Nigah

اسرائیل نے ایران پر حملہ کر کے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دیں

iran

اس وقت اسرائیل نے ایران پر براہ راست جو حملہ کیا ہے ،اسے "Operation Rising Lion” (رائزنگ لائن) کا نام دیا گیا — یہ حملہ 12-13 جون 2025 کی درمیانی رات (تقریباً صبح 3:30 بجے) شروع ہوا، جس میں اسرائیلی فضائیہ نے تقریبا 200 طیاروں کے ذریعے ایران کے مختلف اہداف پر بمباری کی ۔حملے کی تفصیلات کے مطابق اسرائیل کے جواہداف اور تباہی کے مقاصد تھے اس میں ایرانی نیوکلئیر پاور پلانٹس اور بیلسٹک میزائل ڈھانچے — بشمول نطنز ایسنچمنٹ فسیلٹی کو نشانہ بنایا گیا ۔اسرائیلی ذرائع کے مطابق نطنز کی سائیٹس توڑی گئیں، لیکن تابکاری یا یورینیم کے اخراج کا مسئلہ منظر عام پر نہیں آیا
بعض شہروں، مثلاً تبریز، قم، ہمدان، کرمان شاہ، اور تہران کے مختلف رہائشی/ملٹری زونز پر بھی حملے ہوئے ۔مغربی ذرائع ابلاغ جو یقینی طور پر اسرائیل کے حامی اور ناصر ہیں ان کے مطابق چار اعلیٰ ایرانی کمانڈرز مارے گئے جن میں
میجر جنرل حسین سلامی (IRGC چیف)
جنرل محمد باقری (چیف آف جنرل اسٹاف)
جنرل امیرعلی حجیزادہ
دیگر اعلیٰ ساینٹسٹ اور دفاعی مشیر شامل بتائےجاتے ہیں انہی مغربی ذرائع ابلاغ کا یہ بھی دعوی ہے کہ نواحی سانیٹسٹ بشمول فریدون عباسی اور محمد مہدی تہرانچی بھی مارے گئے ۔78 افراد کی ہلاکتیں اور 300 سے زائد زخمی ہیں اورکم از کم 78 افراد ہلاک ہوئے، جن میں عام شہری شامل ہیں،جب کہ یہ دعوی بھی کیا گیا ہے کہ سیویلین عمارتوں پر حملے اقرار شدہ؛ رہائشی علاقے تباہ ہوئے جو اطلاعات ایران سے موصول ہو رہی ہیں اس کے مطابق ایران بھی خاموش نہیں بیٹھا ہے اس نے بھی جوابی اقدامات کیے ہیں ایک اطلاع کے مطابق ایران نے 100سے زائد ڈرون اسرائیل کی جانب بھیجے، جن میں سے اسرائیلی دفاعی نظام نے زیادہ تر ناکارہ بنا دیئے ۔لیکن ایرانی ڈرونز کو ناکارہ بنانے کی خبریں غیر مصدقہ ہیں کیونکہ مغربی ذرائع ابلاغ کی ساری ہمدردیاں اسرائیل کے ساتھ ہیں لہذا اطلاعات یک طرفہ طور پر ا رہی ہیں یہ بھی دعوی کیا جا رہا ہے کہ
کئی ایرانی ڈرونوں کو عراق اور اردن نے بھی ہوائی حدود میں مار گرایا ۔لیکن عراق اور اردن کی حکومتوں نے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی اطلاع نہیں دی ہے نہ اس خبروں کی تردید کی ہے اور نہ تائید کی ہے یعنی تصدیق نہیں کی ایرانی حکومت نے جو اس حملے پر رد عمل ظاہر کیا ہے اس کے مطابق ایران نے اقوام متحدہ میں بیان دیا کہ یہ ایک اعلانِ جنگ ہے اور "شدید اور متناسب جوابی کارروائی” کا عندیہ دیا ۔
علی خامنہ‌ای نے شدید سزا کی دھمکی دی؛ مسعود پیروزکانی (صدر) نے قومی اتحاد اور ردعمل کا مطالبہ کیا ۔
ایران نے اعلان کیا کہ وہ 15 جون کی ایک مذاکراتی نشست ملتوی کردے گا ۔یاد رہے کہ امریکہ کے ساتھ ایران کے مذاکرات چل رہے تھے اور امریکی صدر نے یہ بیان دیا تھا کہ اسرائیل کو ایران پر حملہ کرنے کی فی الحال ضرورت نہیں ہے مسئلہ حل ہونے کے قریب ہے اس کے باوجود اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا

مغربی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایران اس وقت "اسٹریٹجک صبر” اختیار کر سکتا ہے تاکہ بہترین وقت پر محدود لیکن مؤثر حملہ کیا جائے ۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران ایک مختصر وقت کے لئے ایٹمی پروگرام پر وقفہ کر سکتا ہے مگر طویل مدت میں ممکنہ طور پر اسے مزید تقویت ملے گی، جیسا کہ عراق کے اوزیرک حملے کے بعد ہوا ۔
اگر ایران نے امریکی یا سعودی فوجی اڈوں پر حملہ کیا، تو صورتحال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے — خاص طور پر اگر ایران سے متعلق شدت پسند گروہوں کو بھی عمل میں لایا گیا ۔
م ایران کی طرف سے سعودی فوجی اڈوں پر حملے کا امکان نہیں ہے کیونکہ گزشتہ مہینوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری ائی ہے ،یہ اسرائیلی حملہ اب تک کا سب سے سنگین اور براہ راست پیشہ ورانہ میزائل حملہ ہے۔ ایران نے محدود لیکن فوری شروعاتی ردعمل دکھایا — خاص طور پر ڈرون حملے کی صورت میں۔ مستقبل قریب میں مزید جوابی کارروائی یا علُو جنگ کے امکانات برقرار ہیں، جبکہ صرف وقت ہی یہ بتا سکے گا کہ آیا ایران مکمل توازن برقرار رکھے گا یا نہ کر سکے گا۔طاقت کے توازن کے بارے میں بات کرنے سے پہلے ایران میںاسلامی انقلاب کے بعد ایران-اسرائیل کشیدگی: تفصیلی جائزہ لینا ضروری ہے1979 سے پہلے
ایران (شاہ محمد رضا پہلوی کے دور میں) اسرائیل کا قریبی اتحادی تھا۔
دونوں ملکوں کے درمیان:تیل کی تجارت”اسلحہ کی سپلائی”خفیہ تعلقات (Mossad & SAVAK)عراق اور عرب قوم پرستی کے خلاف مشترکہ مفادات تھے۔لیکن…1. اسلامی انقلاب 1979 کے بعد نظریات کا ٹکراؤ پیدا ہوا ،امام خمینیؒ نے انقلاب کے بعد اسرائیل کو "شیطان صغیر” قرار دیا (جبکہ "شیطان کبیر” امریکا کو کہا)۔جو غلط بھی نہ تھا،ایران نےاسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اسرائیل کے سفارتخانے کی عمارت فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کو دے دی۔
ایران نے فلسطینی مزاحمتی تحریکوں مثلاً حماس، اسلامی جہاد، اور بعد میں حزب اللہ کی کھلے عام حمایت شروع کی۔
2. اہم جنگیں، لڑائیاں، اور پراکسی وارز (1980 سے 2025 تک)1982 میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تاکہ فلسطینیوں اور حزب اللہ کو ختم کرے۔ایران نے فوراً حسب اللہ کی بقا کے لیےپاسداران انقلاب (IRGC) کے دستے لبنان بھیجے۔حزب اللہ کی بنیاد رکھی یہاں اس عمر کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ جب امام خمینی کی قیادت میں ایران میں انقلاب ایا جو بنیادی طور پر ایک اسلامی انقلاب تھا لیکن مغربی دنیا نے اور اس کے مضبوط تر ذرائع ابلاغ نے اس کو شیعہ انقلاب قرار دیا اور مسلمانوں کے مختلف مکتبہ فکر کے ذہنوں میں بھی یہ بات ڈالی گئی کہ ایران کا انقلاب شیعہ انقلاب ہے اسلامی انقلاب نہیں ہے جس سے مغربی دنیا کی سازشوں