مقامی وقت رات 2:37 بجے اسرائیلی F-35I اَدیر طیاروں اور ہارُوپ ڈرونز نے تہران، نطنز، اصفہان اور تبریز میں میزائل و ڈرون حملے کئے۔ 9–12 جون کو پاکستانی انٹیلی جِنس ایجنسیوں نے ملّیٹَری سیٹلائٹ (SIGINT) اور تھریا سیٹ-فون لنکس پر مشتمل چار کالز انٹرسیپٹ کیں۔ کال کرنے والے معرف کوڈ نیم S-9” (BLA)، F-17 (BLF) اور عبرانی لہجے والا R-209 (موساد فیلڈ آفیسر) استعمال کر رہے تھے۔ کل وقتی آڈیو ٹرانسکرپٹ کے کلیدی حصّے: 10 جون کی رات 10 بج کر 14 منٹ پر بی ایل اے کمانڈر، جسے انٹیلیجنس نیٹ ورک میں کوڈ نیم S-9 کے نام سے شناخت کیا گیا، نے اسرائیلی ایجنٹ R-209 کو سیٹلائٹ کال پر پیغام دیا:
"اگر اسرائیل بلوچستان کے ساحلی علاقے میں قدم جماتا ہے تو ہم اسے محفوظ گزرگاہ فراہم کریں گے.”
پاکستان کو ہر قیمت پر اندرونی خلفشار میں الجھائے رکھنا ہوگا۔ یہ گفتگو گوادر تا اورماڑہ کے درمیانی ریجن میں اسرائیلی بیچ ہیڈ قائم کرنے کی پیشکش کے طور پر ریکارڈ کی گئی۔ اس سے محض چند گھنٹے بعد، 11 جون کو صبح 3 بج کر 48 منٹ پر R-209 نے بی ایل ایف کے لیڈر بشیرزئی (کوڈ نیم F-17) کو حکم جاری کیا: چاہ بہار اور پنجگور میں تمہارے دو جڑواں حملے کافی ہوں گے. ہمیں صرف 72 گھنٹوں کی افراتفری درکار ہے۔
اس کال میں ایران اور پاکستان میں بیک وقت دھماکوں کی منصوبہ بندی واضح طور پر سامنے آتی ہے۔ دونوں آوازیں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے VoiceID ڈیٹا بیس میں موجود پروفائلز سے میچ ہو چکی ہیں، جن کی بنیاد پر یہ شناخت ممکن ہوئی۔ دونوں کی آوازیں VoiceID ڈیٹا بیس سے ملائی گئیں S-9 = BLA کمانڈر عبداللہ لہڑی، F-17 = BLF لیڈر اللہ نذر۔
قارئین کرام ا۔
اسرائیل اور بی ایل اے/بی ایل ایف کے درمیان گٹھ جوڑ کے پیچھے کئی محرکات کارفرما ہیں۔ سب سے اہم جغرافیائی عنصر ہے مکران کا 1,000 کلومیٹر سے زائد طویل ساحلی علاقہ اسرائیل کو اسٹریٹیجک لحاظ سے ایک ایسی پوزیشن فراہم کرتا ہے جہاں سے وہ خلیجِ فارس کی حساس بندرگاہوں اور ایرانی بحری نقل و حرکت پر قریبی نظر رکھ سکتا ہے۔ دوسری جانب، اس گٹھ جوڑ سے بلوچ علیحدگی پسندوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے، کیونکہ اسرائیل کی پشت پناہی سے نہ صرف انہیں بین الاقوامی توجہ حاصل ہو سکتی ہے بلکہ ہلکے پھلکے ہتھیاروں کی ترسیل بھی ممکن ہو جاتی ہے، جو ان کے محدود وسائل میں اضافہ کرے گی۔ اس ساری تصویر میں "بھارت فیکٹر” کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جسے پاکستانی سیکیورٹی حلقے "فتنہ الہندوستان” قرار دیتے ہیں۔ بی ایل اے کا بھارت کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ساتھ پہلے ہی تعاون ثابت شدہ ہے، اور یہی وجہ ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے 2019 میں بی ایل اے کو باضابطہ دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ یہ گٹھ جوڑ دراصل تین فریقوں کی ایک غیر اعلانیہ پراکسی اتحاد کی عکاسی کرتا ہے، جس کا ہدف ایران اور پاکستان کے اندرونی استحکام کو نقصان پہنچانا ہے
