Nigah

بھارت میں پاکستانی ہندووں کا المیہ

india

بھارت میں مقیم پاکستانی ہندو مہاجرین ایک طویل عرصے سے پسماندگی، بے وطنی اور حکومتی بے حسی کا شکار ہیں۔ ان مہاجرین کی بڑی تعداد پاکستانی میں سندھ کے مختلف علاقوں سے بھارت منتقل ہوئی، جنہوں نے بھارت کو محفوظ پناہ گاہ سمجھا۔ لیکن ان کا سامنا توقعات کے برعکس صورتحال سے ہوا۔ حالیہ برسوں میں ان مہاجرین کے ساتھ پیش آنے والے متعدد واقعات نے بھارتی حکومت کی پالیسیوں اور انسانی حقوق کے دعووں کو سخت سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔
سندھ کے شہر سکھر سے ہجرت کرکے بھارت آنے والے ایک مہاجر جوڑے سنجے کمار اور ان کی اہلیہ سپنا کماری کی لاشیں حال ہی میں ممبئی سے برآمد ہوئیں۔ دونوں کو چاقو کے وار کرکے قتل کیا گیا۔ یہ واقعہ نہ صرف ہولناک تھا بلکہ اس نے بھارتی معاشرے میں مہاجرین کے خلاف موجود تعصب اور عدم تحفظ کو اجاگر کر دیا۔
اس سے قبل 9 اگست 2020 کو راجستھان کے شہر جودھ پور میں ایک ہی خاندان کے 11 پاکستانی ہندو مہاجر پراسرار حالات میں مردہ پائے گئے۔ ابتدائی رپورٹوں میں ان ہلاکتوں کو اجتماعی خودکشی یا قتل قرار دیا گیا لیکن ان کے پسِ پردہ اصل وجوہات آج تک سامنے نہیں آ سکیں۔ ان واقعات نے نہ صرف پاکستانی ہندو برادری کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ عالمی سطح پر بھی تشویش پیدا کی۔
بھارت میں رہنے والے پاکستانی ہندو مہاجرین کی اکثریت غیر رسمی کیمپوں میں آباد ہے۔ ان کیمپوں کی حالت نہایت ابتر ہے: صفائی کا نظام ناقص، پینے کے صاف پانی کی قلت، بجلی کی عدم دستیابی اور صحت کی سہولیات کا فقدان عام ہے۔ ان کیمپوں میں زندگی گزارنا کسی اذیت سے کم نہیں۔ خواتین اور بچے خاص طور پر ان غیر انسانی حالات سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔
مہاجر کیمپوں میں پیدا ہونے والے یا کم عمری میں بھارت آنے والے بچوں کو بھی شدید مسائل کا سامنا ہے۔ ان کے پاس مناسب شناختی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اسکولوں میں داخلہ نہیں دیا جاتا۔ نتیجتاً یہ بچے تعلیم سے محروم رہ کر مزدوری یا گلیوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس صورتحال نے ایک ایسی نسل کو جنم دیا ہے جو نہ بھارتی ہے نہ پاکستانی بلکہ بے شناخت نسل ہے۔
بھارتی حکومت کی طرف سے 2019 میں متعارف کردہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے تحت وعدہ کیا گیا تھا کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آئے ہوئے غیر مسلم مہاجرین کو شہریت دی جائے گی۔ لیکن عملی طور پر یہ وعدہ زبانی جمع خرچ تک محدود رہا ہے۔

2015ء کے اعداد و شمار کے مطابق تقریبا 36 ہزار پاکستانی ہندو مہاجرین بھارت میں طویل المدتی ویزا پر رہائش پذیر ہیں اور شہریت کے منتظر ہیں۔ اس کے برعکس، صرف 2014-15 میں تقریباً 4,300 ہندو اور سکھ مہاجرین کو بھارتی شہریت دی گئی۔ یعنی شہریت کا عمل نہایت سست، غیر شفاف اور محدود پیمانے پر جاری ہے۔

