اس وقت دنیا میں حالات ہر لحاظ سے چاہے وہ سیاسی ہیں اتنے صحابی ہیں معاشی ہیں اصولی ہے بے اصولی ہیں ابتر ہی ابتر نظر ارہے ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر سو ظلمت ہی ظلمت ہے کتنی بھی دمک رہی ہیں گو کہ چمک نہیں رہی وہ اس طرح کہ ان تمام بحرانوں کا محور صرف اور صرف اسرائیل ہے جو اس وقت براہ راست کر تب ظلمت اور ظلم نازل کیے ہوئے ہیں فلسطین کا مسئلہ لے لیں مشرق وسطٰی کے حالات لے لیں یا حالیہ ایران پر جارحیت کو دیکھ لیں وہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل جس کے بارے میں یہ سچ کہا جاتا ہے کہ مشرق وسطی میں بڑی طاقتوں کا ناجائز بچہ ہے اس وقت وہ پوری دنیا دادا گیری مچائے ہوئے ہیں وہ اس طرح رو بہ عمل جیسے کہ اس کے لیے کوئی قانون نہیں وہ کسی اصول کا پابند نہیں وہ دنیا کے کسی بھی ضابطہ اخلاق کو تسلیم نہیں کرتا ساری دنیا میں اس کی صرف رسا گیری ہی چلے گی اس کی خواہشات اس کی تمنا ہی دنیا کا اصول اور قانون ہے باقی سب کچھ ہیچ ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر انتہائی بدبودار غلیظ کردار ایک اور ملک بھی انجام دے رہا ہے اور وہ ہے جنوبی ایشیا کا دادا گری کرنے والا ملک بھارت دیکھیے کہ اس نے کیا حرکت کی ہے اس کی اس حرکت کی وجہ سے دنیا کے سامنے اس کا مکروہ سیاہ اور داغدار چہرہ عیاں ہو گیا ہے وہ اس طرح کہ
بھارت نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اس بیان سے لا تعلقی ظاہر کی ہے جس میں ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی گئی تھی، اور بھارت نے اپنی پوزیشن 13 جون 2025 کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو کردار ادا کرنا چاہیے، مگر ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی پر کوئی مذمت نہیں کی جب تم "شنگائی تعاون تنظیم”(ایس سی او) سے وابستہ ہوتے ہوئے اس کے پالیسی بیان سے لا تعلق وہ رہے ہو یہ کہہ کر کہ عالمی برادری کو کردار ادا کرنا چاہیے اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی ڈیڑھ ایج کی کٹھیا بنا رہے ہو اور سب سے الگ ہو رہے ہو یا دوسرے الفاظ میں پوری تنظیم کی مخالفت اور مذمت کر رہے ہیں یہ کوئی نئی بات بھارت کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کا ہمیشہ سے یہی کردار رہا ہے کہ وہ ایک موقع پرست ملک ہے جہاں سے اس کو بھات ملے وہی اس کا ایشور اور بھگوان ہیں بھارت ایشیا میں سب سے زیادہ طاقتور ملک بننے کا دعوی دار ہے اور دادا گری کے تخت پر برجمان ہو کر مہاراجہ بننے کے خواب میں مبتلا ہے اس کی یہی بے اصولی اس کے مکروہ چہرے کی پہچان ہے جبکہ وہ پاکستان کو ہمیشہ ایک حقیر ملک سمجھتا رہا ہے اور دنیا کو باراور کراتا رہا ہے میں اگر جنوبی ایشیا میں کوئی ہے تو صرف بھارت ہے پاکستان کا ہر مقام پر سے پتہ کاٹتا رہے جس کے نتیجے میں خود اس کے پتے جھڑ جاتے ہیں اور وہ ایک ننگ منگ ہو کر بے پردہ ہو جاتا ہے پاکستان نے ہمیشہ عالمی برادری کا خود کو رکیب رکھا ہے یعنی وہ ہمیشہ ہم قدم رہا ہے اور منزل تک ساتھ نبھایا ہے چنانچہ
پاکستان کی طرف سے ایران کے ساتھ تاریخی تعلقات اور اتحاد کا اظہار کیا گیا ہے، اور پاکستان نے اقوام متحدہ میں ایران پر اسرائیلی حملے کی کھل کر مذمت کی ہے، جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے مسلم دنیا کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا ہے۔اور اور تمام مسلم امہ کو ایک شفاف صاف تو ٹوک زبان میں یہ بھی بتا دیا کہ اج ایران پر اسرائیل نے جارحیت کی ہے اگر مسلم امہ اسرائیل کے گھناونے عزائم کے اگے دیوار نہ بنے تو وہ سب کو جارحیت کی لپیٹ میں لے لے گا مسلم دنیا کو اپنی انکھیں کھول لینی چاہیے اور مستقبل کے بارے میں فیصلہ کر لینا چاہیے بھارت میں جو یہ بھی ہمت نہیں ہے کہ اپنے ہمدم اسرائیل کی اس طرح کھلے الفاظ میں حمایت کرے تو وہاں پر بھی وہ چلاکیاں کر رہا ہے
