تقسیم ہندوستان کے وقت پاکستانی علاقوں سے ہندو ایک بڑی تعداد میں بھارت منتقل ہوئے تھے جنہیں اج تک نہ تحفظ، نہ شہریت حاصل ہو پائی ہے ان کا بھارت میں ایسا درجہ ہے جیسے تیسرے درجے کے شہری کا ہوتا ہے گویا وہ غلامی جیسی زندگی بسر کر رہے ہیں: بھارت میں پاکستان سے نقل مکانی کرنے والے ہندو مہاجرین کا المیہ اور مغرب میں فریبِ انصاف کا بیانیہ گویادو چہرے، ایک حقیقت دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ کرنے والے والے بھارت کا چہرہ اُس نقاب سے چھلک جاتا ہے جسے وہ انسانی حقوق، اقلیتوں سے ہمدردی اور سیکولرزم کے نام پر اوڑھے ہوئے ہے۔ دوسری جانب مغربی دنیا میں ایک اور المیہ جنم لیتا ہے، جہاں انسانی حقوق کے نام پر سیاسی بیانیے کو انصاف کا لبادہ پہنا کر سچائی کو مسخ کر دیا جاتا ہے۔ ان دونوں جہات کے درمیان ایک حیران کن مماثلت ہے یعنی استحصال، منافقت اور مخصوص ایجنڈا۔اور اپنے مفادات کی اجاداری قائم کرنا
پاکستان سے بھارت ہجرت کرنے والے ہندو خاندانوں کا خیال تھا کہ "ہندو راشٹر” انہیں مذہبی ہم آہنگی، تحفظ اور شہریت دے گا۔ لیکن یہ تصور بہت جلد دھوکہ، مایوسی اور ذلت میں بدل گیا۔سنجے کمار اور سپنا کماری جیسے افراد جو بہتر مستقبل کے خواب آنکھوں میں بسائے ممبئی پہنچے، اُنہیں قتل کر دیا گیا۔ جودھپور میں 11 مہاجرین کی پراسرار اموات آج تک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہیں۔ کہاں گئی وہ ریاست جو کہتی تھی ہم مظلوموں کے محافظ ہیں؟ کہاں ہے وہ بھارتی آئین جو بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے کہاں ہے وہ عالمی تنظیمیں جو جھوٹے ایوارڈ تقسیم کرتی ہیں کسی ملک کو دباؤ میں لانے کے لیے اور کسی ملک کے ایجنٹ کے طور پر اس کے مفادات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جیسا کہ ملالہ یوسف بھائی کو نوبل انعام سے نوازا گیا اس کا کیا تخلیقی کام تھا اور اس پر ہونے والے قاتلانہ ہم نے کی حقیقت بھی اج تک سامنے نہیں ائی
بھارت میں2019 میں متعارف کرایا گیا CAA قانون، جسے بھارت اقلیتوں کے لیے ایک نجات دہندہ قدم کہتا ہے، عملاً کاغذی وعدوں سے زیادہ کچھ نہ بن سکا۔ ہزاروں پاکستانی ہندو شناخت، تعلیم، صحت، حتیٰ کہ پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ بچے اسکول نہیں جا سکتے کیونکہ ان کے پاس شناختی دستاویزات نہیں۔ ایک پوری نسل ناخواندگی اور مایوسی میں پل رہی ہے۔جبکہاقلیتوں کے نام پر سیاست کا کاروبار جا رہا ہے پاکستان کے صوبہ سندھ سے جو ہندو برادری کے خاندان بٹوارے کی وجہ سے بھارت منتقل ہوئے تھے ان میں سے اکثر و بیشتر کو پاکستان کا جاسوس قرار دے کر قید و بند میں ڈال دیا جاتا ہے یا گولی کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے منافقت کی یہ حد ہے کہجب انتخابات قریب ہوں تو ہندو توا جیسے سیاستدان اقلیتوں کی محبت میں نعرے بلند کرتے ہیں، مگر انتخابات کے بعد یہی اقلیتیں اجنبی، بے بس اور نظر انداز کر دی جاتی ہیں۔ پاکستانی عوام کو سمجھنا چاہیے کہ بھارت کا تعصب صرف مسلمانوں تک محدود نہیں؛ وہ ہندو جو پاکستان سے گئے، وہ بھی اس امتیاز کا نشانہ بنے۔اب جو نریندر کی حکومت اور اس کے کارکن برملا کہنے لگے ہیں کہ بھارت لادینی ریاست نہیں ہے یعنی سیکولر ریاست نہیں ہے ہندوؤں کی ریاست ہے سمجھ میں نہیں اتا یہ ہندؤں کی ریاست کیسے ہیں کیا پاکستان سے منتقل ہونے والے ہندو ہندو نہیں ہے جب تقسیم ہند ہوئی تھی اس وقت ایک بڑی تعداد موجودہ بنگلہ دیش سے جو اس وقت مشرقی پاکستان تھا وہ بھی مغربی بنگال میں منتقل ہوئی تھی ان کا بھی کوئی پرسان حال نہیں تھا پاکستان میں اگر کسی شخص کی چھونگلیا(ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی) دکھ جائے تو عالمی تنظیم حقوق کی پائمالی کا نوحہ پڑھنا شروع کر دیتی ہے اور عالمی سطح پر سینہ کو بھی کرتی ہیں دیکھنے میں یہ ایا ہے کہ مختلف ممالک میں حقوق کے حوالے سے یا ازادی رائے کے حوالے سے یا جمہوری اقدار کے حوالے سے ڈھیروں تنظیمیں بنائی گئی ہیں لیکن ان کی کارکردگی ان مقاصد کو نہیں چھوٹی جس کی غرض سے ان کو وجود میں لایا گیا ہے ان کی کارکردگی کا مطالعہ کیا جائے تو یہ سب تنظیم ہے کسی نہ کسی طاقت کی پشت بانی کرتی ہیں ابھی حال ہی میں ناروے میں قائم ازادی راہے کے حوالے سے ایک تنظیم WEXF0 جس دنپاکستان کی ایک خاتون ایمان مزاری کو أ نر بخشا ہے ایمان مزاری کو یہ حالت کس بنیاد پر دیا گیا ہے اس سے پہلے ذرا ان کا پس منظر اشکارا کر دیتے ہیں یہ ایک مشہور معروف سابق خاتون صحافی شیرین مزاری کی صاحبزادی ہیں وہ بھی بہت اعلی تعلیم یافتہ تھیں یہ بھی بہت اعلی تعلیم یافتہ ہیں شیریں مزاری تحریک انصاف سے وابستہ ہو گئی اور صحافت سے کوچ کر گئی تحریک انصاف کے صف اول کے لیڈروں میں ان کا شمار ہونے لگا جب تحریک انصاف کو اقتدار ملنے لگا تو وزراء کی فہرست میں ان کا نام شامل نہیں تھا چنانچہ ٹوٹھ گئیں اور پارٹی کو چھوڑ دیا مختصر یہ کہ پارٹی نے ان کو بلا کر انسانی حقوق کی وزارت ان کے حوالے کر دی اور جب پارٹی کی حکمرانی کا دھڑن تختہ ہو گیا تو انہوں نے بھی اپنی عملی سیاست کا تختہ کر دیا اور کنارہ کش ہو گئی ایمان مزاری معروف وکیل ہیں ڈنبرا سے انہوں نے قانون کی حالت ڈگری لی ہے اور وہ بھی زیادہ تر مقدمات وہ لیتی ہیں جو انسانی حقوق کے حوالے سے پھیلے ہوتے ہیں یا پھیلائے گئے ہوتے ہیں اج تک یہ دیکھنے میں نہیں ایا کہ انہوں نے کبھی ایسے مظلوم کا کیس لڑا ہو جو واقعی اپنے حقوق کے حوالے سے حقدار تھا اور مظلوم تھا انہوں نے ان افراد کے مقدمات لڑے ہیں جو معروف بیانیہ رکھتے تھے یعنی ریاست کے خلاف سرگرم