Nigah

تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو

 

ہندوستان سے مراد صرف بھارت نہیں ہے اگر اس نام کی وجہ تسمیہ پر غور کیا جائے تو یہ فارسی زبان سے ایا ہوا لفظ ہے جیسے گلستان بستار انگلستان وغیرہ وغیرہ چنانچہ ہندوستان جس کو عرب زمانہ قدیم میں ہند کے نام سے پکارتے تھے یعنی ہندوستان لفظ ہو یا ہند ہو یہ کسی دین یا مذہب کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ جغرافیائی اور ثقافتی پس منظر کی بنیاد پر ہے اگر تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو ہزاروں سال پہلے سے ہندوستان کے لوگوں کی قربت ایران اور عرب دنیا سے بہت زیادہ تھی اور اس کی بنیادی وجہ تجارت اور فوج میں ملازمتیں وغیرہ تھیں جس کا حوالہ کئی کتابوں میں موجود ہے کافی تفصیل سے "عرب و ہند عہد رسالت میں”مؤلفہ قاضی اطہر مبارک پوری کی کتاب میں موجود ہے بھارت میں دین یا مذہب کو دھرم کہا جاتا ہے یہ دراصل سنسکرت زبان کا لفظ ہے جو اس طرح "धर्म” لکھا جاتا ہے۔اور اس کے بنیادی معنی: "جو چیز کو تھامے رکھے” یا "جو کسی کی فطری خصوصیت ہو”- مذہبی معنی: فرض، کرتب، نیک اعمال، راستبازی- قانونی معنی: ضابطہ، قانون، اصول ہے چنانچہ اس کے فلسفہ فینا معنی میں ہر طبقے کے اصول اور قواعد متعین کیے گئے ہیں چنانچہ یہ
– ہر شخص کے فرائض اور ذمہ داریاں بیان کرتا ہے
– برہمن، کشتری، ویش، شودر کے لیے مختلف احکام
– زندگی کے مختلف مراحل میں مختلف ذمہ داریاں
ہندوستانی مسلمانوں میں یہ لفظ عام طور پر "مذہب” کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جیسے "اسلام دھرم” یا "ہندو دھرم”۔ اردو میں اس کا استعمال عام ہے اور یہ فارسی-عربی الفاظ کے ساتھ مل کر مرکب الفاظ بناتا ہے۔تاریخی حقیقت یہ ہے کہ "ہندو”ایک جغرافیائی اصطلاح ہے اور کسی مذہب کا نام نہیں یہ فارسی لفظ سندھس یہ نکلا ہے جو دریائے سندھ کے پار رہنے والوں کے لیے استعمال ہوتا تھا اوستائی زبان میں” بپت ہندو”(سب دریاؤں کی سرزمین) کا ذکر ہے حقیقی صورتحال یہ ہے کہ یہ ایک جو اور اپیائی ثقافتی الزام ہے جس میں مختلف قبائل روایت اور فلسفے شامل ہیں کسی ایک گروہ بانی یا مخصوص طبقے سے شروع نہیں ہوا بلکہ مختلف ار ائی اور مقامی لوگوں کے میل جول سے ایک ثقافت وجود میں ائی- اس کے پیروکار اسےسناتن دھرم (ابدی نظام) کہتے ہیں سچائی یہ ہے کہ ہندو کا لفظ اصل میں برصغیر کے باشندوں کے لیے بیرونی لوگوں کا دیا گیا نام ہے نہ یہ کوئی مخصوص مذہب ہے نہ ذات ہے یہ ایک وسیع ثقافتی شناخت ہے جس میں مختلف مذہبی روایات فلسفے اور طریقہ کار شامل ہیں یہاں یہ بھی واضح رہے کہ مورتیوں کی یا بتوں کی پوجا کرنے والے سبھی ہندو دھرم سے کوئی تعلق نہیں رکھتے ہیں اگر یہ کوئی دین یا مذہب ہوتا تو دنیا میں جتنے بھی بت پرست لوگ ہیں وہ سب ہندو کہلاتے ہیں