یورپ اور امریکہ میں قائم انسانی حقوق کی بعض نام نہاد تنظیمیں پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا غیرمنصفانہ اور سیاسی ایجنڈے پر مبنی رجحان اپنائے ہوئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں "ہیومن رائٹس ڈیفینڈر” نامی ایک بین الاقوامی این جی او نے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کے نام کھلا خط لکھا جس میں بلوچستان یوتھ کانگریس کی قیادت کی گرفتاری پر اعتراض اٹھایا گیا اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس خط میں نہ صرف پاکستانی آئین اور قوانین کی غلط تشریح کی گئی بلکہ بلوچستان میں جاری ریاست مخالف سرگرمیوں کو انسانی حقوق کی آڑ میں چھپانے کی ناکام کوشش کی گئی۔
ہیومن رائٹس ڈیفینڈر کا یہ خط زمینی حقائق سے مکمل طور پر لاعلمی کا مظہر ہے۔ ان گرفتاریوں کے پیچھے کوئی سیاسی انتقام تھا، نہ ہی آزادی اظہار رائے کو دبانے کی کوشش۔ بلکہ یہ تمام کارروائیاں ملکی قانون کے تحت اور عدالتی نظرثانی کے بعد کی گئیں۔ پاکستان میں ہر شہری کو اظہار رائے، احتجاج اور سیاسی سرگرمی کی اجازت ہے لیکن جب یہ سرگرمیاں عوامی نظم و نسق کو نقصان پہنچائیں، قومی معیشت کو متاثر کریں اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت کو ہوا دیں تو پھر قانون حرکت میں آتا ہے۔
بلوچستان یوتھ کانگریس قیادت کی گرفتاری کی ایک واضح مثال مستونگ میں دیا جانے والا بیس روزہ دھرنا ہے جس کی قیادت اختر مینگل اور بلوچستان یوتھ کانگریس کے رہنماؤں نے کی۔ اس دھرنے کے دوران آر سی ڈی ہائی وے جو کوئٹہ اور کراچی کے درمیان تجارت اور آمدورفت کا سب سے اہم راستہ ہے مکمل طور پر بند رہا۔ اس بندش کے باعث نہ صرف بلوچستان کی معیشت کو شدید دھچکا پہنچا بلکہ روزمرہ کے تاجروں، طلباء، مریضوں اور عام شہریوں کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ کیا ایسے اقدامات کو پرامن احتجاج کہا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔
دنیا کے ہر جمہوری ملک میں احتجاج کا حق تسلیم شدہ ہے، مگر اس کے ساتھ کچھ حدود و قیود بھی وابستہ ہیں۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت آزادی اظہار رائے ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن یہ آزادی نفرت انگیز تقریر، اشتعال انگیزی اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اسی طرح آرٹیکل 16 کے تحت پرامن احتجاج کی اجازت ہے لیکن سڑکوں کی بندش، تجارتی سرگرمیوں کی معطلی اور روزمرہ زندگی کو مفلوج کرنے کی اجازت آئین نہیں دیتا۔
بلوچستان یوتھ کانگریس کی رہنما ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ کی گرفتاری ان کی شناخت یا خیالات کی بنیاد پر نہیں ہوئی بلکہ ان کی ایسی سرگرمیوں کی بنیاد پر ہوئی جو عوامی نظم و ضبط کو بگاڑنے کا سبب بنیں۔ ان دونوں خواتین نے سول اسپتال کوئٹہ میں ایسے وقت میں مظاہرہ کیا جب ہسپتال میں سانحہ کے زخمیوں اور شہداء کے لواحقین موجود تھے۔ اس عمل نے نہ صرف انتظامیہ کی پریشانی کا سبب بنا بلکہ یہ متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے بھی مترادف تھا۔
یہ گرفتاریاں تین ایم پی او جیسے قوانین کے تحت عمل میں آئیں جو عدالت کے تحت جائز قرار دی گئی۔ یہی وہ قانون ہے جو پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں بھی امن و امان قائم رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
شاہ جی صبغت اللہ اور گلزادی بلوچ کی گرفتاری بھی قانون کے مطابق ہوئی کیونکہ ان پر ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے، عوام کو اشتعال دلانے اور ریاستی املاک کو نقصان پہنچانے جیسے الزامات تھے۔ ان تمام اقدامات سے ریاست کی خودمختاری اور سلامتی کو خطرہ لاحق تھا۔
