جب کوئی قوم اپنے نظریات، اصولوں اور قربانیوں کو لے کر بین الاقوامی اسٹیج پر پُراعتماد انداز میں کھڑی ہوتی ہے، تو صرف الفاظ نہیں بلکہ کردار بولتے ہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا حالیہ دورۂ امریکا اسی جرات، وقار اور اسٹریٹیجک بلندی کا غماز ہے جس نے پاکستان کو ایک بار پھر خطے کا ذمہ دار اور باشعور فریق بنا کر پیش کیا ہے، جب کہ دوسری طرف بھارتی قیادت، جو اکثر فوٹو سیشنز اور پرجوش نعروں میں مصروف رہتی ہے، عالمی سطح پر غیر سنجیدہ اور حد سے زیادہ خود ستائشی رویے کا شکار ہو چکی ہے۔
واشنگٹن میں امریکی تھنک ٹینکس، اسٹریٹیجک ماہرین اور پالیسی سازوں سے فیلڈ مارشل کی گفتگو صرف سفارتی رسمی کاروائی نہ تھی بلکہ ایک واضح پیغام تھا کہ پاکستان نہ صرف خطے میں امن و استحکام کا خواہاں ہے بلکہ سکیورٹی تعاون کے فریم ورک کا عملی داعی بھی ہے۔ فیلڈ مارشل نے پاکستان کے اسٹریٹیجک وژن، انسداد دہشتگردی میں خدمات، اور ہائبرڈ وار فیئر کے چیلنجز پر مدلل گفتگو کی، جسے بین الاقوامی حلقوں نے سنجیدگی سے سنا اور سراہا۔ امریکی سٹیبلشمنٹ اب بھارت کو توازن بگاڑنے والا عنصر سمجھنے لگی ہے۔
پاکستان نے دنیا کو یہ باور کرایا کہ خطے میں کشیدگی کی بڑی وجہ غیر ریاستی عناصر سے زیادہ بھارت کی ریاستی سرپرستی میں پروان چڑھنے والی دہشتگردی ہے۔ بھارت کا رویہ اور اس کا ماضی اس حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی دو گھنٹے پر محیط ملاقات محض رسمی مصافحہ نہ تھی بلکہ اس میں ایک بڑا سٹریٹیجک موڑ چھپا تھا۔ صدر ٹرمپ نے خود اس ملاقات کی توجیہہ دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ:
"ہم نے فیلڈ مارشل کو جنگ کے خطرات کم کرنے پر شکریہ ادا کرنے کے لیے بلایا۔ وہ ایک مؤثر اور غیرمعمولی شخصیت ہیں جنہوں نے ممکنہ تباہی کو ٹالا۔”
یہ الفاظ وہی صدر ادا کر رہے ہیں جو اپنی غیرمتوقع خارجہ پالیسی کے لیے مشہور ہیں، مگر جب بات پاکستان کی عسکری قیادت کی آتی ہے تو وہ بھی اعترافِ عظمت پر مجبور ہو جاتے ہیں۔جو پاکستان کی عسکری قیادت پر عالمی اعتماد کا مظہر ہے۔
یہ ساری سفارتی گہماگہمی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب بھارت عالمی سطح پر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کے لیے بےتحاشا کوششیں کر رہا ہے۔ مودی حکومت، جس نے اسرائیلی ٹیکنالوجی، اڈانی بزنس اور ہندوتوا کے ملاپ سے “نیا بھارت” بنانے کی کوشش کی، اب اپنی انتہا پسندی، اقلیت دشمن پالیسیوں اور داخلی جبر کے باعث عالمی منظرنامے میں نمائش زدہ سفارت کاری شدید تنقید کا سامنا کر رہی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پاکستان کا آرمی چیف واشنگٹن میں پالیسی سازوں سے قومی سلامتی، عالمی تعاون اور امن کی بات کرتا ہے تو بھارت کا نمائندہ طبقہ نیویارک میں کشمیر کو “اندرونی مسئلہ” قرار دینے پر زور کیوں دیتا ہے؟
فیلڈ مارشل نے نہایت اعتماد کے ساتھ پاکستان کی کامیاب عسکری حکمت عملی کا حوالہ دیتے ہوئے “معرکہ حق” اور “آپریشن بنیان مرصوص” پر بات کی۔ یہ صرف بھارتی جارحیت کے خلاف عسکری کاروائیاں نہیں تھیں بلکہ ہائبرڈ وارفیئر کے خلاف بیانیہ کی جنگ میں بھی اہم سنگِ میل ہے۔
پاکستان نے یہ پیغام دیا کہ وہ صرف توپ و تفنگ کے زور پر نہیں بلکہ بیانیاتی برتری اور پُرامن رویوں سے بھی جنگیں جیتنے کا ہنر جانتا ہے۔
