Nigah

بھارت کے ساون حبس ڈوب گئے

trump
[post-views]

امریکا میں ایک حیران کن لیکن سفارتی اعتبار سے اہم ملاقات دیکھنے میں آئی، جب پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف، فیلڈ مارشل عاصم منیر نے واشنگٹن ڈی سی میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے خصوصی ملاقات کی۔ اس ملاقات کو رسمی تبادلہ خیال سمجھنا سطحی ہوگا، کیونکہ اس کے اندرونی مقاصد، جغرافیائی سیاست، علاقائی تنازعات اور عالمی طاقتوں کی چالیں پنہاں تھیں۔یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی جب خطے میں کئی ممالک پر تناؤ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ مئی 2025 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان شدید فضائی جھڑپیں ہوئیں،جس میں پاکستان کی افواج نے دنیا کا طاقت کا منظر نامہ ہی بدل دیا۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان خطرناک حد تک کشیدگی بڑھی۔ عالمی سطح پر امریکہ اپنی عالمی برتری کو بحال کرنے اور مشرقِ وسطیٰ و جنوبی ایشیا میں دوبارہ اثر و رسوخ حاصل کرنے کی جستجو میں تھا۔ ایسے حالات میں ٹرمپ اور منیر کی ملاقات ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔سب سے اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ مسلم ممالک جن کی 27 تعداد ہے اور جس میں مشرق وسطی کے ممالک جیسے سعودی عرب قطر عرب امارات شامل ہے ان کے سفیروں نے پاکستان کے ساتھ مل کر ایران کی یکجہتی کا ارادہ کیا اس سلسلے میں ایک بیانیہ جاری ہوا جو پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کیا گیا اور ان ممالک میں ایران کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا جس سے یہ واضح ہو گیا کہ مشرق وسطی پر جو امریکہ کا اثر رسوخ تھا وہ مٹی میں مل گیا کیونکہ امریکہ نے اب تک جو بھی ناپسندیدہ اقدامات کیے ہیں ان کے بارے میں عرب ممالک نے خاموشی اختیار کیے رکھی یہ پہلی دفعہ ہے کہ اسرائیل کی بھرپور اور کھلے الفاظ میں مت کی گئی ہے اس بیانیہ کا پاکستان سے جاری ہونا ایک انقلاب سے کم نہیں ہے کسی زمانے میں اس خطے میں تمام بڑی طاقتیں بھارت کو ترجیح دیا کرتی تھیں
ملاقات کی اہمیت کے عمل سے بھی اندازہ لگا لیا جائے کہ امریکہ کی تاریخ میں پاکستان کے چیف اف ارمی سٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر دنیا کی وہ واحد شخصیت ہیں جن کو کسی امریکی صدر نے پہلی مرتبہ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی دعوت دی اور ان کے ساتھ ظہرانہ کیا
پاکستان کے فیڈ مارشل عاصم منیر کو مدعو کرنے کی خبریں کافی دنوں سے چل رہی تھی اور دیکھنے میں یہ ایا تھا کہ بھارتی حکام سیاستدان کے پیٹ میں مڑوڑ اٹھ رہی تھی چنانچہ ان کا میڈیا بھی جو اپنے عوام کو یک طرفہ معلومات فراہم کرتا ہے وہ بھی سر چکرائے بیٹھا تھا کہ کہاں تک دروغ گوئی سے کام لے ۔عالمی مبصرین کی رائے یہ ہے کہ اس ملاقات کے نتیجے میں دو دیرینہ دشمنوں کے درمیان ٹھنڈ پڑے گی اور تناؤ میں کمی کے امکانات و اشارہ مثبت ثابت ہوں گے
اس ملاقات کے بارے میں جو معلومات حاصل ہو رہی ہیں ان کے مطابق
