Nigah

ایران اسرائیل جنگ۔ خطے میں نیا طوفان اور پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی

[post-views]

 

دنیا نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ جہاں مشرق وسطیٰ میں جاری ایران اور اسرائیل کی دشمنی ایک نئی اور خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے ایران پر کیا گیا حالیہ حملہ صرف ایک فوجی کارروائی نہیں بلکہ عالمی اصولوں، سفارتی روایات اور علاقائی توازن کے خلاف خطرناک قدم ہے۔ اس حملے کے اثرات محض ایران اور اسرائیل تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔

ایران اسرائیل کشیدگی کی تاریخ

ایران اور اسرائیل کے درمیان دشمنی نئی نہیں ہے۔ ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران نے اسرائیل کو "غاصب ریاست” قرار دیا اور اسے تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔ ایران فلسطین کی آزادی کا زبردست حامی ہے اور اسرائیل کے خلاف کھل کر آواز اٹھاتا رہا ہے۔ دوسری جانب اسرائیل نے ایران کو ہمیشہ خطرہ قرار دیا ہے۔ خاص طور پر اس وقت سے جب ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام پر کام شروع کیا۔
گزشتہ دہائیوں میں دونوں ممالک کے درمیان پراکسی جنگوں کا سلسلہ جاری رہا۔ حزب اللہ، حماس اور دیگر تنظیمیں اسرائیل کے خلاف ایران کی مدد سے سرگرم رہیں۔ جبکہ اسرائیل نے شام اور لبنان میں متعدد ایرانی اہداف کو نشانہ بنایا۔ مگر حالیہ حملہ ان کشیدگیوں میں ایک نیا اور خطرناک موڑ ہے کیونکہ اب دونوں ممالک براہِ راست ایک دوسرے کے خلاف میدان میں آچکے ہیں۔

عالمی اصولوں کی پامالی

اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق کسی بھی ملک پر جارحانہ حملہ بین الاقوامی جرم ہے۔ مگر اسرائیل نے عالمی برادری کی خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ قدم اٹھایا۔ یہ عمل اس بات کی علامت ہے کہ اسرائیل کو امریکہ اور مغربی طاقتوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ جس کی وجہ سے اسے کسی بین الاقوامی اصول یا قانون کی پروا نہیں۔
عالمی طاقتیں جو روس یوکرین جنگ پر دن رات تبصرے اور قراردادیں منظور کرتی ہیں وہ ایران پر اسرائیلی حملے پر یا تو خاموش ہیں یا اسے "دفاعی قدم” قرار دے رہی ہیں۔ یہ دوہرا معیار عالمی نظام انصاف کے لیے بڑا سوالیہ نشان بن چکا ہے۔

جنگ کا دائرہ وسیع ہونے کا اندیشہ

یہ جنگ اب محض ایران اور اسرائیل تک محدود نہیں رہی۔ ایران کے اتحادی جیسے کہ شام، حزب اللہ، یمن کے حوثی اور عراق کی شیعہ ملیشیا بھی اس تنازع میں سرگرم ہو چکے ہیں۔ ان گروہوں نے اسرائیل پر حملوں کی دھمکیاں دی ہیں اور کئی مقامات پر میزائل حملے بھی کیے گئے ہیں۔ ادھر اسرائیل بھی اپنی افواج کو مزید مستعد کر رہا ہے اور امریکہ سے اضافی عسکری مدد حاصل کر رہا ہے۔
تیل کی قیمتوں میں پہلے ہی اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور خلیجی ریاستیں بھی اس کشیدگی سے متاثر ہو رہی ہیں۔ اگر یہ جنگ مزید شدت اختیار کرتی ہے تو اس کے اثرات ترکی، قطر، سعودی عرب حتیٰ کہ پاکستان اور افغانستان تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔

بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ

ان حالات میں بھارت کا اسرائیل کے ساتھ کھل کر کھڑا ہونا انتہائی خطرناک اور معنی خیز پیش رفت ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ محض دفاعی شراکت داری سے آگے بڑھ کر نظریاتی ہم آہنگی تک پہنچ چکے ہیں۔
بھارت میں مودی سرکار اور اسرائیل کی حکومت دونوں ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں۔ اقلیت دشمنی، اسلام سے نفرت، عسکریت پسندی اور پروپیگنڈا کا استعمال۔ بھارت نہ صرف اسرائیلی اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے بلکہ اسرائیلی انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ خفیہ تعاون بھی کرتا رہا ہے۔

کشمیر میں بھارتی مظالم اور فلسطین میں اسرائیلی بربریت، دونوں ایک ہی سوچ کے عکاس ہیں۔ طاقت کے زور پر اقلیتوں کو دبانا اور اسلامی تشخص کو مٹانا۔ بھارت کی اسرائیل نوازی سے واضح ہوتا ہے کہ یہ محض ایک جنگ نہیں بلکہ ایک نظریاتی محاذ بھی ہے جس پر اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی

پاکستان اس تمام تر صورتحال میں خود کو غیر متعلق نہیں سمجھ سکتا۔ ایران اس کا ہمسایہ ملک ہے اور بلوچستان کی سرحد ایران سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر ایران میں بدامنی پھیلتی ہے تو اس کے اثرات پاکستان کے اندر داخل ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر جب بھارت اور اسرائیل پہلے ہی بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر کی مدد کرتے رہے ہیں تو ایک غیر مستحکم ایران ان عناصر کو مزید فعال کرنے کا موقع دے سکتا ہے۔
مزید برآں پاکستان کی خارجہ پالیسی، عسکری تیاری اور نظریاتی سرحدیں بھی ان خطرات کی زد میں آ سکتی ہیں اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے۔

پاکستان کی ممکنہ حکمت عملی

موجودہ حالات میں پاکستان کے لیے خاموش رہنا یا غیر فعال کردار اختیار کرنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے پاکستان کو فوری طور پر اسلامی ممالک خاص طور پر او آئی سی کے ذریعے ایک مضبوط سفارتی پوزیشن اپنانی چاہیے تاکہ ایران پر ہونے والے اسرائیلی حملے کی مذمت کی جا سکے اور عالمی برادری پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
سرحدی تعاون، انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ اور مشترکہ سیکیورٹی اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ پاکستان اور ایران کو دہشت گردی اور دراندازی کی روک تھام کے لیے عملی قدم اٹھانے ہوں گے۔ اسرائیل اور بھارت کی ممکنہ سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان کو اپنی دفاعی تیاری کو مزید مضبوط بنانا ہوگا۔ سائبر سیکیورٹی، جدید ہتھیاروں کا حصول اور دفاعی مشقیں ترجیح بننی چاہئیں۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ ایران اسرائیل جنگ کے حوالے سے ایک غیر جانبدار مگر اصولی بیانیہ عالمی فورمز پر پیش کرے جس میں امن، خودمختاری، اور بین الاقوامی قوانین کے احترام پر زور دیا جائے۔
ایران اسرائیل جنگ ایک سنگین عالمی بحران کا آغاز ہے جو مشرق وسطیٰ کو تباہی کے دہانے پر لے جا سکتا ہے۔ بھارت کی اسرائیل سے نظریاتی قربت نے اس جنگ کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ پاکستان جو خود دہشت گردی اور خارجہ دباؤ سے نبردآزما ہے کے لیے یہ صورتحال خطرے کی گھنٹی ہے۔
اس وقت پاکستان کو دانشمندی، اتحاد اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے فیصلے لینے ہوں گے جو نہ صرف قومی سلامتی بلکہ امت مسلمہ کے اجتماعی مفاد میں ہوں۔ پاکستان کا کردار اگر بروقت اور موثر ہو تو یہ نہ صرف خود کو بلکہ پورے خطے کو ایک بڑی تباہی سے بچا سکتا ہے۔

Author

  • سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
    یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025

    بیورو چیف، پی این این، پشاور
    جنوری 2023 تا جنوری 2024

    بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
    16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023

    سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
    22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017

    سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
    16 فروری 2005 تا 21 جون 2008

    رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
    یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005

    رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
    فروری 2000 تا 30 نومبر 2003

     

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