیز تنظیم FAK کی مالی معاونت اور پراپیگنڈے کو فروغ دے رہا ہے—جو پاکستان کو اندرونی خلفشار اور سیاسی عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔
حالیہ دنوں میں سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں کو دی جانے والی دھمکیاں محض اتفاق نہیں، بلکہ یہ بھارت کی جانب سے ایک منظم، پیشگی تیار کردہ سازش کا حصہ ہیں، جس کا مقصد ملک میں بدامنی، ترقی کے سفر کو روکنا، اور پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا ہے۔
یہ اقدامات بھارت کی پاکستان کے داخلی امور میں تاریخی مداخلت کا تسلسل ہیں—چاہے وہ دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی ہو یا جدید دور کی ہائبرڈ وارفیئر اور جھوٹی معلومات پر مبنی مہمات۔
پاکستان کی مسلح افواج، خفیہ ادارے اور ریاستی ادارے اس فتنہ کے خلاف مکمل یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ قوم ان جھوٹے بیانیوں کو مسترد کرتی ہے اور آئین، امن اور قانون کی بالادستی کے عزم کو دُہراتی ہے۔
قوم کے ہر فرد اس فتنے سے وہ ہوشیار ہیں ، فتنہ پرور عناصر کو بے نقاب کرنے، اور اس دورِ جدید کے خوارج—جو اسلام، اتحاد، اور استحکام کے دشمن ہیں—کے خلاف ریاست کے شانہ بشانہ کھڑا ہے قوم کا ہر فرد جانتا ہے کہ دشمن کیا کر رہا ہے اور کیا چاہتا ہے اس کے کیا مقاصد ہیں اس کا اندازہ حالیہ کاروائیوں سے لگایا جا سکتا ہے
پاکستان نے حالیہ مہینوں میں خوارج (فِتنہ الخوارج) کے خلاف متعدد کامیاب امن کاروائیاں کی ہیں، خصوصاً پاک-افغان سرحدی علاقوں اور خیبر پختونخوا کے اضلاع میں۔ ان کاروائیوں کے نتائج، نقصانات، اور ردعمل کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
حالیہ کاروائیوں کا جائزہ (2024-2025)
اپریل 2025 میں سب سے بڑی کاروائی:
شمالی وزیرستان کے حسن خیل علاقے میں 25-27 اپریل کے دوران 54 خوارج ہلاک کیے گئے، جسے پاکستان کی تاریخ میں "ایک کارروائی میں سب سے زیادہ دہشت گردوں کے خاتمے” کے طور پر بیان کیا گیا۔ 28 اپریل تک مزید 17 خوارج کو نشانہ بنایا گیا، جس سے کل ہلاکتوں کی تعداد 71 تک پہنچ گئی۔ اس کارروائی میں بھاری اسلحہ، بارودی مواد، اور جدید ہتھیار برآمد ہوئے۔
مارچ 2025 کا خودکش حملہ:
بنوں میں ایک فوجی کیمپ پر دو خودکش دھماکوں میں 5 فوجیوں سمیت 18 شہری ہلاک ہوئے۔ حملے کا ذمہ دار "جیش الفرسان” نامی گروپ کو ٹھہرایا گیا، جس کے رہنماوں کو افغانستان سے منسلک بتایا گیا۔
دسمبر 2024 کی سرحدی جھڑپ:
خیبر پختونخوا کے کرم اور شمالی وزیرستان میں افغان طالبان اور خوارج کے مشترکہ حملے کو ناکام بناتے ہوئے 15+ دہشت گرد مارے گئے۔ پاکستان کی فوج نے کوئی جانی نقصان نہیں اٹھایا۔
نومبر 2024 کی آپریشنز:
شمالی وزیرستان کے سپینوام علاقے میں تین الگ جھڑپوں میں 10 خوارج ہلاک اور 8 زخمی ہوئے۔ ان میں سے 6 کو ایک انٹیلیجنس آپریشن میں ٹھکانے لگایا گیا۔
خوارج کی طرف سے نقصانات اور ردعمل
ٹارگٹڈ علاقے:
خیبر پختونخوا (بنوں، شمالی/جنوبی وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان) اور بلوچستان کے سرحدی اضلاع خصوصی نشانہ بنے۔
حملوں کی نوعیت:
خودکش دھماکے (مثال: مارچ 2025 کا بنوں حملہ)۔
سرحد پار سے انفیلٹریشن کی کوششیں (اپریل 2025 میں 71 خوارج کا خاتمہ)۔
پاکستان کو نقصانات:
2024 کے تیسرے سہ ماہی (جولائی-ستمبر) میں 722 اموات (شہری، فوجی، دہشت گرد) ریکارڈ کی گئیں۔
2024 میں مجموعی طور پر 1,500+ اموات (CRSS رپورٹ)۔
خوارج کا نقصان:
صرف اپریل 2025 میں 71 ہلاکتیں۔
2024-2025 کے دوران شمالی وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان، اور دیگر علاقوں میں 100+ خوارج ہلاک۔
پاکستان کی کامیابیاں اور حکمت عملی
سرحدی کنٹرول: افغان سرحد پر جدید ٹیکنالوجی (تھرمل امیجنگ کیمرے) اور گشتوں کو بڑھاوا۔
انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز: دسمبر 2024 اور اپریل 2025 کی کاروائیاں انٹرسیپٹڈ مواصلات کی بنیاد پر کی گئیں۔
بین الاقوامی الزامات: خوارج کو "بھارتی آقاؤں” اور افغانستان سے ثابت کر کے سفارتی دباؤ بڑھایا گیا
اگرچہ پاکستان نے خوارج کے خلاف حالیہ کاروائیوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں (خاص طور پر اپریل 2025 میں 71 ہلاکتیں)، لیکن افغان سرحد سے انفیلٹریشن کی مسلسل کوششیں اور خودکش حملے ظاہر کرتے ہیں کہ یہ گروہس مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے لیکن ان کی کمر توڑ دی گئی ہے۔
Author
-
صحافت میں ایک ممتاز کیریئر کے ساتھ ، میں نے یو ایس اے ٹوڈے اور وائس آف امریکہ کے نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیں ، اے ایف پی اور اے پی کے لیے رپورٹنگ کی ، اور ڈیلی خبرائن اور اردو نیوز جیسے بڑے آؤٹ لیٹس کے لیے بیورو چیف اور رہائشی ایڈیٹر سمیت سینئر کردار ادا کیے ۔
View all posts