ڈونلڈ ٹرمپ نے کھلے الفاظ میں کہا کہ "دو بہت عقلمند افراد نے جنگ سے گریز کیا”۔ ان کے مطابق عاصم منیر اور نریندر مودی نے جنگ کو مزید نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا، جس پر انہوں نے دونوں کا شکریہ ادا کیا۔سید عاصم منیر نے میڈیا سے بات چیت سے گریز کیا یہ ان کی بردباری کا اظہار ہے کیونکہ یہ ملاقات اگرچہ امریکی صدر کی دعوت پر ہوئی لیکن پالیسی کے مطابق ان کا کچھ کہنا مناسب نہ تھا، البتہ امریکی صدر نے میڈیا سے گفتگو کی اس وقت عالمی سطح پر سب سے اہم ترین مسئلہ تشویش ناک اور بدترین تنازعے کی صورت میں اسرائیل اور ایران جنگ ہے امریکہ کا یہ خیال ہے کہ اس جنگ کے خاتمے میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جو کردار ادا کر سکتا ہے چنانچہ امریکہ کو ایران-اسرائیل تنازعہ میں ثالثی کی تلاش ہے اورٹرمپ کا کہنا تھا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر ایران کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، اور پاکستان ایران پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکہ، ایران اور اسرائیل کے مابین کشیدگی کم کرنے کے لیے پاکستان کی ثالثی چاہتا ہے۔یہاں یہ امر بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ اس وقت امریکہ کی یہ حالت ہے کہ وہ جو پہلے عالمی معاملات میں خود ہی بڑھ کر اقدام اٹھاتا تھا اج وہ پاکستان سے خواہش کر رہا ہے کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کرے امریکہ اپنی برتری رکھنے کے لیے یہ خواہش بھی رکھتا ہے کہ ایرانی وفت وائٹ ہاؤس ا کے امریکہ سے مذاکرات کرے ٹھیک ہے اگر امریکہ ایران کو مذاکرات کے لیے دعوت دیتا ہے تو اچھی بات ہے لیکن یہ مذاکرات کہاں ہوں گے یہ یک طرفہ طور پر کسی مقام پر نہیں ہو سکتے یعنی امریکہ کی خواہش پر نہیں ہو سکتے اس کے لیے ایران کی رضامندی بھی ضروری ہے یہاں ایک اور بات بھی بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ ایران اسرائیل جنگ میں وہ ساکھ جو امریکہ کو حاصل تھی گھٹ چکی ہے اس کی بہ نسبت چین کی خطے میں اہمیت بڑی ہے اور امریکہ مستقبل کا نقشہ یہ دیکھ رہا ہے کہ اگر ایران اور اسرائیل جنگ کا کوئی مثبت پہلو تلاش نہیں ہو سکا تو جنوبی ایشیا میں اس کی جارہ داری کو بہت بڑا دھچکا لگ چنانچہ وہ چین کے اثر کو متوازن کرنے کا متلاشی بھی ہے چنانچہ وہ اس ملاقات سے یہ سود بھی حاصل کرنا چاہتا ہے کہ اس کی ایشیا میں پہلی جیسی ساکھ برقرار رہے
چین کے ساتھ پاکستان کے قریبی تعلقات نے امریکہ کو اس بات نے مجبور کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی کو ازسرنو کرے۔اس نے بھارت کے بہت ناز و نخرے اٹھا کر اور پال کر دے دیا ہے کہ نتیجہ کیا رہا ہے ٹھوکر کھا کر ہی سمجھ اتی ہے
یہاں یہ امر بھی قابل غور ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو کسی کو بھی منھ نہیں لگاتے انہیں بھی کہنا پڑا کہ فیڈ مارشل سید عاصم منیر سے ان کی ملاقات ان کے لیے اعزاز ہے حالانکہ انہوں نے کچھ عرصہ پہلے ہی یوکرائن کے صدر سے ملاقات کی تھی اور جو رویہ خیال کیا تھا اس سے یوکرائن کے صدر کا عالمی سطح پر بے عزتی ہوئی تھی ایسا شخص تو قابل بھروسہ ہی نہیں ہے لیکن جو پذیرائی اس نے دی اس سے پاکستان کا نام دنیا بھر میں چمک دمک گیا اور اس کی اہمیت کی کرنیں بکھر گئیں اس مرد کی پہلے وضاحت کر چکا ہوں کہ پاکستان کے چیف اف ارمی سٹاف فیڈ مارشل سید عاصم منیر پہلے فوجی سربراہ ہیں جن کو کسی امریکی صدر نے ملاقات کی دعوت دی اور ان کے اعزاز میں ظہرانہ بھی دیا اس سے پہلے امریکہ کی تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ درج نہیں ہے عام طور پر امریکی صدور صرف منتخب عالمی قائدین سے اس سطح پر ملاقات کرتے ہیں۔ 2001 کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ کسی پاکستانی آرمی چیف کو اس انداز میں مدعو کیا گیا۔اس سے پہلے امریکی صدرنے جن پاکستانی فوجی سربراہوں سے ملاقاتیں کی وہ اس وقت ملک کے سربراہ بھی تھے مثلا جنرل ایوب خان جنرل محمد ضیاء الحق صاحب وغیرہ
