Nigah

ٹرمپ کے دور میں امریکہ میں سفری پابندیاں عائد

قومی سلامتی کو تقویت دینے اور امریکی مفادات کے تحفظ کے مقصد سے ایک فیصلہ کن اقدام کے تحت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سفری پابندیاں نافذ کیں، جن کے تحت متعدد ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر مکمل یا جزوی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ان اقدامات کو امریکی عوام کو بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری قرار دیا، تاہم ان فیصلوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر وسیع بحث کو جنم دیا۔

یہ اقدام امیگریشن پر قابو پانے، سرحدوں کو مزید سخت کرنے اور ان ممالک سے آنے والے شہریوں سے ممکنہ حفاظتی خطرات کو روکنے کی حکمت عملی کا حصہ تھا، جن کے پاس ناقص یا غیر مؤثر جانچ کے نظام موجود تھے۔

بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق، صدر ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے، جس کے تحت بارہ ممالک یعنی افغانستان، برما (میانمار)، چاڈ، جمہوریہ کانگو، استوائی گنی، اریٹیریا، ہیٹی، ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن کے شہریوں پر مکمل سفری پابندیاں عائد کی گئیں۔ مزید برآں، سات دیگر ممالک کو جزوی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا، جن کی نوعیت مختلف حالات کے مطابق تھی۔ ان پابندیوں نے نہ صرف سیاحوں اور تارکینِ وطن کو متاثر کیا بلکہ ان افراد کو بھی، جو کاروبار یا تعلیم کے مواقع کے لیے امریکہ آنا چاہتے تھے۔

سفری پابندیوں کے جواز میں امریکہ کا موقف ہے کہ ان ممالک کے شہری قومی سلامتی کے لیے ممکنہ خطرہ ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی متاثرہ ممالک میں حکومتیں غیر مستحکم ہیں جبکہ ان کے دستاویزات کے نظام ناکافی ہیں، یا وہ امریکی سیکیورٹی معیارات پر پورا نہیں اترتے۔ نتیجتاً ان کے شہری دہشت گرد عناصر یا مجرمانہ تنظیموں کے لیے آسان ہدف ہیں۔

صدر ٹرمپ نے قوم سے ویڈیو خطاب میں کولوراڈو میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملے کا حوالہ دیتے ہوئے ان پابندیوں کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ اُن کے مطابق یہ حملہ اس بات کی سنگین یاد دہانی ہے کہ غیر ملکیوں کی مؤثر جانچ نہ ہونے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ امیگریشن کے نظام میں موجود خامیاں ظاہر کرتا ہے جنہیں دور کرنے کے لیے فوری اور جامع اقدامات ناگزیر ہیں۔

صدر ٹرمپ نے واضح کیا کہ یہ اقدامات امتیازی نہیں بلکہ قومی سلامتی پر مبنی ہیں۔ ٹرمپ کہتے ہیں۔
"یہ قومیت یا مذہب کی بنیاد پر امتیاز نہیں بلکہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ ہم اُن ممالک کے شہریوں کو، جن کے پاس مؤثر جانچ کے نظام نہیں، آزادانہ داخلے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہمارا اولین فرض امریکی عوام کا تحفظ ہے اور یہ اقدامات اسی مقصد کے لیے ہیں۔”

ایگزیکٹو آرڈر کے سب سے متنازعہ پہلوؤں میں سے ایک اسٹوڈنٹ ویزوں پر پابندی تھی، خاص طور پر اُن غیر ملکی طلبہ کے لیے جو ہارورڈ جیسے باوقار اداروں میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ یہ پابندی امریکی امیگریشن پالیسی سے نمایاں انحراف تھی کیونکہ امریکہ تاریخی طور پر بین الاقوامی طلبہ کا خیرمقدم کرتا آیا ہے۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ کا استدلال تھا کہ تعلیمی ویزوں کا غلط استعمال بھی ہو سکتا ہے، لہٰذا ان پر سخت نگرانی یا ان کی معطلی ضروری ہے۔

اس فیصلے کے اثرات فوری طور پر دنیا بھر کی تعلیمی برادری میں محسوس کیے گئے۔ بہت سے طلبہ جو پہلے ہی امریکی جامعات میں داخلہ حاصل کر چکے تھے، پابندی کے باعث تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہو گئے، جس سے ان کے تعلیمی منصوبے اور ذاتی زندگی بری طرح متاثر ہوئی۔ ہارورڈ سمیت کئی جامعات نے اس پالیسی پر تنقید کی اور بین الاقوامی اندراج، اعلیٰ تعلیم کی شمولیت اور امریکہ کی کھلی پالیسیوں پر اس کے ممکنہ منفی اثرات پر تشویش ظاہر کی۔

سفری پابندیوں کے ناقدین کا مؤقف تھا کہ یہ پالیسی حد سے زیادہ سخت تھی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، امیگریشن وکلاء اور کانگریس کے کئی ارکان نے اسے مسلم اکثریتی ممالک کے خلاف امتیازی قدم قرار دیا۔ ان کے مطابق اس پالیسی میں انفرادی بنیاد پر جانچ کے بجائے لوگوں کو ان کی قومیت یا مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا۔

اس کے علاوہ، قانونی ماہرین نے ایگزیکٹو آرڈر کی آئینی حیثیت پر بھی سوالات اٹھائے۔ کئی عدالتوں میں اس اقدام کو چیلنج کیا گیا، جس میں قانونی تحفظات، مساوی حقوق اور مناسب عمل کی خلاف ورزی جیسے نکات شامل تھے۔ اگرچہ ٹرمپ کی سفری پابندی کی ابتدائی دفعات بعض اوقات عدالتوں کی طرف سے معطل یا تبدیل کر دی گئیں، مگر انتظامیہ نے انہیں دوبارہ ترتیب دے کر جاری رکھا۔ بالآخر، امریکی سپریم کورٹ نے 5-4 کے فیصلے میں ان پابندیوں کا ایک حصہ برقرار رکھا، جس سے انتظامیہ کو امیگریشن پالیسی پر وسیع اختیارات حاصل ہو گئے۔

دوسری طرف، سفری پابندیوں کے حامیوں نے قومی سلامتی کو ترجیح دینے پر ٹرمپ انتظامیہ کو سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی دہشت گردی اور مجرمانہ سرگرمیوں کے بڑھتے خطرات کے پیش نظر حکومت کا محتاط رویہ اختیار کرنا دانشمندی ہے۔ ان کے مطابق ایسے ممالک سے افراد کے داخلے پر پابندی، جہاں چیکنگ کا مؤثر نظام موجود نہیں، سکیورٹی خطرات کو کم کر سکتی ہے۔

یہ پابندیاں ٹرمپ کے "امریکہ فرسٹ” نظریے کا بھی مظہر تھیں، جو خود انحصاری، معاشی قوم پرستی اور امیگریشن پر سخت کنٹرول پر زور دیتا تھا۔ میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر سے لے کر پناہ گزینوں کے داخلے کی سختیوں تک، ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کا مقصد امریکہ میں غیر ملکیوں کا بہاؤ محدود کرنا تھا۔

تاریخی تناظر میں، یہ سفری پابندیاں ٹرمپ دور کے سب سے متنازعہ اور نمایاں اقدامات میں سے ایک تھیں۔ ان پالیسیوں نے شہری آزادی، قومی سلامتی، امریکہ کے عالمی کردار اور انتظامی اختیارات جیسے اہم موضوعات پر بحث کو جنم دیا۔ بعض افراد نے انہیں ایک ضروری حفاظتی اقدام قرار دیا، جبکہ بعض انہیں امریکی اقدار، تنوع اور رواداری کے منافی تصور کرتے ہیں۔

ٹرمپ کے کئی اقدامات کی طرح ان پابندیوں کا مستقبل بھی سیاسی حالات اور نئی انتظامیہ کی پالیسیوں پر منحصر رہا۔ صدر جو بائیڈن، جنہوں نے 2021 میں منصب سنبھالا، نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا کہ وہ ان پابندیوں کو ختم کریں گے۔ انہوں نے اپنی صدارت کے پہلے ہی دن ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ان پابندیوں کو منسوخ کر دیا اور اسے امریکہ کی روادار اور خوش آمدیدی شناخت کی بحالی کی طرف ایک قدم قرار دیا۔

تاہم، سفری پابندیوں کی میراث اب بھی باقی ہے اور یہ امیگریشن، سلامتی اور قومی شناخت سے متعلق مباحثوں کو متاثر کرتی رہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک قوم اپنی اقدار سے سمجھوتہ کیے بغیر خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتی ہے؟ ٹرمپ دور کی سفری پابندیاں، چاہے انہیں سیکیورٹی کا دفاعی اقدام مانا جائے یا حد سے بڑھا ہوا اقدام، امریکی امیگریشن پالیسی کی تاریخ میں ایک مستقل باب کے طور پر جانی جاتی رہیں گی۔

Author

  • انیس الرحمٰن ایک مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اردو میں وہ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، اکثر ان موضوعات پر بصیرت انگیز تجزیے لکھتے ہیں۔ ای میل:

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