اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر نیویارک میں پاکستان کے اعلی سطحی سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے دی گئی
یہ تجویز کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور بھارت کی خفیہ ایجنسی را دہشتگردی کے خلاف مل کر کام کریں، ایک غیرمعمولی اور حیران کن بیان ہے۔ اس بیان نے نہ صرف ماضی کی حساس یادیں تازہ کر دیں بلکہ ملکی و قومی مفاد اور سفارتی پالیسیوں سے متعلق کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
یاد رہے کہ ماضی میں پاکستان کے ایک سابق حساس ادارے کے سربراہ نے بھارت کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے ساتھ مل کر ایک کتاب تحریر کی تھی، جس کے بعد ملک بھر میں شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔
قومی سلامتی اور اداروں کی خودمختاری پر اس وقت جو بحث چھڑی، اس کے اثرات آج بھی ذہنوں میں تازہ ہیں۔
اس پس منظر میں بلاول بھٹو کی جانب سے آئی ایس آئی اور را کے اشتراک کی تجویز حیران کن اور ناقابل فہم قرار دی جا سکتی ہے۔بلاول بھٹو کا مینڈیٹ اور اختیارات اس لسلے مںی سوالیہ نشان بن چکا ہے
اس تناظر میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا بلاول بھٹو زرداری کو واقعی ایسا مینڈیٹ حاصل ہے کہ وہ ملکی حساس اداروں کے لیے اس نوعیت کی تجاویز دے سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
کیا انہیں یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایسے تعاون کی پیشکش کر سکیں جو براہ راست قومی سلامتی، خودمختاری اور بین الاقوامی پالیسیوں پر اثر انداز ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اگر نہیں، تو پھر یہ بیان نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ اس سے دشمن ملک کو ایک سفارتی تقویت بھی ملتی ہے۔
یہ سب کچھ ایسے وقت ہو رہا ہے کہ جب بھارت مسلسل پاکستان پر جارحیت کرتا رہا ہے، چاہے وہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی ہو، سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی ہو یا کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی۔
ایسے موقع پر پاکستان کی طرف سے مفاہمانہ بیانات اور تجاویز دینا دشمن کو نئی عالمی زندگی عطا کرنے کے مترادف ہے۔
یہ وقت سفارتی سطح پر بھارت پر دبا بڑھانے کا تھا، نہ کہ اسے مشترکہ تعاون کی دعوت دینے کا۔
بین الاقوامی قوانین کے تحت مختلف ممالک کے حساس ادارے بعض مخصوص عالمی خطرات، جیسے منی لانڈرنگ، انسانی اسمگلنگ یا دہشت گردی کے خلاف معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں، لیکن یہ تبادلہ بھی مخصوص دائرے، شفاف طریقہ کار اور باہمی اعتماد پر مبنی ہوتا ہے۔
پاکستان اور بھارت جیسے دو دشمن ممالک، جو کشمیر، پانی اور سرحدی تنازعات میں الجھے ہوئے ہوں، ان کے حساس اداروں کا باقاعدہ تعاون ایک خطرناک مثال ہو سکتی ہے۔ یہ اقدام قومی خودمختاری، داخلی سلامتی اور پالیسی معاملات میں بے یقینی پیدا کر سکتا ہے
ایسے میں قومی سلامتی سے متعلق بیانات کا اختیار صرف ریاستی اداروں اور وزیراعظم کو ہونا چاہیے، کسی بھی سفارتی شخصیت کو نہیں، جب تک کہ مکمل ریاستی منظوری حاصل نہ ہو۔
پارلیمانی سطح پر ایک ضابطہ اخلاق طے کیا جائے، تاکہ حساس اداروں سے متعلق کوئی بھی بیان یا تجویز واضح اجازت کے بغیر نہ دی جا سکے ،
وزارت خارجہ کو ایک جامع پالیسی وضاحت جاری کرنی چاہیے، کہ آیا بلاول بھٹو کا بیان ذاتی رائے تھی یا ریاستی موقف۔
قومی مفاد اور سفارتی حکمت عملی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے بیانات سے گریز کیا جائے،جو دشمن کو فائدہ پہنچا سکتے ہوں۔بلاول بھٹو زرداری کی تجویز ایک غیر معمولی اور ناقابل فہم پالیسی اشارہ ہے، جو نہ صرف ماضی کی غلطیوں کو دہرا رہا ہے بلکہ دشمن کو نئی سفارتی قوت فراہم کر سکتا ہے۔ موجودہ وقت میں پاکستان کو بین الاقوامی فورمز پر بھارت کی جارحیت اور معاہدوں کی خلاف ورزی کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ اسے اپنی صفوں میں شامل کرنے کی پیشکش دینے کی۔ قومی سلامتی، خودمختاری اور سفارتی حکمت عملی ایک ایسی لکیر ہے جسے ہر حال میں واضح اور مضبوط رکھا جانا چاہیے۔
Author
-
سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025بیورو چیف، پی این این، پشاور
جنوری 2023 تا جنوری 2024بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
16 فروری 2005 تا 21 جون 2008رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
فروری 2000 تا 30 نومبر 2003