رہتے تھے چنانچہ اس مقدر بازی میں وہ پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کر نے اور پاکستان کے لیے دشواریاں پیدا کرنے میں ملوث رہتےWEXFO جیسی تنظیمیں پس پردہ ان افراد اور ان تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرتیں جن کے بیانیے ریاست کی سلامتی مفادات اور ریاست میں امن و امان کے خلاف موثر ہوتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ جو بھی ان تنظیموں کی جانب سے ایوارڈ یا الرٹ دیا گیا ہے وہ تنقید سے بالاتر نہیں ہے یہ سوال واقعی غور طلب ہے کہ کیا بعض اعزازات سیاسی مصلحتوں، میڈیا ہائپ یا مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے دیے جاتے ہیں
"نوبل سے لے کر نیشنل آنرز تک: اعزازات کی کھوکھلی سیاست”
– "عالمی ایوارڈز: عزت افزائی یا ذلت کا نیا پیمانہ ہے؟” این جی اوز، عالمی ادارے اور ممالک اکثر تعلقات بہتر بنانے یا مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے ایوارڈز کا استعمال کرتے ہیں۔ مثال: امریکی صدارتی تمغۂ آزادی (Medal of Freedom) کچھ متنازعہ شخصیات کو دینا۔
معیارات کی عدم شفافیت کا اندازہ نوبل امن انعام جیسے اعزازات کے انتخاب میں اکثر "جواز سازی” کا عنصر نظر آتا ہے۔ ملالہ یوسفزئی کی مثال کے علاوہ اوباما (2009)صدارت شروع کرنے کے فوراً بعد دیا گیا، جبکہ عملی کارنامے بعد میں سامنے آتے۔یاسر عرفات (1994) فلسطینی جدوجہد کے دوران دیا گیا، جبکہ امن عمل ناکام رہا- آنگ سان سو چی (1991) بعد میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف خاموشی پر تنقید ہوئی – خواتین کی تعلیم کے لیے پاکستان میں *صائمہ وحید* یا *نصرت جہاں* جیسی خواتین کو عالمی پلیٹ فارم نہیں ملا۔اس لیے کہ انہوں نے سچی اور لگن کے ساتھ جدوجہد کی ان کا کوئی سیاسی مفادات اور نہ کوئی مشکوک پشت بنائی تھی *وانگاری ماتھائی* جیسی خواتین کو دہائیوں کی جدوجہد کے بعد سراہا گیا۔
– جب نااہل افراد کو اعزازات ملتے ہیں، تو معاشرے میں مایوسی پھیلتی ہے- یہ عمل حقیقی محنت کشوں کے جذبے کوکچل دیتا
– *عزت افزائی صرف اُس صورت میں:* جب ایوارڈ حقیقی قربانی، مسلسل جدوجہد اور شفاف معیارات پر دیا جائے۔
– **ذلت افزائی اُس صورت میں – جب ایوارڈ سیاسی آلہ کار بن جائے۔
مشہور "متنازعہ” ایوارڈ یافتگان کی مثالیں
– *هنری کسنجر (نوبل امن 1973):* ویتنام جنگ میں کردار کے باوجود انعام دیا گیا۔
– *رابرٹ موگابے (کنفیوشس امن انعام 2015):* زمبابوے کے سابق آمر کو دیا گیا جس پر عالمی سطح پر تنقید ہوئی۔
– *جنید جمال (برطانیہ کا ایم بی ای 2022):* پاکستانی ڈاکٹر کو دیا گیا، لیکن سوال اٹھایا گیا کہ کیا یہ برطانیہ کی پاکستان میں سفارتی مصلحت تھی؟