ان کی ہندو مذہب یا دین سے شناخت بنی جب انگریز بھارت پر قابض ہو گیا اور اس نے تفرقہ پیدا کرنے کی غرض سے اپنی چالیں چلی اور اس طرح ہندوستان کے لوگوں کو دینی اور مذہبی بنیاد اور مسلک کی بنیاد پر تقسیم کیا بہرحال جو بھی کچھ ہے یہ بات واضح ہے کہ ہندو ازم کوئی ایک دین یا کسی ایک دن کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ مختلف عقائد نظریات اور ثقافت پر مبنی گروپس کی شکل میں موجود ہے لیکن انہوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے خاطر اور دوسری ادیان کے لوگوں پر برتری حاصل کرنے کے لیے ہندو کے لفظ کو ایک دین کے طور پر استعمال کر کے اپنی اکثریت بڑھا لی ہے اگر بھارت میں دین اور نظریات کی بنیاد پر طبقات کی تقسیم ہو تو مسلمان سب سے بڑی اکثریت ہے اور ویسے بھی اس وقت بھارت میں دوسری بڑی اکثریت مسلمان ہی ہیں لیکن یہ اپنی شعبدہ بازی کی خاطر اور بھارت کے مسائل پر قابض رہنے کی خاطر یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ مسلمان بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہے لیکن اسے دوسرے نمبر پر اکثریت ماننے کو تیار نہیں ہے جبکہ تاریخی واقعات اور اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ مسلمان سب سے بڑی اکثریت ہے اور انہیں ظلمت کی گہرائی میں دھکیلا جا رہا ہے جو مردم شماری کے اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں اس میں مسلمانوں کی ابادی 14.2 فیصد دکھائی جاتی ہے جبکہ مسلمان ان اعداد و شمار سے مطمئن نہیں ہے اور انہیں غلط قرار دیتے ہیں جبکہ ازاد ذرائع کا دعوی ہے کہ مسلمانوں کی تعداد بھارت میں کم سے کم 16.15 فیصد ہے ان کا یہ رویہ صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں سکھوں کے ساتھ بھی ہے 1984 میں سکھ مخالف فسادات کے یعنی جب اندرا گاندھی کا قتل ہوا تھا اس کے بعد تین ہزار سے زائد سکھوں کو قتل کر دیا گیا تھا خالصتان کی تحریک جو پہلے سے موجود تھی وہ اور زور پکڑ گئی ہے اور اس کو جبرا دبانے کی کوشش کی جاتی ہے کسانوں کے احتجاج کو جو 2020 اور 21 میں ہوا تھا اس احتجاج کو خالصتان سپورٹر کا نام دے کر بد نام کیا گیا بھارت میں عیسائیوں کی تعداد 2.3 فیصد بتائی جاتی ہے اور انہیں جبری طور پر ہندو بنانے کے الزامات موجود ہیں مدھیہ پردیش میں عیسائیوں کو نشانہ بنایا گیا ان کے گرجا گھروں پر حملے کیے گئے 36 گڑھ میں بہت ہی زیادہ ان پر ظلم کیا گیا 36 گڑھ بھارت کا شہر ہے منی پور ریاست میں کٹی عیسائیوں کا قتل عام 2023 میں کیا گیا اس کے علاوہ جو اقلیتیں بھارت میں اباد ہیں ان میں بودھ کے افراد کی تعداد بھارتی سرکاری اداب شمار کے مطابق0.7 فیصد دکھائی جاتی ہے اور ان کو بھی سناتن دھرم کے لیے مجبور کیا جاتا ہے لداخ میں خود مختاری کی تحریک چل رہی ہے اس کو دبانے کے