اسرائیل امریکہ بہادر کی پشت پناہی سے ایران پر جنگ مسلط کرچکا۔ امریکی جو اسرائیلی حملوں سے ایک دن قبل کہہ رہے تھے ہم مذاکرات سے جوہری معاملات طے کرنا چاہتے ہیں اسرائیلی جارحیت کے بعد صدر ٹرمپ ’’کفن‘‘‘ پھاڑ کر بولے
’’ایران اب بھی سمجھوتہ کرلے ورنہ اگلے حملے اس سے بھی زیادہ سخت ہوں گے جو ایرانی سلطنت کا وجود مٹادیں گے‘‘
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے اس بیان نے ایک تلخ حقیقت دوچند کردی۔
یہی کہ عالمی جوہری توانائی ایجنسی کی ایران کے خلاف قرارداد اسرائیل کا ایران پر حملہ ہر دو کو امریکی اشیرباد حاصل تھی۔
اس سے اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل نے ایرانی پر فضائی حملوں کے لئے اردن عراق اور شام کی فضائی حدود استعمال کیں۔
عراق نے گزشتہ روز باضابطہ طور پر امریکہ کو یاد دلایا ہے کہ خلیج کی جنگ کے اختتام پر ہوئے معاہدے کے مطابق امریکہ پابند ہے کہ اسرائیل کو عراق کی فضائی حدود استعمال کرنے سے روکے۔
یہاں ہم یہ سوال اٹھانے کو درست سمجھتے ہیں کہ کیا امریکہ نے کبھی معاہدوں کی پاسداری کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
حالیہ اسرائیلی جارحیت کے دوران اردن اور شام نے جس طرح اسرائیل کی دفاعی مدد کی وہ غیر متوقع نہ تھی
اردن بیت المقدس کو فلسطین کی بجائے اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ فلسطینی پی ایل او ایک زمانہ سے (پی ایل او اب فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی صورت میں موجود ہے) اردنی دعوے کو مسترد کرتی آرہی ہے مرحوم یاسر عرفات تو ” اردن کو ایسی گدھ ریاست کہتے تھے جو اسرائیل کی طرح فلسطین کو نوچ کر قائم کی گئی ہے "۔
حالیہ اسرائیلی جارحیت کے دوران شام نے اسرائیل کو ہرممکن تعاون فراہم کیا اہم ترین تعاون ایران پر حملہ کرنے والے 200 اسرائیلی طیاروں کے لئے ری فلنگ کا انتظام تھا۔
بہرحال یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت اسرائیل کی پشت پر کھڑا ہے محض کھڑا نہیں بلکہ ہرممکن تعاون بھی فراہم کررہا ہے۔
قارئین محترم ا
یہاں یہ سوال اٹھانا بھی از حد ضروری ہوگا کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ: امن کا دعویدار یا جنگ کا طلبگار۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔
خود کو "امن کا علمبردار” کہنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکی پالیسیوں نے مشرقِ وسطیٰ کو مزید غیر مستحکم کر دیا ہے
۔
امریکی اسلحے اور اربوں ڈالر کی امداد سے لیس اسرا-ئیلی جنگی مشین جب "فلس-طین” یا خطے میں کسی بھی محاذ پر جنگی کارروائی کرتی ہے، تو ٹرمپ جیسے رہنما یا تو خاموشی اختیار کر لیتے ہیں یا پھر اسرا-ئیل کی مکمل حمایت میں کھڑے ہو جاتے ہیں ۔
یروشلم کو یکطرفہ طور پر اسراـ ئیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا ہو یا امن کے نام پر طاقت کا استعمال،
"غزہ” میں معصوم بچوں اور خواتین کے قتل عام پر خاموشی ہو یا آزادی کے نام پر ظلم اور جبر کا استعمال ،
ٹرمپ کا طرزِ عمل ایک خاص بیانیے کو تقویت دیتا ہے۔ جہاں طاقتور کو کھلی چھوٹ اور مظلوم کی آواز کو دبانے کا جواز فراہم کیا جاتا ہے۔
یہ سوال اب محض سیاسی نہیں، اخلاقی بھی ہے:
کیا امریکی قیادت واقعی امن کی خواہاں ہے یا مفادات کی جنگ میں وہ صرف طاقت اور ظالم کے ساتھ کھڑی ہے۔۔۔۔۔۔؟
Author
-
ڈاکٹر سید حمزہ حسیب شاہ ایک تنقیدی مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتے ہیں، خاص طور پر ایشیا اور جغرافیائی سیاست پر توجہ دیتے ہیں۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اردو میں اور علمی اور پالیسی مباحثوں میں فعال طور پر حصہ ڈالتا ہے۔View all posts