یہ بھی حقیقت ہے کہ اسرائیل نے ایران میں جوہری اور فوجی اہداف کو نشانہ بنایا ہے، جس میں ایران کے پاسداران انقلاب کے کمانڈر ان چیف حسین سلامی سمیت متعدد اہم شخصیات ہلاک ہوئیں۔ اس حملے کی مذمت مسلم دنیا میں مختلف سطحوں پر ہوئی ہے، خاص طور پر پاکستان میں، لیکن مسلم دنیا کا مکمل اتحاد نظر نہیں آ رہا۔جس کی جانب پاکستان کے وزیر داخلہ خواجہ اصف نے شفاف انداز میں مسلم امہ کی توجہ دلائی ہےجہاں تک اسرائیل کے حملے کی مذمت کرنے والے ممالک کا تعلق ہے، پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک نے مذمت کی ہے، جبکہ مغربی دنیا میں غیر مسلم عوام اسرائیل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل کو اتحادی ممالک کی حمایت حاصل رہی تو وہ ان ممالک کے فوجی اڈوں کو نشانہ بنائے گا، جس میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس شامل ہیں۔ایران کا یہ موقع درست ہے کہ اگر ان ممالک نے عملی طور پر اسرائیل کے لیے کوئی کردار ادا کیا تو وہ اپنے دفاع کے لیے یہ حق رکھتا ہے کہ وہ ان کے فوجی اڈوں کو نشانہ بنائے
بھارت کا موقف ایران اور پاکستان کے تعلقات میں رخنہ ڈالنے والا اور دوستی کی سچائی پر سوال اٹھانے والا سمجھا جا رہا ہے، کیونکہ بھارت نے شنگھائی تعاون تنظیم کے بیان سے لا تعلقی ظاہر کی اور ایران کی حمایت سے گریز کیا ہے۔بھارت نے ہمیشہ مشرق وسطی کے مسلم ممالک کی محبوبہ بننے کی تگ و دو کی ہے اور ان سے اپنے ناز و نخرے اٹھائے ہیں ایران سے بھی عشق لڑایا ہے اس کا بھیانک کردار تو سامنے ا چکا ہے لیکن مشرق وسطہ کے بعض ممالک کے بارے میں عمومی طور پر یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ صدیوں پرانے اختلافات کی بنیاد پر شاید ایران کی حمایت نہیں کریں گے کہا خاموش رہیں گے یا اسرائیل کے ساتھ تعاون کریں گے کیونکہ کئی مشرق وسطی کے ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں اور کئی ایک کے بارے میں یہ بھی یقین ہو چکا ہے کہ وہ اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں شاید مستقبل قریب میں اس کو قبول کر لے لیکن دیکھنے میں یہ ایا کہ تین ممالک سے کوئی توقع نہیں تھی انہوں نے بھی سیج کی مذمت کی سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان نے بھی اسرائیل کی مذمت کی اور قطر نے تو کمال ہی کر دکھایا اس نے تو کھل کر وہ بڑے واضح طور پر اسرائیل کی مذمت کی ہے
بھارت نے جس طرح شنگائی تعاون تنظیم کے بیان سے پلٹا کھایا ہے اور فرمایا ہے کہ عالمی برادری کردار ادا کرے بھئی عالمی برداشت برادری کے کردار کی وضاحت بھی تو کر دے کہ عالمی برادری کیا کردار ادا کرے اس کے کردار کے کیا سیاق و سباق ہونا چاہیے اس سے بڑی اور کیا منافقت ہو سکتی ہے کہا جا رہا ہے کہ بھارت میں ایس سی او کے بیان سے جو لا تعلق ہی کا اظہار کیا ہے وہ اس کی اخلاقی پسپائی ہے اخلاقی پسپائی تو تب ہے کہ جب وہ اخلاق کو پہچانے واضح رہے کہ ایس سی او کی جانب سے ایران پر جو اسرائیلی جارحیت ہوئی ہے اس کی حمایت کرنے سےانکار کر دیا گیا ہے اور ایران پر ہم لوگ کی شدید مذمت کی گئی ہے اب ایسے بیان سے بھارت کا دستبردار ہونا اخلاقی دیوالیہ پن ہی کہلائے گا اور موقع پرستانہ سوچ کو عریاں بھی کر دینے کے مترادف ہی ہوگا