ریکارڈ پر موجود شواہد بی ایل اے کی دہشت گردی کی صلاحیت کو واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں۔ مارچ 2025 میں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ کا واقعہ، جس میں متعدد مسافروں کو یرغمال بنانے کے بعد شہید کر دیا گیا، گروپ کی سفاک حکمت عملی کا ثبوت ہے ۔ اسی طرح مئی 2025 میں سوراب پولیس اسٹیشن پر قبضہ اور اس کے ساتھ ہی بیک وقت میڈیا پروپیگنڈا کا آغاز، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بی ایل اے محض عسکری حملوں تک محدود نہیں بلکہ رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کے لیے جدید ہائبرڈ وارفیئر کے طریقے بھی استعمال کرتا ہے۔
قارئین محترم ا
خطرے کی موجودہ سطح بھی تشویشناک ہے۔ ایران میں بی ایل اے اور اس سے منسلک عناصر زاہدان سے چاہ بہار تک توانائی پائپ لائنوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، جس سے ایرانی معیشت کے ایک حساس شعبے کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ادھر پاکستان میں گوادر پورٹ، کوسٹل ہائی وے اور خضدار–کراچی پاور ٹرانسمیشن لائن جیسے اہم تنصیبات پر “ٹائمڈ” بم دھماکوں کی منصوبہ بندی اس مقصد سے کی جا رہی ہے کہ پاکستان اندرونی سطح پر اس قدر الجھ جائے کہ وہ ایران کی ممکنہ مدد یا اسرائیل کے خلاف کوئی سفارتی یا عسکری ردعمل نہ دے سکے۔ یہ صورتحال نہ صرف علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ ہے بلکہ پاکستان کی اقتصادی شہ رگوں پر براہِ راست حملہ تصور کی جا رہی ہے۔
تل ابیب نے اس بار ایران پر حملے کے لیے ایک بالکل نیا ماڈل اختیار کیا، جس میں فضائی حملوں اور اندرونی سبوتاژ کو بیک وقت استعمال کیا گیا۔ یہ حکمت عملی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اسرائیل نے زمینی رسائی کے بغیر، بلوچستان میں موجود بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسے دہشت گرد گروپوں کی مدد سے ایک ممکنہ “بیچ ہیڈ” قائم کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ یعنی ایسی اسٹریٹجک پوزیشن جہاں سے وہ نہ صرف ایران کے اندر کارروائیاں جاری رکھ سکے بلکہ خطے میں اپنی موجودگی بھی برقرار رکھے۔ یہی طریقہ اسرائیل نے 1980 کی دہائی میں جنوبی لبنان میں اپنایا تھا، جب اس نے مقامی کرسچن ملیشیاؤں کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ
بلوچستان ہی اسرائیلی ٹارگٹ پر کیوں ……….,.؟
اس کا پہلا اور سب سے اہم سبب جغرافیائی محلِ وقوع ہے مکران کا ساحلی علاقہ براہِ راست آبنائے ہرمز پر نظر رکھتا ہے، جو عالمی توانائی گزرگاہوں میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرا سبب سی پیک کا وہ زمینی راستہ ہے جو گوادر سے خنجراب تک جاتا ہے۔ اس راستے کی کسی بھی مرحلے پر بندش نہ صرف چین بلکہ خلیجی ممالک کے لیے بھی اقتصادی مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ تیسرا اور سب سے خطرناک پہلو اندرونی تضادات کا فائدہ اٹھانا ہے بلوچ قوم پرستی کی سیاست کو ہائی جیک کرکے اسے دہشت گردی کی شکل دی جا رہی ہے اور اسے ایک نام نہاد “رائٹس موومنٹ” کے لبادے میں عالمی سطح پر بیچا جا رہا ہے، تاکہ پاکستان کو داخلی و خارجی محاذ پر یکساں دباؤ میں لایا جا سکے۔
Author
-
انیس الرحمٰن ایک مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اردو میں وہ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، اکثر ان موضوعات پر بصیرت انگیز تجزیے لکھتے ہیں۔ ای میل: