Nigah

پانی کی قلت: ایک عالمی خطرہ

water crisis

 

پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے، جس کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں۔ یہ قدرت کی ایک عظیم نعمت ہے جو نہ صرف انسانی زندگی بلکہ تمام جانداروں اور پودوں کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ لیکن آج دنیا ایک سنگین بحران کی طرف بڑھ رہی ہے جو پانی کی قلت کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ پانی کی کمی اب صرف کسی ایک خطے یا ملک کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک عالمی خطرہ بن چکا ہے جو آنے والے وقتوں میں انسانیت کے لیے بہت بڑے چیلنجز کھڑے کر سکتا ہے۔

پانی کی قلت کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔ دنیا کی آبادی بڑھتی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پانی کی طلب بھی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ شہروں کی طرف ہجرت، صنعتی ترقی، زرعی پیداوار میں اضافہ اور روزمرہ کی زندگی میں پانی کے بے دریغ استعمال نے پانی کے ذخائر پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔

اس کے علاوہ جنگلات کی کٹائی، آلودگی، گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیاں بھی پانی کی قلت کی بڑی وجوہات ہیں۔ گلیشیئرز کا پگھلنا، بارشوں کے نظام میں تبدیلی، خشک سالی اور زیر زمین پانی کی سطح میں مسلسل کمی اس بحران کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔

زیر زمین پانی کی سطح میں کمی

زیر زمین پانی زمین کے اندر موجود وہ پانی ہوتا ہے جسے انسان کنووں، نلکوں اور ٹیوب ویلز کے ذریعے نکالتا ہے۔ زرعی شعبے میں اس پانی کا سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ تاہم، ضرورت سے زیادہ پانی نکالنے کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جا چکی ہے۔ کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں زیر زمین پانی مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے وہاں پینے اور زراعت کے لیے پانی دستیاب نہیں۔

قارئین محترم ا

پانی کی قلت کی ایک اور بڑی وجہ آبی ذرائع کی آلودگی ہے۔ صنعتی فضلات، کیمیکل، گندے پانی اور پلاسٹک کا پانی میں شامل ہونا نہ صرف پانی کو آلودہ کرتا ہے بلکہ اسے انسانی استعمال کے قابل بھی نہیں رہنے دیتا۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں گندا پانی بغیر صفائی کے نہروں، دریاؤں اور سمندروں میں چھوڑا جاتا ہے، جو پانی کی دستیابی کو شدید متاثر کرتا ہے۔

اس کے علاوہ، گھریلو سطح پر پانی کا غیر ضروری اور فضول استعمال، لیکج، پرانے نظام آب رسانی اور پانی کے ضیاع نے اس مسئلے کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں پانی کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، لیکن ان کی رفتار اور اثر ناکافی ہے۔

اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا کی ایک بڑی آبادی پانی کی قلت کا شکار ہے۔ افریقی ممالک، مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکہ کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں لوگ میلوں دور سے پانی بھر کر لاتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان جیسے ممالک میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے جا رہی ہے جبکہ بڑے شہروں میں پانی کے بحران کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔

2030 تک دنیا بھر میں پانی کی طلب 40 فیصد زیادہ ہو جائے گی، جبکہ دستیاب پانی میں اتنا اضافہ ممکن نہیں لگتا۔ اس صورتحال میں اگر مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو پانی کی وجہ سے دنیا میں نہ صرف انسانی مسائل پیدا ہوں گے بلکہ ریاستوں کے درمیان کشیدگی اور تنازعات بھی جنم لے سکتے ہیں۔

پاکستان میں پانی کی صورتحال

پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کی قلت تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستان کے پاس فی کس پانی کی دستیابی 5000 مکعب میٹر سالانہ تھی، لیکن اب یہ کم ہو کر 1000 مکعب میٹر سے بھی نیچے جا چکی ہے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو پاکستان 2025 تک پانی کی شدید قلت کا شکار ہو جائے گا۔

پاکستان میں پانی کا زیادہ تر استعمال زرعی شعبے میں ہوتا ہے، لیکن روایتی اور غیر موثر آبپاشی کے طریقے اس قیمتی وسائل کو ضائع کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیمز اور آبی ذخائر کی کمی، بارشوں کے پانی کا ضیاع اور پالیسیوں کا فقدان بھی اس بحران کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔

قارئین محترم ا

پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے اجتماعی اور انفرادی سطح پر فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے پانی کے تحفظ کی آگاہی مہمات کو فروغ دینا ہو گا تاکہ لوگ پانی کو ضائع کرنے سے باز رہیں۔ جدید زرعی تکنیکوں کو اپنانا، جیسے ڈرپ ایریگیشن اور اسپرنکلر سسٹم سے پانی کے استعمال کو مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔

مزید برآں، بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے "ریچارج ویلز” اور "واٹر ہارویسٹنگ” جیسے منصوبوں پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔ صنعتی فضلہ کو صاف کرنے کے لیے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کا قیام، آبی قوانین پر سختی سے عمل درآمد اور غیر قانونی پانی نکالنے پر پابندیاں بھی اس بحران کو کم کر سکتی ہیں۔

حکومتوں کو چاہیے کہ وہ پانی کے ذخائر بنانے، نئے ڈیمز کی تعمیر اور موجودہ نظام آب رسانی کو جدید بنانے پر توجہ دیں۔ عوامی شعور بیدار کیے بغیر اس مسئلے کا حل ممکن نہیں، اس لیے تعلیمی اداروں اور میڈیا کو بھی اس مہم میں شامل ہونا چاہیے۔

حرف آخر یہ کہ پانی کی قلت ایک ایسا مسئلہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ انسانیت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے جس کے اثرات آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنے پڑیں گے۔ اگر ہم نے ابھی سے اس مسئلے کا ادراک نہ کیا اور سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب پانی سونے سے بھی مہنگا ہو جائے گا اور جنگیں تیل کی نہیں، بلکہ پانی کی ہوں گی۔ لہٰذا وقت کی ضرورت ہے کہ ہم سب مل کر پانی کے تحفظ کے لیے کردار ادا کریں اور اس قیمتی نعمت کو بچانے کی بھرپور کوشش کریں۔

Author

  • انیس الرحمٰن ایک مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اردو میں وہ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، اکثر ان موضوعات پر بصیرت انگیز تجزیے لکھتے ہیں۔ ای میل:

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