ایمان مزاری کو انر دیناWEXFO کا متنازع فیصلہ ہے کیونکہ ایمان مزاری نے کوئی ایسی جدوجہد نہیں کی جو سچائی اور حقیقت پر مبنی ہو بلکہ وہ جدوجہد ہمیشہ ریاست کے خلاف رہی اس امر کا جائزہ لیں کہ بلکہ ایک اورزاویہ دیکھیے۔ حال ہی میں WEXFO (ورلڈ ایکسپریشن فورم) کی جانب سے معروف وکیل ایمان مزاری کو ایک انسانی حقوق کے علمبردار کے طور پر اعزاز دیا گیا۔ بظاہر یہ ایک مثبت خبر لگتی ہے، لیکن جب اس کی تہہ میں جھانکتے ہیں تو کئی سوالات سر اٹھاتے ہیں۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ (MOFA) نے اس فیصلے کو ملک کے داخلی حقائق کی صریح غلط تعبیر قرار دیا ہے۔ وزارت کے مطابق یہ ایوارڈ یا اعزاز نہ صرف متاثرینِ دہشت گردی کی آواز کو نظرانداز کرتا ہے بلکہ ایک سیاسی ایجنڈے کو انسانی حقوق کی چادر میں لپیٹ کر پیش کرنے کی کوشش ہے۔
ایمان مزاری کو وکیل کہا گیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ان عناصر کی نمائندگی کرتی ہیں جو ریاستی سالمیت کو چیلنج کرتے ہیں۔ ان کے مؤقف میں تعصب اور جانبداری واضح نظر آتی ہے۔ انہوں نے بلوچستان میں جافرا ایکسپریس حملے یا خضدار میں APS بس حملے پر کبھی زبان نہیں کھولی، مگر ان مظاہرین کی وکالت ضرور کی جن کے اقدامات سے سڑکیں بند ہوئیں اور عام بلوچ شہریوں کی زندگی متاثر ہوئی۔
ایسے وقت میں جب BLA جیسے تنظیموں کو پاکستان، برطانیہ، اور امریکہ میں دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے، ان سے جڑے افراد کا دفاع کرنا نہ صرف قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے بلکہ دہشت گردی کی بالواسطہ حمایت بھی ہے۔WEXFO نے نہ صرف زمینی حقائق کو نظر انداز کیا بلکہ انسانی حقوق کو ایک سیاسی تحریک میں بدل دیا اور یہ دہرا معیار ہےایک طرف دنیا خاموشی سے بھارتی ریاستی استحصال کا تماشا دیکھ رہی ہے، جہاں ہندو مہاجرین بھی محفوظ نہیں، اور دوسری طرف وہ شخصیات ایوارڈز کی مستحق ٹھہرتی ہیں جو دہشت گردوں کے قریب سمجھی جاتی ہیں۔
ان تضادات اور دوہرے معیارات کے درمیان، سچ، انسانیت اور انصاف گم ہوتے جا رہے ہیں۔ اقلیتیں، خواہ وہ بھارت میں ہوں یا پاکستان میں، سب سے پہلے انسان ہیں۔ ان کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے، نہ کہ انہیں عالمی سیاست کا مہرہ بنا دیا جائے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ اگر ایسے انرز پر احتجاج کیا ہے اور اسے ملک کی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے تو حق بجانب ہے
Author
-
صحافت میں ایک ممتاز کیریئر کے ساتھ ، میں نے یو ایس اے ٹوڈے اور وائس آف امریکہ کے نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیں ، اے ایف پی اور اے پی کے لیے رپورٹنگ کی ، اور ڈیلی خبرائن اور اردو نیوز جیسے بڑے آؤٹ لیٹس کے لیے بیورو چیف اور رہائشی ایڈیٹر سمیت سینئر کردار ادا کیے ۔
View all posts