اس طویل انتظار سے تنگ آ کر 2021 میں تقریباً 800 پاکستانی ہندو خاندان بھارت چھوڑ کر واپس پاکستان چلے گئے۔ یہ فیصلہ ان کے لیے تکلیف دہ ضرور تھا، لیکن بھارت میں درپیش ذلت، غیر یقینی صورتحال اور حکومتی بے حسی نے انہیں واپسی پر مجبور کر دیا۔
بھارتی معاشرے میں پاکستانی ہندو مہاجرین کو مشکوک نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ان پر اکثر پاکستانی ایجنٹ ہونے یا غیر قانونی ہونے کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ ایک جانب بھارتی حکام اور میڈیا انہیں پناہ گزین قرار دیتے ہیں تو دوسری جانب ان کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ان کی شناخت ایک معمہ بن چکی ہے۔ نہ وہ مکمل بھارتی بن سکے اور نہ ہی انہیں پاکستانی مانا جاتا ہے۔
ہر سال سینکڑوں پاکستانی ہندو خاندان بھارت کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں، جن کی تعداد اب 80 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان میں سے اکثر راجستھان، مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا اور دہلی کے ارد گرد کے علاقوں میں قیام پذیر ہیں۔ یہ مہاجرین رسمی دستاویزات، رہائش، روزگار، صحت، تعلیم اور شہریت سے محروم ہیں۔ ان کی حالت ایسی ہے جیسے وہ اپنی زمین سے اکھاڑ کر ایک اجنبی دنیا میں پھینک دیے گئے ہوں۔
ایک جانب بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور انسانی حقوق کا علمبردار کہتا ہے تو دوسری جانب مہاجرین کی حالت زار اس دعوے کی نفی کرتی ہے۔ بھارتی حکومت نے بین الاقوامی سطح پر مہاجرین کے حق میں بولنے کا رواج اپنا رکھا ہے لیکن جب بات اپنے ملک میں مہاجرین کی ہو تو رویہ سخت گیر اور غیر انسانی ہو جاتا ہے۔
عالمی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اکثر روہنگیا، فلسطین یا شام جیسے مہاجرین کے مسائل پر آواز اٹھاتی ہیں، لیکن پاکستانی ہندو مہاجرین کے مسئلے پر پراسرار خاموشی طاری ہے۔ اس خاموشی کا سبب سیاسی مفادات، بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات یا پھر مذہبی اقلیت ہونے کے باعث ان مہاجرین کی عدم اہمیت ہو سکتی ہے۔
پاکستانی حکومت پر بھی لازم ہے کہ وہ ان خاندانوں کی واپسی اور تحفظ یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات کرے۔ اگر یہ مہاجرین وطن واپس آنا چاہتے ہیں تو انہیں باعزت اور محفوظ زندگی دینے کے لیے مکمل سہولیات فراہم کی جائیں۔ ان کی بے دخلی اور ہجرت کی وجوہات کا بغور جائزہ لے کر اصلاحات کی جائیں تاکہ آئندہ مزید خاندان نقل مکانی پر مجبور نہ ہوں۔
پاکستانی ہندو مہاجرین کی حالت نہ صرف ایک انسانی المیہ ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا آئینہ بھی ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان مہاجرین کو شہریت، تعلیم، صحت، روزگار اور تحفظ فراہم کرے۔ صرف نعروں اور قوانین سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان مہاجرین کا استحصال اور نظراندازی ایک ایسے دھبے کی مانند ہے جو بھارت کے مہان بھارت کے تصور کو داغدار کرتا ہے۔

Author

  • سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
    یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025

    بیورو چیف، پی این این، پشاور
    جنوری 2023 تا جنوری 2024

    بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
    16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023

    سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
    22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017

    سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
    16 فروری 2005 تا 21 جون 2008

    رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
    یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005

    رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
    فروری 2000 تا 30 نومبر 2003

     

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