Nigah

بھارت میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر 30 کروڑ مسلمانوں کی حالت زار

اسلام میں وضع کردہ ہر حلال جانور کی قربانی پر پاکستان میں کوئی پابندی نہیں جبکہ پاکستانی افواج کے ہاتھوں بدترین شکست اور عالمی سطح پر جگ ہنسائی کے بعد ہندوانتہا پسندوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو بڑے خطرات کا سامنا ہے
اس سال پاکستان میں عید الاضحیٰ کے موقع پر گائے اور بیل کی دیگر جانوروں کی نسبت زیادہ تعداد میں قربانی دی جا رہی ہے۔

سندھ اور جنوبی پنجاب میں بڑے جانوروں میں اونٹ کی قربانی بھی ماضٰی میں دیکھی گئی ہیں،

اسلام آباد میں زیادہ تر لوگ دنبے اور بکرے پسند کرتے ہیں، اس کی بڑی وجہ گھروں میں کم جگہ گھیرتے ہیں اور پالنا دیگر بڑے جانوروں کی نسبت آسان ہوتا ہے۔ پختونخوا میں بڑے جانوروں میں گائے، بھینس، بیل کے ساتھ صاحب ثروت لوگ اضافی دنبے اور بکرے قربانی میں ذبح کرتے ہیں۔ شمالی علاقہ جات میں صاحب ثروت لوگ یاک کی قربانی پسند کرتے ہیں۔

عالم اسلام میں عید الضحیٰ دیگر دنیا میں مذہبی تہواروں سے سب سے مہنگا تہوار ہے صرف پاکستان میں اس فرض کی ادائیگی پر اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں اور قربانی کرنے والے افراد بارگاہ الٰہی میں قبولیت کی دعا کرتے ہیں۔

عید الاضحیٰ، جو کہ مسلمانوں کے لیے قربانی اور ایثار کا مقدس تہوار ہے، ہندوستان میں کئی مسلمانوں کے لیے ایک آزمائش بن جاتا ہے۔ گائے کی قربانی کو لے کر ہندو انتہا پسند گروہوں اور بعض ریاستی حکومتوں کی جانب سے مسلمانوں کو جان بوجھ کر مشکلات میں ڈالا جاتا ہے۔

ہندوستان کی کئی ریاستوں (جیسے اترپردیش، گجرات، ہریانہ، مہاراشٹر) میں گائے کی قربانی پر مکمل یا جزوی پابندی عائد ہے۔ بعض علاقوں میں پولیس مسلمانوں کو دھمکاتی ہے، قربانی کے لیے خریدے گئے جانور ضبط کر لیتی ہے، یا جانوروں کی طبی جانچ کے بہانے رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔

کئی ریاستوں میں عید سے قبل ہی مساجد اور مسلم علاقوں میں پولیس چھاپے مارتی ہے تاکہ گائے ذبح کرنے سے روکا جا سکے۔ کئی مقامات پر ہندو قوم پرست گروہ مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے یا گوشت تقسیم کرنے سے روکتے ہیں، اور بعض صورتوں میں ان پر حملے بھی کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جاتی ہے، جس میں ان پر "گاؤ کشی” کا الزام لگا کر تشدد کو بھڑکایا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بعض کیسز میں تو مسلمانوں کو جانوروں کی قربانی کرتے ہوئے ویڈیو بنانے پر مجبور کیا گیا، تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ وہ گائے نہیں بلکہ بیل ذبح کر رہے ہیں۔ بعض شہروں میں مسلمانوں کو قربانی کے لیے خصوصی اجازت نامے لینے پڑتے ہیں، جس میں انتظامیہ جان بوجھ کر تاخیر کرتی ہے۔ کچھ علاقوں میں مسلمانوں کو صرف رات کے اندھیرے میں یا خاموشی سے قربانی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، تاکہ ہندو انتہا پسندوں کے غصے سے بچا جا سکے۔

