اسرائیل امریکہ بہادر کی پشت پناہی سے ایران پر جنگ مسلط کرچکا۔ امریکی جو اسرائیلی حملوں سے ایک دن قبل کہہ رہے تھے ہم مذاکرات سے جوہری معاملات طے کرنا چاہتے ہیں اسرائیلی جارحیت کے بعد صدر ٹرمپ ’’کفن‘‘‘ پھاڑ کر بولے
ایران اب بھی سمجھوتہ کرلے ورنہ اگلے حملے اس سے بھی زیادہ سخت ہوں گے جو ایرانی سلطنت کا وجود مٹادیں گے
امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت اسرائیل کی پشت پر کھڑا ہے محض کھڑا نہیں بلکہ ہرممکن تعاون بھی فراہم کررہا ہے۔
خود کو "امن کا علمبردار” کہنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکی پالیسیوں نے مشرقِ وسطیٰ کو مزید غیر مستحکم کر دیا ہے
۔
امریکی اسلحے اور اربوں ڈالر کی امداد سے لیس اسرا-ئیلی جنگی مشین جب فلسطین یا خطے میں کسی بھی محاذ پر جنگی کارروائی کرتی ہے، تو ٹرمپ جیسے رہنما یا تو خاموشی اختیار کر لیتے ہیں یا پھر اسرا-ئیل کی مکمل حمایت میں کھڑے ہو جاتے ہیں ۔
یروشلم کو یکطرفہ طور پر اسراـ ئیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا ہو یا امن کے نام پر طاقت کا استعمال،
"غزہ” میں معصوم بچوں اور خواتین کے قتل عام پر خاموشی ہو یا آزادی کے نام پر ظلم اور جبر کا استعمال ،
ٹرمپ کا طرزِ عمل ایک خاص بیانیے کو تقویت دیتا ہے۔ جہاں طاقتور کو کھلی چھوٹ اور مظلوم کی آواز کو دبانے کا جواز فراہم کیا جاتا ہے۔
یہ سوال اب محض سیاسی نہیں، اخلاقی بھی ہے:
کیا امریکی قیادت واقعی امن کی خواہاں ہے یا مفادات کی جنگ میں وہ صرف طاقت اور ظالم کے ساتھ کھڑی ہے؟
امریکی فوجی اور سابقہ نیوکلئیر انسپکٹر سکاٹ ریٹر نے کہا ہے کہ ایران نے اسرائیل کو کاری ضربیں لگائی ہیں۔
حیفہ کی بندرگاہ مٹی کا ڈھیر بن چکی ہے۔ بن گوریئن ائیرپورٹ بری طرح hit ہوا ہے۔ گیس کی تنصیبات ختم ہو گئی ہیں۔ اسرائیل کے اندر کئی اہم اہداف کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ اور یہ صرف وہ کچھ ہے جو ہمیں دکھایا جا رہا ہے، بہت کچھ چھپایا جا رہا ہے۔
اسرائیلی فضائیہ اپنی ائیر بیسز سے محفوظ طریقے سے اُڑان بھی نہیں بھر سکتی۔ اسی لیے وہ برطانیہ کے زیر انتظام قبرص کے فوجی اڈوں کا سہارا لے رہی ہے۔ یہ صورتِ حال آنے والے دنوں میں مزید بگڑنے والی ہے۔
امریکہ نے اربوں ڈالر جھونک کر جو دفاعی نظام تیار کیا، جسے آئرن ڈوم کہتے ہیں، وہ بیکار ہو چکا ہے۔ جو میزائل روکے بھی جا رہے ہیں، وہ صرف وہی ہیں جنہیں روکنے کے لیے ہی چھوڑا گیا ہے۔ ایران نے دس بیس سال پرانے میزائلوں کو اس طریقے سے تیار کیا ہے کہ وہ ڈیفنس سسٹم کو الجھا لیتے ہیں، دفاعی نظام انہیں حقیقی سمجھ کر ان پر لپکتا ہے اور اصل میزائل کامیابی سے اپنے ہدف کو سٹرائیک کر جاتا ہے۔
امریکہ کے پاس اب دینے کو مزید میزائل بھی نہیں بچے۔ ایشیا پیسفک کمانڈ کے افسران اب سوال کر رہے ہیں کہ چین کے خلاف اگر کوئی کشیدگی بڑھتی ہے تو ہم دفاع کس سے کریں گے؟ سب کچھ اسرائیل پر قربان ہو چکا ہے۔ نیمتز جیسے بحری بیڑے کو بھی مشرقِ وسطیٰ منتقل کر دیا گیا ہے، جس سے پورے جنوبی چین سمندر کا دفاع کمزور پڑ گیا ہے۔
صدر کی "گولڈن ڈوم” جیسی باتیں محض خواب ہیں۔ جس منصوبے پر 175 ارب ڈالر خرچ کرنے کی بات ہو رہی ہے، وہ ٹیکنالوجی ابھی وجود ہی نہیں رکھتی۔ اور اگر وہ نظام بن بھی گیا تو کئی دہائیاں لگیں گی اور اس کی قیمت کھربوں ڈالر تک جا پہنچے گی۔
مسئلہ صرف نظام کا نہیں، قیادت کا ہے۔ صدر کی ناتجربہ کاری اور جہالت کی قیمت اسرائیلی عوام چکا رہے ہیں اور ان سے کوئی ہمدردی بھی نہیں رکھتا، کیوں کہ انھوں نے غزہ میں گزشتہ ڈیڑھ برس سے کیا کچھ نہیں کیا؟ ہزاروں معصوم فلسطینی، عورتیں، بچے قتل کیے گئے، اور دنیا خاموش رہی۔
اب ایران نے جو جوابی کارروائی کی ہے، اس میں ٹارگٹڈ حملے ہو رہے ہیں، لیکن اسرائیل ابھی بھی اندھادھند بمباری کر رہا ہے۔ ایک ہی عمارت میں 26 بچوں سمیت 60 افراد شہید کر دیے گئے، مگر دنیا خاموش ہے۔
یہ وہی اسرائیل ہے جو خود کو دنیا کی سب سے "اخلاقی” فوج قرار دیتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ بدترین درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ انہوں نے بغیر کسی قانونی جواز کے ایران پر حملہ کیا۔ اقوامِ متحدہ کا قانون، بین الاقوامی ضابطے سب پامال کر دیے گئے۔
ایران نے جو جوہری معاہدہ کرنے کی تیاری کی تھی، اس پر بھی پانی پھیر دیا گیا۔ ایران نے IAEA کے ساتھ مکمل تعاون کی پیشکش کی تھی۔ یہاں تک کہ وہ امریکی معائنہ کاروں کو بھی آنے دینے پر آمادہ تھا۔ لیکن امریکی صدر نے ان کے اعتماد کو دھوکہ دیا۔ ایران کو لگا کہ معاملات بہتری کی طرف جا رہے ہیں، لیکن پسِ پردہ ان کی مذاکراتی ٹیم ہی مار دی گئی۔ شمع خانی سمیت وہ سب لوگ جنہوں نے ایران کو امن کی راہ پر لانے کی کوشش کی، شہید کر دیے گئے۔
یہ سب کچھ اس لیے ہوا تاکہ ایران کو بے خبری میں دبوچا جا سکے۔ یہ حملہ "پرل ہاربر” جیسا خفیہ اور بے بنیاد تھا۔ اور ہم امریکی اس جرم کے مرتکب تھے۔
بدترین بات یہ ہے کہ جو لوگ یہ سب کروا رہے ہیں، وہ ناسمجھ، احمق اور لاپرواہ لوگ ہیں۔ صدر کے اردگرد کوئی سنجیدہ، باشعور مشیر موجود نہیں۔ وہ ایسے لوگوں سے مشورے لے رہا ہے جو جنگ کو کھیل سمجھتے ہیں۔ اور اس جنگ کی قیمت پوری دنیا ادا کر رہی ہے۔
سکاٹ ریٹر کا کہتا ہے کہ روس واضح کر چکا ہے کہ وہ پہل نہیں کرے گا، لیکن اگر امریکہ نے ایران پر ایٹمی حملہ کیا تو روس یورپ کو نشانہ بنائے گا۔ یہ خطرہ حقیقی ہے، اور افسوسناک بات یہ ہے کہ امریکہ کی قیادت اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
یہ سب کچھ صدر کی کمزوری، خودغرضی، اور ناقابلِ اعتبار شخصیت کی وجہ سے ہوا۔ جو شخص بار بار امن کی بات کرتا ہے، لیکن کسی کے دباؤ میں آ کر جنگ چھیڑ دیتا ہے، وہ نہ لیڈر ہے، نہ مرد، بلکہ ایک کمزور، جذباتی اور خودفریبی میں مبتلا انسان ہے۔
دنیا میں جو تھوڑی بہت امید باقی تھی، وہ ان رہنماؤں کے ذریعے زندہ تھی جو مشرقِ وسطیٰ میں تجارت اور ترقی کی بنیاد پر نیا مستقبل چاہتے تھے۔ لیکن امریکی صدر نے ان کوششوں پر بھی پانی پھیر دیا۔
Author
-
انیس الرحمٰن ایک مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اردو میں وہ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، اکثر ان موضوعات پر بصیرت انگیز تجزیے لکھتے ہیں۔ ای میل: