جب دنیا دہشتگردی کے خلاف اتحاد کی بات کرتی ہے، تو کچھ طاقتیں ایسی بھی ہیں جو پس پردہ نہ صرف خطے میں بدامنی پھیلانے کے لیے متحد ہو چکی ہیں بلکہ اپنے مخصوص مفادات کے تحت دیگر ریاستوں کی خودمختاری پر کھلا حملہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی را اور اسرائیل کی ایجنسی موساد کا خفیہ اتحاد اب محض سازشی تصور نہیں بلکہ ایک واضح اور کھلی حقیقت بن چکا ہے، جس کا مظاہرہ ہمیں حالیہ برسوں میں کئی بار نظر آیا۔
را اور موساد کے درمیان تعاون کا آغاز 1980 کی دہائی میں ہوا۔ اس وقت دونوں ایجنسیاں سرد جنگ کے دوران اپنے اپنے مقاصد کے تحت ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ بھارت کو پاکستان کے خلاف ایک تجربہ کار انٹیلی جنس پارٹنر کی ضرورت تھی، جب کہ اسرائیل کو جنوبی ایشیا میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک بااعتماد اتحادی درکار تھا۔ یروشلم پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، دونوں ملکوں کے مابین یہ تعاون اب صرف خفیہ معلومات کے تبادلے تک محدود نہیں رہا بلکہ دفاعی، سائبر اور انٹیلیجنس میدانوں میں ایک باقاعدہ اتحاد کی شکل اختیار کر چکاہے۔
بھارت اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ دہائی میں دفاعی معاہدوں کا حجم 2.9 بلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ اسرائیلی دفاعی کمپنیاں بھارت کے ساتھ براہ راست معاہدے کر چکی ہیں۔ ان معاہدوں کے تحت بھارت نے ہیرون ڈرونز، باراک-8 میزائل سسٹم، ٹیور رائفلز، اسپائس 2000 بم گائیڈنس سسٹم اور فالکن ریڈار جیسے حساس اور جدید ہتھیار اپنے دفاعی نظام میں شامل کیے ہیں۔
بالاکوٹ حملے کے دوران بھارتی فضائیہ نے اسرائیلی ساختہ سپائس 2000 بم کا استعمال کیا، جس سے یہ واضح ہو گیا کہ اسرائیلی ٹیکنالوجی پاکستان کے خلاف جارحیت میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔
2017 کے بعد دونوں ممالک نے سائبر سیکیورٹی کے میدان میں مشترکہ تربیت، سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ اور ڈیجیٹل نگرانی کے شعبے میں معاہدے کیے۔ اسرائیلی ماہرین بھارتی سائبر یونٹس کو تربیت دے رہے ہیں، جس کا مقصد پاکستانی نیٹ ورکس میں دراندازی اور خلل ڈالنا ہے۔
اسرائیلی مصنوعی سیارے TecSAR کو انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن کے ذریعے مدار میں بھیجا گیا، جو اب بھارتی سرحدی علاقوں میں حساس نگرانی کا کام کر رہا ہے۔ اس سیٹلائٹ کے ذریعے نہ صرف پاکستان بلکہ ایران، افغانستان اور چین کی حرکات پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے۔
2021 میں غزہ پر اسرائیلی بمباری کے دوران اسرائیلی فوج نے "ہروپ کامیکزی ڈرونز” استعمال کیے۔ ان ہی ڈرونز کو بھارتی فوج نے آپریشن بنیان المرصوص کے دوران کشمیر اور دیگر حساس پاکستانی علاقوں میں نگرانی اور ممکنہ حملوں کے لیے استعمال کیا۔ بھارتی فوج کی جانب سے ان ہتھیاروں کا استعمال اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ را اور موساد اب صرف خفیہ شراکت دار نہیں بلکہ مشترکہ جنگی منصوبہ ساز بن چکے ہیں۔ بھارت میں اسرائیلی کمپنیاں چند سالوں سے ہتھیاروں کی تیاری اور دفاعی پیداوار کے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ ہر میس 900 ڈرونز اب بھارت کے اندر تیار کیے جا رہے ہیں، جب کہ ایڈانی ڈیفنس، بھارت الیکٹرانکس اور ایچ اے ایل جیسے ادارے اسرائیلی شراکت کے ساتھ میزائل، سنسرز اور جنگی آلات تیار کر رہے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی صرف پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی بلکہ بھارت کے اندر اقلیتوں اور آزادی کی تحریکوں کو دبانے کے لیے بھی اسرائیلی ہتھکنڈے اپنائے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی ساختہ نگرانی کے آلات اور چہرہ شناس نظام اب عام ہو چکے ہیں۔
ایران پر اسرائیلی جارحیت درحقیقت اسی را موساد اتحاد کا تسلسل ہے۔ ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق، حملے کی منصوبہ بندی میں بھارتی سائبر ماہرین کا بھی عمل دخل تھا، جب کہ اطلاعات کے مطابق ایران کی جوہری تنصیبات سے متعلق معلومات بھارت کے ذریعے اسرائیل کو فراہم کی گئیں۔ جو ان کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرتی ہے۔
یہ امر قابل غور ہے اور ہر پاکستانی کو ذہن نشین کر لینی چاہئیے کہ پاکستان نے پہلگام
فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں بھارت کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے کر موساد اور را کے خواب چکناچور کر دیئے۔ پاکستان کی موئثر جوابی کارروائی کی بدولت ہی امریکی صدر ٹرمپ سیز فائر کے لیے متحرک ہوئے اور مسئلہ کشمیر پرثالثی کے لیے بار بار رضامندی کا عندیہ دے رہے ہیں۔ اگر خدانخواستہ پاکستان دفاعی لحاظ سے کمزور ہوتا تو صورتحال اس کے برعکس ہونی تھی۔
خطے میں جغرافیائی اہمیّت اور ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے ایران پر اسرائیلی جارحیت کے پیش نظر پاکستان کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، چنانچہ پاکستانی انٹیلیجنس اداروں کو چاہیے کہ را اور موساد کے مشترکہ منصوبوں پر گہری نظر رکھیں اور کاؤنٹر انٹیلیجنس کی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے۔ پاکستان کو اپنے دفاعی نظام کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنا ہوگا تاکہ کسی بھی ممکنہ حملے یا سائبر مداخلت سے بچا جا سکے۔ عالمی سطح پر اس گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ہدف ہونا چاہیے، خصوصاً اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسے پلیٹ فارمز پر اسے اٹھانا ہوگا۔ بھارت اور اسرائیل کے درمیان بڑھتا ہوا دفاعی اور انٹیلیجنس تعاون نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ جب دو ایسی ریاستیں جو خود کو جمہوریت کا علمبردار کہتی ہیں، مگر اپنے ہمسایہ ممالک کی سالمیت کو چیلنج کرتی ہیں، تو یہ عالمی برادری کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔پاکستان کو اس وقت نہ صرف عسکری میدان میں بلکہ سائبر، سفارتی اور نظریاتی محاذ پر بھی چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ را اور موساد کا اتحاد صرف ایک انٹیلیجنس تعاون نہیں بلکہ ایک نظریاتی محاذ آرائی ہے، جس کا مقابلہ حکمت، سائنس، امت مسلمہ اور قومی اتحاد سے ہی کیا جا سکتا ہے۔
Author
-
ایک تجربہ کار صحافی ہیں جن کا 30 سال کا تحریری تجربہ ہے ۔انہوں نے ڈیلی مشرق ، ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی آج سمیت معروف اخبارات میں تعاون کیا ہے ۔:
View all posts