سیاسی سطح پر: کانگریس نے اس ملاقات کو بھارتی سفارتکاری کے لیے ایک دھچکہ قرار دیا۔ جیرام رامیش نے کہا کہ یہ ایک “ٹرپل جھٹکا” ہے اور بھارتی حکومت کو اپنی خارجہ حکمتِ عملی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ حکومتی مؤقف: بھارتی حکومت اور بی جے پی نے مؤقف اپنایا کہ جنگ بندی دونوں ملکوں کی اپنی فوجی قیادت کے فیصلوں کی وجہ سے ممکن ہوئی، نہ کہ کسی امریکی دباؤ سے۔گویا بھارت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کاوشوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہنوز نہیں ہے اس کے باوجود
عوامی و میڈیا ردعمل سوشل میڈیا پر اس ملاقات کے میمز اور مباحثے چھا گئے۔
عالمی مبصرین میں معتبر اخبار فنانشل ٹائمز نے اس ملاقات کو امریکہ-پاکستان تعلقات میں نئے دور کا آغاز قرار دیا۔ روئٹرز کے مطابق یہ ملاقات امریکا کی جنوبی ایشیاء میں پالیسی کی ازسرنو تشکیل کی کوششوں کا حصہ ہے۔
اکنامسٹ نے نشاندہی کی کہ پاکستان، ایران اور افغانستان کے حوالے سے امریکی ترجیحات میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
اخر میں اس اہمیت کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیراور صدر ٹرمپ کے درمیان گفتگو میں ایران کا تذکرہ نمایاں رہا۔ ٹرمپ کے مطابق منیر ایران کو اچھی طرح جانتے ہیں اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ وہ تہران کو کچھ پیغامات پہنچا سکتے ہیں۔ اسرائیل کے حالیہ حملوں اور ایران کی جوابی کارروائیوں نے خطے کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیاہے اس ملاقات سے پاکستان کا کردار ایک پل کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے، کیونکہ وہ ایران کا ہمسایہ اور قابل اعتماد اسلامی ملک ہے، جو ایک توازن قائم کر سکتا ہے۔اس ملاقات کے جونتائج اور اثرات منظر عام پر ارہے ہیں اس کے مطابق پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ میں اضافہ: یہ ملاقات پاکستان کو عالمی سیاست میں ایک فعال کھلاڑی کے طور پر سامنے لاتی ہے۔بھارت کی تنہائی. امریکی مفادات کی بازیابی:جو امریکہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کے لیے جنوبی ایشیا میں نئی شراکتوں کی تلاش میں ہے۔
نتیجتا فیلڈ مارشل عاصم منیر اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات ایک غیر معمولی سفارتی واقعہ ہے، جو کئی محاذوں پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ یہ نہ صرف دو ممالک کے درمیان تعلقات کی نئی جہت ہے بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ بھارت، ایران، چین اور دیگر عالمی طاقتیں اس تبدیلی کو گہری نظر سے دیکھ رہی ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ ملاقات ایک نئے جیوپولیٹیکل باب کی بنیاد بن سکتی ہے۔

Author

  • صحافت میں ایک ممتاز کیریئر کے ساتھ ، میں نے یو ایس اے ٹوڈے اور وائس آف امریکہ کے نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیں ، اے ایف پی اور اے پی کے لیے رپورٹنگ کی ، اور ڈیلی خبرائن اور اردو نیوز جیسے بڑے آؤٹ لیٹس کے لیے بیورو چیف اور رہائشی ایڈیٹر سمیت سینئر کردار ادا کیے ۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