آج دنیا بھر میں انسانی حقوق کا نعرہ بعض غیر ریاستی عناصر اور بیرونی فنڈز سے چلنے والے گروہوں کی جانب سے سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ خاص طور پر بلوچستان جیسے حساس خطے میں جہاں ریاست مخالف پراکسی نیٹ ورکس متحرک ہیں۔ وہاں نسانی حقوق کی آڑ میں ریاست مخالف بیانیے کو فروغ دینا خطرناک رجحان ہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کی دعویدار خواتین اور صحافی اگر اپنے پلیٹ فارم کو ممنوعہ تنظیموں کے بیانیے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کریں تو ان کے خلاف قانونی کارروائی نہ صرف جائز بلکہ ضروری بن جاتی ہے۔
آج کا دور ڈیجیٹل دور ہے اور بدقسمتی سے سوشل میڈیا کو بھی ریاست مخالف مہمات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں پیکا جیسے قوانین موجود ہیں جن کے تحت ایسے افراد یا گروہوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے جو سوشل میڈیا پر نفرت، گمراہ کن معلومات یا تشدد کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ قوانین صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں بھی موجود ہیں اور سختی سے نافذ کیے جاتے ہیں۔ہیومن رائٹس ڈیفینڈر نے انٹرنیٹ کی معطلی پر بھی اعتراض اٹھایا۔ مگر انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ انٹرنیٹ بندش ایک انتہائی قدم ہے جو صرف اس وقت اٹھایا جاتا ہے جب قومی سلامتی کو خطرہ ہو۔ یہ طریقہ کار صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ بھارت، امریکہ اور فرانس جیسے ممالک میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
اب تک کئی کارکنان کو ضمانت دی جا چکی ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عدالتی نظام نہ صرف متحرک ہے بلکہ ہر شہری کو شفاف سماعت کا حق فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک زندہ اور آزاد عدلیہ کی علامت ہے جس پر تنقید کرنا محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے مترادف ہے۔
بلوچستان پاکستان کا دل ہے اور وہاں امن، ترقی، تعلیم اور روزگار کے مواقع دینا ریاست کی اولین ترجیح ہے۔ لیکن اگر چند عناصر بیرونی فنڈنگ، پراکسی بیانیے اور ریاست مخالف سوچ کے ساتھ عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کریں تو ریاست کو سخت فیصلے لینے پڑتے ہیں۔ انسانی حقوق کا مفہوم صرف احتجاج کا حق نہیں بلکہ ان لاکھوں شہریوں کا بھی تحفظ ہے جو پُرامن زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
ہیومن رائٹس ڈیفینڈر اور ان جیسے دیگر اداروں کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے زمینی حقائق کو سمجھیں، آئینی حدود کا ادراک کریں اور صرف یک طرفہ بیانیہ اپنانے کے بجائے غیر جانبدار رویہ اختیار کریں۔ انسانی حقوق کا تحفظ صرف ایک مخصوص طبقے کا نہیں پوری قوم کا حق ہے۔اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شہری کی سلامتی اور آئینی تحفظ کو یقینی بنائے۔
اگر یہ تنظیمیں واقعی انسانی حقوق کی علمبردار ہیں تو انہیں قانون کی عملداری اور ریاستی خودمختاری کا احترام کرنا ہوگا۔نہ کہ انسانی حقوق کے نام پر سیاسی مداخلت کی نئی شکل ایجاد کرنی چاہیے۔
Author
-
سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025بیورو چیف، پی این این، پشاور
جنوری 2023 تا جنوری 2024بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
16 فروری 2005 تا 21 جون 2008رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
فروری 2000 تا 30 نومبر 2003