ایسے موقع پر جب کہ دنیا کے بیشتر ممالک نے واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل نے ایران پر حملہ کر کے اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے اور اس چارٹر کے حوالہ جات بھی دیے ہیں ایسے میں صرف یہ کہہ دینا کہ عالمی برادر ی کردار ادا کرے اس سے بڑی اور منافقت کیا ہو سکتی ہے بھارت بھی اقوام متحدہ کا ممبر ہے وہ سلامتی کونسل میں بھی درخواست دے سکتا ہے اور جنرل اسمبلی میں بھی قرارداد پیش کر سکتا ہے لیکن اسے پرساد کھانا ہے اور ساتھ جہاں سے مل دے گا اسی کے وہ گن گائے گا یہ سادہ سی بات ہے تازہ اطلاع یہ بھی ہے کہ اسرائیل نے ایران کے جن جوہری تنصیبات پر حملہ کیے تھے وہاں سے تابکاری اثرات بکھرنے لگے ہیں جو دنیا کے لیے بہت ہی خطرناک بات ہے کیا بھارت اس سے بھی دستبرداری کا اعلان کرے گا اور انکار کرے گا کہ یہ اچھا ہوا یا برا ہوا ظاہر ہے جو طمع اس کے دل میں ہے وہ تو لازمی ابھرے گا
بھارت جو ہر لمحے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ پاکستان جارحیت اور دہشت گردوں کا معاون کار ہے اس تازہ ترین یعنی اسرائیل کہ ایران پر بلا جواز بمباری کے واقعات پر جو کردار ہے اس کا موازنہ پاکستان اور بھارت سے کیا جا سکتا ہےپاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں ایران پر اسرائیلی حملے کی بھرپور اور دوٹوک مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کو اقوام متحدہ چارٹر کے تحت اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے اور پاکستان نے اس حق کی حمایت کی ہے۔
پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے بھی سلامتی کونسل میں کہا کہ اسرائیلی حملے ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہیں اور ایران کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے اسرائیل کی جارحیت کو اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی قرار دیا اور تمام فریقوں سے کشیدگی کم کرنے اور سفارتی حل کی کوششوں کو ترجیح دینے کا مطالبہ کیا۔پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے ایران پر حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے کہا کہ اسرائیل کی بلاجواز اور غیرقانونی جارحیت ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت ایران کو اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔انہوں نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کی اس جارحیت کو فوراً روکے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے سے باز رکھے۔ پاکستان نے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ کشیدگی کم کریں، سفارتی رابطے بڑھائیں اور اپنے بین الاقوامی وعدوں کی پاسداری کریں تاکہ خطے میں امن و استحکام قائم رہے۔پاکستان کے اس موقف کے بعد کیا بھارت دنیا میں کسی کو منہھ دکھانے کے قابل رہ گیا ہے ہرگز نہیں
خواجہ آصف نے مسلم دنیا کو متحد ہو کر اسرائیل کے خلاف مضبوط موقف اپنانے اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
دنیا کے کئی ممالک نے اسرائیل کے ایران پر حملوں کی مذمت کی ہے اور جن ممالک نے مذمت نہیں کی اسرائیل کی حمایت کی وہ بھی انہوں نے واضح طور پر موقف اختیار کیا جیسا کہ سعودی عرب نے اسرائیلی حملوں کو "ظالمانہ” اور "بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی” قرار دیا اور اقوام متحدہ سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
قطر نے اسرائیلی حملوں کو ایران کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور بین الاقوامی قانون کی پامالی قرار دیا، اور عالمی برادری سے فوری روک تھام کا مطالبہ کیا۔
عمان نے حملوں کو "خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ” قرار دیتے ہوئے اسرائیل کو اس صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
ترکی نے اسرائیل کے حملوں کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور علاقائی استحکام کو نقصان پہنچانے والی سازش قرار دیا۔
چین نے ایران کی خودمختاری کی خلاف ورزی پر گہری تشویش ظاہر کی اور تمام فریقوں سے کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ کیا۔
فرانس نے اسرائیل کے دفاع کے حق کو تسلیم کیا لیکن تمام فریقوں سے احتیاط اور کشیدگی نہ بڑھانے کی اپیل کی۔ظاہر ہے کہ فرانس جن کے اتحادی ہے اور اسرائیل جن لوگوں کا ناجائز بچہ ہے اس میں فرانس بھی شامل ہے
جرمنی نے اسرائیل کے دفاع کے حق کی حمایت کی اور ایران کے جوہری پروگرام پر تشویش کا اظہار کیا، ساتھ ہی کشیدگی کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
انڈونیشیا نے اسرائیلی حملوں کی سخت مذمت کی اور علاقائی کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا۔
برطانیہ نے کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی اور تمام فریقوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا کہا۔
روس نے اسرائیل کے حملوں کو "غیر قابل قبول” قرار دیا اور سفارتی حل پر زور دیا۔
یونائیٹڈ عرب امارات نے بھی اسرائیلی حملوں کی مذمت کی اور کشیدگی کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
امریکی حکام نے اسرائیل کی کارروائی کو خود دفاع کا حق تسلیم کیا لیکن علاقائی استحکام کے لیے سفارتی حل کو ترجیح دی۔
کسی نے کسی کے بیان سے لا تعلقی کا اظہار نہیں کیا بھارت کی منافقت کا یہ حال ہے کہ جب ایسی او کی جانب سے بیان جاری کیا جا رہا تھا اس وقت ہی اپنا موقف تنظیم کو بتا دیا جاتا تو تنظیم اس پر غور کر لے گی اور بھارت کو اس بیانسے خرچ قرار دے دیتی لیکن جب کسی کو اپنی عزت ہی عزیز نہ ہو تو اس سے غیرت کی کیا توقع کی جا سکتی ہے ہے
پاکستان کا ہر مسئلے پر اور ہر مقام پر دو ٹوک موقف ہے پاکستان کے ووزیر دفاع خواجہ آصف نے سلامتی کونسل میں بھارت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ بھارت پاکستان کے خلاف ایجنسیوں کے ذریعے سازشیں کر رہا ہے، خاص طور پر کالعدم بلوچ لبریشن آرمی اور تحریک طالبان پاکستان کو بھارت کا ایجنٹ قرار دیا۔اسے کہتے ہیں سچا سچ جو بھارت کے لیے کڑوا سچ ہے
اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 2(4) واضح طور پر کہتا ہے کہ کسی بھی ملک کو دوسرے ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلاجواز حملہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس کے تحت اسرائیل کا ایران پر بلا اشتعال اور بلا جواز حملہ غیر قانونی اور چارٹر کی خلاف ورزی ہے کیونکہ ایران نے اسرائیل پر کوئی جارحیت یا حملہ نہیں کیا تھا۔
دوسری طرف، آرٹیکل 51 میں کسی ملک کو اپنے دفاع کا حق دیا گیا ہے، لیکن یہ حق اس وقت لاگو ہوتا ہے جب کوئی ملک پہلے حملہ کرے یا جارحیت کرے۔ چونکہ ایران نے اسرائیل پر کوئی جارحیت نہیں کی، اس لیے اسرائیل کا ایران پر حملہ دفاع کے حق کے تحت جائز نہیں سمجھا جاتا۔
پاکستان سمیت کئی ممالک نے سلامتی کونسل میں کہا ہے کہ اسرائیل کی یہ کارروائی اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہے اور ایران کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، لیکن اسرائیل نے بلاجواز حملہ کیا ہے جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے. چلیں بھارت اتنا ہی سادھو ملک ہے تو اسے چاہیے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے ارٹیکلز 51 اور 2(4) کی بنیاد پر ہی کوئی بیان جھاڑ دیتا لیکن وہ کیسے جھاڑے گا مکاری فریب دھوکہ بازی اس کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے
Author
-
صحافت میں ایک ممتاز کیریئر کے ساتھ ، میں نے یو ایس اے ٹوڈے اور وائس آف امریکہ کے نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیں ، اے ایف پی اور اے پی کے لیے رپورٹنگ کی ، اور ڈیلی خبرائن اور اردو نیوز جیسے بڑے آؤٹ لیٹس کے لیے بیورو چیف اور رہائشی ایڈیٹر سمیت سینئر کردار ادا کیے ۔
View all posts