دورۂ امریکا کے دوران فیلڈ مارشل نے پاکستان کی معاشی صلاحیتوں کو بھی اجاگر کیا، خصوصاً آئی ٹی، زراعت، اور معدنیات کے شعبوں میں بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو شراکت داری کی دعوت دی۔ یہ رویہ بھارت کے اس روایتی جارحانہ طرز عمل سے مختلف تھا جو اکثر دفاعی محاذ پر خودکو “بڑا بھائی”اور اقتصادی میدان میں سپر میسی کا دعویدار سمجھتا ہے۔ جب پاکستان تعاون کا ہاتھ بڑھا رہا ہے، تو بھارت اپنے ہمسایوں کے ساتھ سرحدی تنازعات، معاشی دباؤ، اور مذہبی بنیادوں پر پالیسی سازی کو فروغ دے رہا ہے۔ یہی رویہ ہے جو بھارت کو خطے میں “خودساختہ تنہائی” کی طرف لے جا رہا ہے۔
فیلڈ مارشل کا بیان کہ “پاکستان علاقائی کشیدگی میں کمی اور سکیورٹی تعاون کے فروغ میں فعال کردار ادا کرتا رہے گا”، دراصل پاکستان کے خارجہ و دفاعی پالیسی کا نچوڑ ہے۔ یہی پالیسی ہے جس نے افغانستان، ایران اور خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو بہتر بنیاد پر استوار کیا ہے۔ اس کے برعکس، بھارت کا رویہ چین، نیپال، بنگلہ دیش اور یہاں تک کہ سری لنکا جیسے ہمسایوں کےساتھ بھی کشیدگی پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
واشنگٹن سے لندن اور برلن تک کئی بین الاقوامی میڈیا ہاؤسز نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی گفتگو اور وژن کو خصوصی اہمیت دی۔ انٹرویوز، تجزیے، اور رپورٹس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان اب صرف ایک عسکری طاقت نہیں بلکہ ایک پالیسی ساز ریاست کے طور پر ابھر رہا ہے۔ جو پاکستان کے بیانیہ کی جیت ہے۔یہ بیانیہ اس وقت اور زیادہ وزنی محسوس ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو جی 7 میں مدعو تو کیا گیا مگر اہم فیصلوں سے دور رکھا گیا۔ مودی کی فریب پر مبنی تصویرسازی کی جگہ فیلڈ مارشل کی حقیقت پر مبنی ترجمانی نے لے لی ہے۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر کے دورۂ امریکا نے صرف ایک عسکری سربراہ کی ملاقاتوں کا باب نہیں کھولا بلکہ نئے عالمی اعتماد، علاقائی حکمت عملی، اور سیاسی برتری کا آغاز بھی کیا ہے۔ بھارت، جو ابھی تک اپنے میڈیا ہاؤسز کے ذریعے “عالمی ہمدردی” خریدنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہے، اسے اب اس حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا کہ نعرے نہیں، نتائج بولتے ہیں۔ پاکستان نے امن کی راہ پر چلتے ہوئے اپنی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ یہی رویہ ہے جو نہ صرف پاکستان کو عالمی برادری میں باوقار مقام دے رہا ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں بھی ایک متوازن اور پرامن مستقبل کی بنیاد رکھ رہا ہے۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا حالیہ سرکاری دورۂ امریکہ نہ صرف سفارتی کامیابی کا حامل رہا بلکہ اس نے پاکستان کے خطے میں تعمیری، ذمہ دارانہ اور پُرامن کردار کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں اہم سنگ میل عبور کیا۔
یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب بھارت کو بین الاقوامی سطح پر بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے، اور پاکستان عالمی بیانیے میں مثبت پیشرفت کر رہا ہے۔
امریکی ادارے CSIS اور Brookings نے پاکستان کے اسٹریٹیجک مؤقف کو حقیقت پسندانہ اور معتدل قرار دیا۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر کا امریکی دورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اب صرف عسکری طاقت نہیں بلکہ سفارتی و سیاسی میدان میں بھی ایک باعزت اور ذمہ دار ریاست کے طور پر ابھر رہا ہے۔ یہ وہ پاکستان ہے جو جنگ کی نہیں، امن کی زبان بولتا ہے، جو جارحیت نہیں، شراکت پر یقین رکھتا ہے۔
Author
-
ایک تجربہ کار صحافی ہیں جن کا 30 سال کا تحریری تجربہ ہے ۔انہوں نے ڈیلی مشرق ، ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی آج سمیت معروف اخبارات میں تعاون کیا ہے ۔:
View all posts