Nigah

بھارت، خواتین کیلئے خطرناک ترین ملک

nigah pk

رواں ماہ 16 جون کو امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے بھارت کے لیے جاری کردہ سفری وارننگ نے ایک بار پھر دنیا کی توجہ بھارت میں خواتین کے حقوق اور ان کے تحفظ کے گھمبیر مسئلے کی طرف مبذول کروائی ہے۔ اگرچہ عمومی طور پر ایسی وارننگز جرائم یا دہشت گردی کے خطرے پر مبنی ہوتی ہیں مگر اس بار ایک مخصوص اور نہایت تشویشناک نکتہ عالمی سرخیوں کی وجہ بنا "اکیلا سفر نہ کریں” یہ ہدایت خاص طور پر خواتین کو دی گئی۔

یہ صرف ایک محتاط سفری مشورہ نہیں، بلکہ بھارت میں خواتین کے خلاف جاری منظم، پرتشدد اور خاموشی سے نظرانداز کیے گئے جرائم کی سنگین عکاسی ہے۔
بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر روز عورت کی عزتیں پامال ہوتی ہیں اور اسے سماج، نظام اور حکومت تینوں سطحوں پر خاموشی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں چونکا دینے واکے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔
2022 میں 31 ہزار 5 سو 16 ریپ کیسز رپورٹ ہوئے۔
روزانہ 86 خواتین جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں جبکہ ہر 16 منٹ میں ایک ریپ کیس رپورٹ ہوتا ہے ۔
یہ صرف وہ اعداد ہیں جو رپورٹ ہوئے، جبکہ زمینی حقیقت اس سے کہیں زیادہ ہولناک ہے۔ دیہی علاقوں میں خواتین اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کو رپورٹ ہی نہیں کرتیں کیوں کہ وہ جانتی ہیں کہ نظام انصاف ان کا ساتھ نہیں دے گا۔
امریکہ کی جانب سے جاری کردہ وارننگ بھارت کے لیے کوئی پہلی خارجی تنقید نہیں۔ تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کو دنیا کا خواتین کے لیے سب سے خطرناک ملک قرار دیا گیا۔ یعنی شام اور افغانستان جیسے جنگ زدہ ممالک سے بھی بدتر صورتحال بھارت میں ہے۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے بارہا بھارت کو تنبیہ کر چکے ہیں کہ اگر وہ خواتین کے تحفظ کو سنجیدگی سے نہیں لے گا تو اس کی عالمی ساکھ شدید متاثر ہو گی۔
یہ تشویش صرف انسانی حقوق کی حد تک محدود نہیں بلکہ معاشی پہلوؤں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ سیاحت، سرمایہ کاری اور بین الاقوامی روابط تینوں پر منفی اثر پڑ رہا ہے کیونکہ دنیا کے لیے بھارت ایک غیرمحفوظ مقام بنتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر خواتین سیاحوں کے لیے۔
بھارتی حکومت کی جانب سے ان مسائل کے حل کے بجائے ان کا سیاسی استعمال زیادہ نمایاں ہے۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے "آپریشن سندور” کا اعلان کیا جس کا مقصد مبینہ طور پر پاکستانی سے بھارتی خواتین کا بدلہ لینا تھا۔
یہ بیانیہ نہ صرف گمراہ کن ہے بلکہ عورتوں کی عزت کو ایک عسکری کارروائی کا جواز بنانے کی خطرناک کوشش ہے۔ ہندو روایات میں “سندور” عورت کی عزت، وقار اور شادی شدہ زندگی کی علامت ہے مگر اسی علامت کو عسکری آپریشن کا نام دے کر بھارتی حکومت نے عورت کی حرمت کو ایک ہتھیار میں تبدیل کر دیا۔
یہ وہی طرزِ عمل ہے جسے "ہتھیار بنی نسوانیت” کہا جا رہا ہے۔ یہ ایک سیاسی چال ہے جس کے ذریعے خواتین کے اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر دشمنی، انتقام اور قوم پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
جب ایک متاثرہ خاتون بھارتی عدالتوں سے انصاف کی امید رکھتی ہے تو وہ اکثر مایوس ہو کر لوٹتی ہے۔ لیفٹیننٹ شکھا کی خودکشی اس کا ایک افسوسناک ثبوت ہے۔ شکھا نے اپنی موت سے پہلے ایک نوٹ میں جنسی ہراسانی کا ذکر کیا مگر عدالت نے اس نوٹ کو "غیر مستحکم ذہن” کا نتیجہ کہہ کر مسترد کر دیا۔
اسی طرح فضائیہ کے ایک کیس میں ایک خاتون افسر نے اجتماعی ریپ کا الزام لگایا مگر عدالتی کارروائی کو طوالت دے کر معاملے کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ یہ واقعات بھارتی عدلیہ اور عسکری اداروں کے اندر موجود سسٹم کی ناکامی کو ظاہر کرتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی 2018 اور 2019 کی رپورٹس میں بھارتی افواج پر مقبوضہ کشمیر میں خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کے سنگین الزامات لگائے گئے۔ یہ الزامات نہ صرف فوجی اہلکاروں کی جانب سے بدسلوکی کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ ریاستی سرپرستی میں ہونے والے مظالم کی نشان دہی بھی کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے بھارتی حکومت نے ان رپورٹس کو مسترد کر کے جھوٹ پر مبنی قرار دے دیا۔ نہ تو کوئی غیر جانبدار تحقیقات ہوئیں اور نہ ہی متاثرہ خواتین کو انصاف ملا۔
بھارت میں میڈیا کا ایک بڑا حصہ حکومتی پالیسیوں کا پرچارک بن چکا ہے۔ خواتین کے خلاف مظالم کی خبریں اکثر یا تو نظرانداز کر دی جاتی ہیں یا ان کی نوعیت کو ذاتی جھگڑا یا شخصی معاملہ قرار دے کر کم اہمیت دی جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر متاثرہ خواتین کو بدنام کرنا، ان پر الزام تراشی کرنا اور ان کے کردار کو مشکوک بنانا ایک عام چلن ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے تاکہ وہ خاموش ہو جائیں اور نظام پر انگلی نہ اٹھائیں۔
بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے مگر جمہوریت صرف ووٹ ڈالنے کا نام نہیں۔ یہ انصاف، تحفظ اور برابری کا نام بھی ہے۔ خواتین کی آزادی، عزت اور حفاظت کے بغیر کوئی ملک مہذب نہیں کہلا سکتا۔
امریکہ کی سفری وارننگ ایک آئینہ ہے جو بھارت کو اس کا اصل چہرہ دکھا رہا ہے۔ کیا بھارت اس آئینے میں جھانکے گا؟ یا قوم پرستی کے پردے میں اسے توڑ کر نظرانداز کر دے گا؟
یہ فیصلہ صرف حکومت کا نہیں بلکہ بھارتی معاشرے کے ہر فرد کا ہے۔ جب تک عورت سڑک پر، گھر میں، عدالت میں اور میڈیا میں محفوظ نہیں تب تک ترقی کے ہر دعوے کو سوالیہ نشان سمجھا جائے گا۔

Author

  • سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
    یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025

    بیورو چیف، پی این این، پشاور
    جنوری 2023 تا جنوری 2024

    بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
    16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023

    سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
    22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017

    سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
    16 فروری 2005 تا 21 جون 2008

    رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
    یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005

    رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
    فروری 2000 تا 30 نومبر 2003

     

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