قربانی کے بعد گوشت کی تقسیم کے دوران بھی مسلمانوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، خاص طور پر اگر وہ غریب ہندوؤں یا دلتوں کو گوشت دیں۔ بعض ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر عید الاضحیٰ کو "گاؤ قتل کا تہوار” بنا کر پیش کیا جاتا ہے، جس سے عوامی جذبات بھڑکائے جاتے ہیں۔ کئی ہندو قوم پرست لیڈر عید کے موقع پر بیانات دے کر مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں اور انہیں "ہندو تہذیب کا دشمن” قرار دیتے ہیں۔ کئی مسلمانوں نے اب گائے کی بجائے بکرے، دنبے یا بھینس کی قربانی کو ترجیح دینا شروع کر دیا ہے، تاکہ تنازعات سے بچا جا سکے۔ بعض علاقوں میں مسلمان اجتماعی قربانی گاہوں (جیسے عیدگاہ) میں قربانی کرتے ہیں، جہاں سیکورٹی کا انتظام ہوتا ہے۔

کچھ مسلم تنظیمیں قانونی چارہ جوئی کرتی ہیں اور حکومت کو یاد دلاتی ہیں کہ قربانی کا حق آئینی طور پر محفوظ ہے۔

قارئین کرام ا

بھارت میں ہندو مت میں گائے کو "گاؤ ماتا” کہا جاتا ہے اور اسے مقدس سمجھا جاتا ہے۔ یہ عقیدہ ویدک دور سے چلا آ رہا ہے، جہاں گائے کو زندگی بخش اور زرخیزی کی علامت مانا جاتا تھا۔

ہندو گائے کے دودھ کے ساتھ اب گودی میڈیا اور ہندو انتہا پسندوں نے گائے کے گوبر اور پیشاب کو بھی پاکیزہ سمجھنا شروع کردیا ہے۔ گائے کی ہلاکت کو مذہبی توہین قرار دیتے ہیں جبکہ مسلمانوں سے نفرت اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ کسی بھی مسلمان کے ساتھ بڑا گوشت دیکھ لیتے ہیں تو اسے مارنے اور قتل کرنے تک آجاتے ہیں۔

عید الضحیٰ کے موقع پر ہندوستان میں 30 کروڑ سے زائد مسلم آبادی کو جس اذیت کا سامنا ہوتا ہے دنیا کے کسی اور ملک میں ایسا نہیں کیا جاتا۔

ہندوستان میں عید الاضحیٰ کا تہوار مسلمانوں کے لیے خوشی کے بجائے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ گائے کی قربانی کو لے کر ہندو انتہا پسندوں کا تشدد، پولیس کی سختی اور انتظامی رکاوٹیں مسلمانوں کو ان کے مذہبی فریضے سے روکنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس کے باوجود، مسلمان اپنے عقیدے پر قائم رہتے ہوئے احتیاط کے ساتھ قربانی کرتے ہیں اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔

ہندوستان میں قربانی کا مسئلہ صرف مذہبی نہیں بلکہ سیاسی بھی ہے، جسے بعض گروہ مسلمانوں کو سماجی طور پر کمزور کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

قربانی صرف ایک رسمی عمل نہیں، بلکہ ایمان و ایثار، عقیدت و اطاعت کا ایک پاکیزہ اظہار ہے۔ یہ وہ مقدس لمحہ ہے جب ایک مومن دنیاوی تعلقات اور مادی محبتوں کو پسِ پشت ڈال کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنی عزیز ترین متاع قربان کر دیتا ہے۔

یہ عظیم عبادت ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظمتِ کردار کی یاد دلاتی ہے، جنہوں نے اللہ کے حکم پر اپنے لاڈلے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا عزم فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس بے مثال ایثار، یقینِ کامل اور تسلیم و رضا کو ہمیشہ کے لیے امتِ مسلمہ کے لیے نمونہ بنا دیا۔ آ

ج بھی ہر صاحبِ استطاعت مسلمان اسی سنتِ ابراہیمی کو زندہ رکھتے ہوئے قربانی پیش کرتا ہے، جو درحقیقت تقویٰ، شکرگزاری اور فرمانبرداری کا بے مثال عمل ہے۔ قربانی کا یہ پیکر فقط گوشت بانٹنے تک محدود نہیں، بلکہ اس میں غریبوں، مسکینوں اور رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی بھی شامل ہے، تاکہ خوشیاں سب میں برابر تقسیم ہوں۔

یہی توحید کی حقیقی روح اور عید الاضحیٰ کا اصل پیغام ہے۔

Author

  • سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
    یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025

    بیورو چیف، پی این این، پشاور
    جنوری 2023 تا جنوری 2024

    بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
    16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023

    سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
    22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017

    سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
    16 فروری 2005 تا 21 جون 2008

    رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
    یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005

    رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
    فروری 2000 تا 30 نومبر 2003

     

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