Nigah

افغان طالبان حکومت کا امتحان

Taliban

حال ہی میں افغان طالبان کے ایک اہم کمانڈر سعیداللہ سعید کی جانب سے پولیس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقع پر دیا گیا بیان بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر خاصی اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔ اس بیان میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ کسی بھی ملک، بالخصوص پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنا امیرِ طالبان ہیبت اللہ اخونزادہ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ کوئی فرد اور نہ ہی کوئی گروہ ازخود "جہاد” کا اعلان کر سکتا ہے، اور ایسا کرنا درحقیقت امارت اسلامی افغانستان کے فیصلوں کی نافرمانی کے مترادف ہے۔
یہ بیان نہ صرف پاکستان کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے بلکہ خطے میں امن و استحکام کے فروغ کی طرف ایک قدم بھی تصور کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ افغان عبوری حکومت اس حکم کو پوری سختی سے نافذ کرے۔
طالبان کمانڈر کے اس بیان کو امیر کے احکام کا عکس قرار دینا چاہیے مگر اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب افغان حکومت خود ان احکام پر عملدرآمد کرانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ اگر واقعی افغان طالبان قیادت پاکستان کے خلاف کسی بھی طرح کی مسلح کارروائی کو غیر شرعی اور غیر قانونی تصور کرتی ہے تو ان گروہوں اور عناصر کو جوابدہ بنانا بھی ضروری ہے جو ایسی کارروائی کرنے والے عناصر کو پناہ یا حمایت فراہم کرتے ہیں۔
طالبان قیادت اگر اپنے احکام کی نافرمانی کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی نہ کرے تو یہ نہ صرف اس کی ساکھ کو متاثر کرے گا بلکہ اس کی عملداری اور نظم و ضبط پر بھی سوالیہ نشان لگائے گا۔ افغان حکومت کے لیے یہ ایک امتحان ہے کہ وہ ثابت کرے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان مخالف دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہیں بننے دے گی۔
افغان طالبان کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے کہ وہ دنیا کو یہ دکھائیں کہ وہ اب ایک منظم اور ذمہ دار ریاستی ڈھانچے کے تحت کام کر رہے ہیں۔ امیر کے حکم کی اطاعت، طالبان کی تنظیمی یکجہتی، خودمختاری اور پاکستان کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے عزم کا امتحان ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ ایک ذمہ دار ریاست ہونے کا ثبوت دیا۔ پاکستان مسلسل سفارتی ذرائع اور انٹیلیجنس تعاون کے ذریعے افغان قیادت پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ دہشتگرد عناصر کے خلاف کارروائی یقینی بنائے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کی جانب سے شریعت کے نام پر پاکستان کے خلاف مسلح کارروائیوں کی جو منطق پیش کی جاتی ہے وہ نہ صرف اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے بلکہ سراسر فتنہ پر مبنی بھی ہے۔
اسلام واضح طور پر مسلمانوں کو دشمنانِ اسلام کے ساتھ دوستی سے منع کرتا ہے، جبکہ مفتی نور ولی محسود بظاہر شریعت کی خدمت کا دعویٰ کرتے ہیں مگر درحقیقت وہ بھارت کی خفیہ ایجنسی "را” کا آلہ کار بن کر پاکستان کے خلاف دہشتگردی کو فروغ دے رہے ہیں۔
یہ دوغلا پن اس بات کی واضح مثال ہے کہ کس طرح مذہب کا سہارا لے کر نوجوانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے اور ریاستِ پاکستان کے خلاف بے بنیاد اور غیر شرعی جنگ مسلط کی جا رہی ہے۔
ٹی ٹی پی کی قیادت قرآن و سنت کی تعلیمات کو مسخ کرکے نوجوانوں کو گمراہ کر رہی ہے۔ جہاد جیسے عظیم اور مقدس فریضے کو فتنہ انگیزی اور ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنا نہ صرف اسلام کی توہین ہے بلکہ معصوم جانوں کے ضیاع کا باعث بھی ہے۔
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ جہاد صرف ریاست کے دائرہ اختیار میں ہوتا ہے اور کسی فرد یا گروہ کو اجازت نہیں کہ وہ ازخود اس کا اعلان کرے۔ مفتی نور ولی اور اس کے ساتھیوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف مسلح کارروائیاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی ہیں۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا تقاضہ یہ ہے کہ فتنہ کو رد کیا جائے نہ کہ اس کو جہاد کا لبادہ پہنا کر پھیلایا جائے۔ ٹی ٹی پی کے خودساختہ مجاہدین درحقیقت اس شریعت کے دشمن ہیں جس کا وہ نام لیتے ہیں۔
اسلام امن، رواداری اور عدل و انصاف کا دین ہے۔ جو لوگ اسلام کے نام پر دہشتگردی کرتے ہیں وہ دراصل اسلامی اصولوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اسلام کی عالمی ساکھ مجروح کرتے ہیں۔
ٹی ٹی پی کی کارروائیاں کسی صورت بھی خالصتاً مذہبی نہیں ہیں۔ درحقیقت یہ بھارت کی پراکسی وار کا حصہ ہیں جس کے تحت وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے افغانستان میں موجود دہشتگرد گروہوں کو مالی اور عسکری معاونت فراہم کرتا ہے۔
مفتی نور ولی محسود جیسے افراد بھارت کے ایجنڈے کو تقویت دے کر پاکستانی عوام اور اداروں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ ان کی تمام تر تقاریر اور بیانات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کا مقصد نہ اسلام ہے، نہ شریعت، بلکہ صرف پاکستان دشمنی ہے۔
اس تمام صورتحال کا خلاصہ یہ ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت کو اب سنجیدگی سے اپنے احکام پر عملدرآمد کرانا ہوگا۔ طالبان قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنی صفوں میں موجود ہر اس عنصر کے خلاف کارروائی کرے جو پاکستان دشمنی میں ملوث ہے۔
پاکستان کو بھی داخلی سطح پر انسداد دہشتگردی کی پالیسیوں کو مزید مؤثر بنانے، نوجوانوں کی دینی تربیت پر توجہ دینے، اور عالمی سطح پر بھارت کے مکروہ کردار کو مزید بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔
امن کی ضمانت صرف فوجی کارروائی سے نہیں بلکہ فکری اور نظریاتی اصلاحات سے بھی حاصل ہوتی ہے۔ جب تک معاشرے میں فتنہ انگیزی کو روکنے کے لیے تعلیمی، سماجی اور مذہبی محاذ پر کام نہیں کیا جائے گا، ایسے عناصر دوبارہ سر اٹھاتے رہیں گے۔
پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ فتنہ کے خلاف متحد ہو جائیں تاکہ آنے والی نسلوں کو امن، ترقی اور استحکام کا ماحول فراہم کیا جا سکے۔

Author

  • ایک تجربہ کار صحافی ہیں جن کا 30 سال کا تحریری تجربہ ہے ۔انہوں نے ڈیلی مشرق ، ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی آج سمیت معروف اخبارات میں تعاون کیا ہے ۔:

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