Nigah

وفاقی بجٹ اور اس کے اثرات

Federal budget

 

وفاقی حکومت نے سال 2025-260 کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا ہے جو یقینی طور ملک کی موجودگی معاشی صورتحال کی پیش نظر ایک
"سخت گیر” بجٹ ہے جس کے پاکستان کے عوام پر مہنگائی کے بم برسائے گئے ہیں اگرچہ حکومت نے اسے معاشی بحالی کا منصوبہ قرار دیا ہے تاہم زمینی حقائق، اعداد و شمار اور پالیسی فیصلے مختلف تصویر پیش کر رہے ہیں۔اس بجٹ کے وہ نکات جن سے عوام براہِ راست متاثر ہو رہے ہیں ان میں سرفہرست ٹیکسوں میں اضافہ ہے جس کے نتیجے میں خاص طور پر تنخواہ دار طبقے پر بوجھ بڑھ جائے گا۔ جب خوردنی اشیا، بجلی، گیس، اور پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس میں اضافہ ہوگا تو اس کے اثرات مہنگائی کی صورت میں براہ راست عوام پر مرتب ہوں گے

اسی طرح بینکوں سے نقد رقم نکالنے پر ودہولڈنگ ٹیکس کی بحالی بھی متوسط اور نچلے طبقے کے لیے مالی مشکلات کا باعث بنے گی۔

بجٹ میں بجلی، گیس اور گندم پر دی جانے والی سبسڈی میں کمی یا اس کا مکمل خاتمہ، احساس پروگرام اور دیگر فلاحی اسکیموں کے بجٹ میں کمی جیسے فیصلے عوامی فلاح کی نفی کرتے ہیں

مزید حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت نے سولر پینلز پر بھی ٹیکس عائد کر دیا ہے جو نہ صرف عوامی مفاد کے خلاف ہے بلکہ زرعی شعبے پر براہ راست حملہ ہے۔

بلوچستان اس پالیسی سے سب سے زیادہ متاثر ہوگا کیونکہ یہاں کے زمیندار پہلے ہی بجلی کی سبسڈی کے خاتمے کے بعد سولر توانائی کی طرف راغب ہو رہے تھے۔

اب جب سولر پینلز پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے تو زرعی معیشت مزید دبا کا شکار ہو جائے گی ان زرعی کنکشنز کے مالکان کو جو رعایتی ادائیگیاں کرنی تھیں اب وہ ایک بار پھر مالی مشکلات میں مبتلا ہوں گے۔
کسانوں کے لیے نہ کوئی سپورٹ پرائس متعین کی گئی ہے اور نہ ہی کھاد اور بیج کے لیے کوئی جامع پالیسی سامنے لائی گئی ہے جو کہ بلوچستان جیسے زرعی طور پر پسماندہ صوبے کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہو گی۔

بجٹ میں پانی کی کمی، موسمیاتی تبدیلی اور فصلوں کی تباہی جیسے سنگین مسائل کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے جس سے نہ صرف پیداوار میں کمی آئے گی بلکہ غذائی قلت اور کسانوں کی بدحالی بھی بڑھے گی۔
تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے مختص رقم بھی انتہائی کم ہے جی ڈی پی کے تناسب سے ان شعبوں کے لیے جو بجٹ رکھا گیا ہے وہ عالمی معیار سے نہ صرف کم ہے بلکہ عوامی ضرورتوں سے بھی بہت پیچھے ہے۔
دیہی علاقوں بالخصوص بلوچستان، فاٹا، اور جنوبی پنجاب کو ایک بار پھر نظرانداز کیا گیا ہے جو انسانی ترقی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ترقیاتی بجٹ میں بھی شدید تضاد پایا جاتا ہے۔

میگا پراجیکٹس کے نام پر مخصوص علاقوں کو نوازا گیا ہے جبکہ پسماندہ خطے جیسے بلوچستان، فاٹا، دیہی سندھ اور جنوبی پنجاب کو ایک بار پھر آئینی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے اس عمل سے علاقائی محرومی میں اضافہ ہوگا جو قومی وحدت کے لیے ایک خطرناک علامت ہے۔

اس سلسلے میں قابلِ عمل تجاویز یہ کہ ٹیکس اصلاحات کی جائیں بالواسطہ ٹیکسوں کی جگہ براہِ راست ٹیکس کو فروغ دیا جائے، اور اشرافیہ، جاگیردار طبقہ اور بڑی کمپنیوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے

۔زرعی شعبے کو ترجیح دیتے ہوئے کسانوں کو بیج، کھاد، پانی اور قرضوں میں سہولیات دی جائیں بلوچستان کے زرعی طبقے کو سولر پینل پر عائد ٹیکس کے برابر حکومت بیس لاکھ روپے کی سبسڈی میں اضافہ کرے تاکہ متبادل توانائی کا حصول ممکن ہو۔

زرعی درآمدات پر پالیسی بنائی جائے پڑوسی ممالک سے زرعی اجناس کی درآمد پر ایسی پالیسی بنائی جائے کہ مقامی کسان متاثر نہ ہو اور فصلوں کی سپورٹ پرائس کا شفاف نظام بحال کیا جائے

تعلیم و صحت کا بجٹ بڑھایا جائے ان شعبوں کے لیے کم از کم 4-5 فیصد جی ڈی پی مختص کی جائے خاص طور پر دیہی علاقوں، بلوچستان، فاٹا اور جنوبی پنجاب میں بنیادی سہولیات کو ترجیح دی جائے

سبسڈی کا شفاف نظام بنیا جائے جس سبسڈی حقداروں کو دی جائے نہ کہ ان کو جس کے وہ کسی صورت حق دار نہیں یعنی سبسڈی صرف مستحقین تک محدود رکھنے کے لیے ٹارگٹڈ نظام متعارف کرایا جائے اور بجلی و گیس کی سبسڈی میں مکمل شفافیت ہو

اسی طرح ترقیاتی فنڈز کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بایا جائے بلوچستان کو اس کے رقبے اور محرومی کی بنیاد پر مواصلاتی و ترقیاتی منصوبوں میں مناسب حصہ دیا جائے، اور چھوٹے صوبوں کے لیے علیحدہ ترقیاتی پیکیجز مختص کیے جائیں۔
سب سے اہم مشورہ یہ کہ بلدیاتی اداروں کو فعال کیا جائے اور ترقیاتی فنڈز ان کے ذریعے منتقل کیے جائیں تاکہ نچلی سطح پر قانون سازی اور ترقیاتی کام ممکن ہوں۔

وفاقی بجٹ میں کیے گئے کئی فیصلے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے بجائے، مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں مزید اضافہ کریں گے۔ خوشحال معاشروں میں بجٹ کا مقصد امیر و غریب کے درمیان فرق کم کرنا زرعی و تعلیمی شعبے کو مضبوط کرنا اور عوام کو براہِ راست ریلیف دینا ہوتا ہے۔
پاکستان کو بھی اسی سوچ کے تحت بجٹ سازی کی طرف جانا ہوگا تاکہ ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہے اور عوام کو ترقی وخوشحالی کے ثمرات ملیں۔۔

Author

  • صحافت میں ایک ممتاز کیریئر کے ساتھ ، میں نے یو ایس اے ٹوڈے اور وائس آف امریکہ کے نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیں ، اے ایف پی اور اے پی کے لیے رپورٹنگ کی ، اور ڈیلی خبرائن اور اردو نیوز جیسے بڑے آؤٹ لیٹس کے لیے بیورو چیف اور رہائشی ایڈیٹر سمیت سینئر کردار ادا کیے ۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