مولوی حیدر وزیر اور ان کے گروہ کے حالیہ اقدامات نے پاکستان بھر میں شدید غم و غصے اور مذمت کو جنم دیا ہے۔ ان افراد نے جو اسلام کے محافظ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، مساجد کی حرمت کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے، اور انہیں بنکرز، کمانڈ سینٹرز اور خفیہ پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ اسلامی اصولوں کے اس صریح استحصال اور عبادت گاہوں کی بے حرمتی نے ایک بار پھر فتنہ الخوارج کی سوچ کو بے نقاب کر دیا ہے۔
اسلام میں مساجد کو نہ صرف عبادت کے مقامات بلکہ تعلیم، اتحاد، اور خیرخواہی کے مراکز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا” (الجن: 18)
یعنی: ’’مساجد اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو۔‘‘
لیکن جب ان مساجد کو مسلح سرگرمیوں اور حکومتی اداروں کے خلاف سازشوں کا مرکز بنایا جائے تو یہ نہ صرف عبادت گاہوں کی توہین ہے بلکہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کی خلاف ورزی بھی ہے۔ ان شدت پسندوں نے خوف و ہراس کو مسجد کی فضا میں شامل کر دیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عام نمازی بھی خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
فتنہ الخوارج کے پیروکار جہاد جیسے مقدس اسلامی تصور کو بدنام کر رہے ہیں۔ جہاد کا مطلب اور مقصد ظلم، جبر اور ناحق کے خلاف جدوجہد کرنا ہے چاہے وہ علمی ہو، روحانی ہو یا دفاعی۔ لیکن شدت پسندوں نے جہاد کا مفہوم صرف بندوق، بم دھماکوں اور خونریزی تک محدود کر دیا ہے۔ ان کا مقصد صرف اقتدار حاصل کرنا اور معاشرے پر اپنی سوچ مسلط کرنا ہے۔ اسلام میں بے گناہ انسان کو قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان کی افواج اور ریاستی ادارے ہمیشہ مذہبی مقامات کی حرمت کا خیال رکھتے ہیں، حتیٰ کہ کارروائیوں میں بھی مساجد کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ لیکن شدت پسند اسی رحم دلی کو اپنی ڈھال بناتے ہیں۔ یہ نہ صرف بزدلی کی علامت ہے بلکہ یہ اسلام کے ساتھ کھلا مذاق بھی ہے۔ جب ایک گروہ اسلامی اقدار کو اپنی بقا کے لیے استعمال کرے، تو یہ سب سے خطرناک فتنہ ہوتا ہے۔
ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی رٹ قائم کرے اور اس طرح کے گروہوں کو ختم کرے جو مذہب کا نام لے کر معاشرے میں فتنہ و فساد پھیلا رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مکمل اختیار دیا جائے کہ وہ مساجد اور مدارس کو اسلحہ خانوں میں بدلنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کریں۔ ریاستی رٹ کی بحالی ہی امن و استحکام کی ضمانت ہے۔
معاشرہ اس جنگ میں ایک خاموش سپاہی ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ دینی تعلیم کو درست ذرائع سے حاصل کریں اور انتہا پسندوں کی باتوں میں نہ آئیں۔ مدارس اور علما کو چاہیے کہ وہ اپنے خطبات میں اس فتنہ کی حقیقت کو بے نقاب کریں۔ صرف تعلیم، فہم اور تحقیق ہی اس نظریاتی جنگ کو جیتنے کے ہتھیار ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ فتنہ الخوارج کے شدت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے اور ریاست کی رٹ ہر علاقے میں بحال کرے۔
مساجد و مدارس کے استعمال کے حوالے سے قانون سازی کی جائے تاکہ انہیں عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں کو سخت سزا دی جا سکے۔
تعلیمی نظام ایسا بنایا جائے کہ اس میں صرف مذہبی تعلیم ہی نہیں بلکہ تنقیدی سوچ، برداشت، اور سماجی ہم آہنگی کو بھی فروغ ملے۔
غربت، بیروزگاری اور ناخواندگی جیسے بنیادی مسائل کا حل نکالا جائے تاکہ نوجوان شدت پسندوں کا آسان ہدف نہ بنیں۔
اسلام امن، رواداری، اور عدل کا دین ہے۔ جو شخص بھی ان اصولوں کی خلاف ورزی کرے، وہ اسلام کا نمائندہ نہیں بلکہ اس کا دشمن ہے۔ ہمیں ان باطل نظریات کے خلاف متحد ہونا ہو گا، اور اپنے معاشرے کو اس انتہا پسندی کے زہر سے پاک کرنا ہو گا۔صرف اسی صورت میں ہم ایک پرامن، مستحکم اور روشن پاکستان کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
Author
-
سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025بیورو چیف، پی این این، پشاور
جنوری 2023 تا جنوری 2024بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
16 فروری 2005 تا 21 جون 2008رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
فروری 2000 تا 30 نومبر 2003