لیے بے دریغ اسلحہ کا استعمال کیا جاتا ہے بھارت میں فارسی اور جین مت 0.4% بتائی جاتی ہیں لیکن یہ گروہ معاشی طور پر مضبوط ہے تاہم بہت کم تعداد میں ہونے کی وجہ سے ختم ہوتے جا رہے ہیں بی جے پی کے دور میں یعنی نریندر مودی کی حکمرانی میں اقلیتوں کی اکثریت دباؤ میں رہی ہے اور یہ مختلف نوعیت کے دباؤ رہے ہیں مسلمانوں کو سیاسی طور پر بھی دباؤ میں رکھا گیا ہے سکھوں کے ساتھ نہ صرف خالصتان کے مسئلے پر بلکہ کسان تحریک کے حوالے سے بھی جبر و تشدد کا نشانہ بنایا گیا عیسائیوں کے لیے گرجا گھروں کے کنفیوژن قوانین بنائے گئے اب ہندو دھرم کا جائزہ لے لیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کہ ہر وہ طبقہ جو مورتیوں یا بت کی پوجا کرتے ہیں یا پرستش کرتے ہیں وہ ہندو نہیں ہیں
–  لنگایت  (کرناٹک): شیو پرست لیکن ویدوں کو نہیں مانتے
–  آریہ سماجی : بت پرستی کے مخالف
–  قبائلی : اپنے دیوتاؤں کو مانتے ہیں (مثلاً سرسوتی نہیں)
بھارتی آئین کے آرٹیکل 25:
– "ہندو” کی تعریف میں  جین مت، بدھ مت، سکھ شامل ہیں
– بھارتیسپریم کورٹ کے فیصلے (1995): ہندو مت کوئی مذہب نہیں بلکہ زندگی کا طریقہ
ہندو توا سیاسی استعمال کر کے اپنی اکثریت مسلمانوں کے خلاف بڑھا رہا ہے-  ہندوتوا کا نظریہ: تمام مقامی مذاہب کو "ہندو” قرار دیتا ہے ان کا موقف ہے کہ: جین مندروں کو ہندو مندر قرار دیا جائے
1. لفظ "ہندو” بنیادی طور پر   جغرافیائی شناخت تھا
2. جدید دور میں اسے  مذہبی لیبل بنا دیا گیا
3. بھارت کی  29% آبادی (قبائلی/دلت) کو زبردستی ہندو گنا جاتا ہے
4. اگر صرف  ویدک/پورانیک عقائد کو معیار بنایا جائے تو حقیقی ہندو بہت کم ہوگا اور ہے اس امر کو اس طرح سمجھ لیا جائے کہ اگر جین مت اور بدھ مت ہندو مت ہی ہیں تو پھر اس حساب سے نیپال بھوٹان چین جاپان اور دیگر مشرق کی جانب ایشیائی ممالک یہ سب ہندو ہیں جیسے پاکستان میں کوئی حلقہ پھلکا واقعہ ہو جائے تو انسانی حقوق کی نام نہاد عالمی تنظیمیں سینہ کو بھی شروع کر دیتی ہیں اور نوحہ گری کی گونج پیدا کر دیتی ہے لیکن ان کو بھارت میں اقلیت وں کے ساتھ جو ظلم و جبر ہو رہا ہے وہ نظر نہیں اتا لیکن محسوس یہ ہو رہا ہے کہ بھارت میں اب اقلیت مل جل کر اپنے حقوق کی جدوجہد کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں اور اس میں انہیں دنیا کی حمایت حاصل کرنے کی امید بھی ہے دیکھیں کیا بنتا ہے

Author

  • صحافت میں ایک ممتاز کیریئر کے ساتھ ، میں نے یو ایس اے ٹوڈے اور وائس آف امریکہ کے نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیں ، اے ایف پی اور اے پی کے لیے رپورٹنگ کی ، اور ڈیلی خبرائن اور اردو نیوز جیسے بڑے آؤٹ لیٹس کے لیے بیورو چیف اور رہائشی ایڈیٹر سمیت سینئر کردار ادا کیے ۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