اور نیت کا پتہ چلتا ہے ایک اور بات بھی بہت اہم ہے وہ یہ ہے عملی طور پر ایران کے اسلامی انقلاب کے قائد امام خمینی تھے لیکن لوگوں میں اسلامی انقلاب کا شعور اجاگر کرنے اور نظریے کو فروغ دینے میں سب سے اہم کردار علی شریعت مداری کا تھا جو علامہ اقبال کے افکار سے اور جمال الدین افغانی کے افکار سے بہت متاثر تھے دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایران کا اسلامی انقلاب کی بنیاد علامہ اقبال اور جمال الدین افغانی کے افکار پر استوار ہے اور یہ دونوں یعنی علامہ اقبال رحمت اللہ علیہ اور جلال الدین افغانی شیعہ مسلک سے تعلق نہیں رکھتے تھے اور نہ کبھی ان کی سوچ مسلکی رہی ہے وہ صرف اسلام کے شہدائی تھے پہلا کراکسی حملہ حزب اللہ بمقابلہ اسرائیل (لبنانی سرزمین پر) کے درمیان ہوا جس کے بارے میں اسرائیل اور امریکہ نے ایران پر الزام لگایا کہ وہ اس میں شامل ہے،اگرچہ حماس سنی ہے اور ایران شیعہ، مگر دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اسلامی نظریے کے مطابق جڑے ہوئے ہیں چنانچہ ایران کے انقلاب کو شیعہ انقلاب کہنا بودا الزام ہے جو ان دونوں کے اتحاد سے صاف پتہ چلتا ہے مغربی ادھر ائے ابلاغ خاص طور پر صیہونی لابی کے ایجنٹ یہ الزام لگا کے ائے ہیں کہ ایران نےحماس کو مالی و اسلحی امداد فراہم کی لیکن اس کا ثبوت اج تک نہیں دیا گیا2006 میں اسرائیل بمقابلہ حزب اللہ 33 روزہ جنگ ہوئی جس میں حزب اللہ نے اسرائیلی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد کو یرغمال بنایا اس لڑائی کی بنا پراسرائیل نے لبنان پر بڑا حملہ کیا۔لیکن اس جنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہاسرائیل حزب اللہ کو مکمل شکست نہ دے سکا۔اس طرح خطے میںایران کا اثر و رسوخ بڑھا۔
کیا اسرائیل کو ایران پر حملے کا قانونی یا اخلاقی حق حاصل ہے؟
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ایران کا نیوکلیئر پروگرام فوجی نوعیت کا ہے۔
ایران نے بارہا اسرائیل کی تباہی کی بات کی (مثلاً "محو از صفحۂ ہستی”)۔
پری ایمپٹو (pre-emptive) self-defense کے تحت یہ حملہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے مطابق ہے۔حقیقت میں یہ عذر لنگ ہے اسرائیل کو کسی بھی طور پر نہ اخلاقی نہ قانونی نہ بین الاقوامی قانون نہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ایران پر حملہ کرنے کا اختیار حاصل ہونا نہیں ہےادھرایران اور دیگر ناقدین کا مؤقف ہے کہیہ حملہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے کیونکہ ایران نے اسرائیل پر حملہ نہیں کیا تھا۔ایران پر اسرائیل نےاقوام متحدہ سلامتی کونسل کی اجازت کے بغیر کیاجو کہ غیر قانونی ہے۔خود اسرائیل ایک نیوکلیئر پاور ہے لیکن کبھی IAEA کے دائرہ اختیار میں نہیں آیا۔ اقوام متحدہ کا قانون اور اصول وضاحت کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ چارٹر آرٹیکل 2(4) کسی ریاست کو دوسرے پر طاقت کا استعمال کرنے کی اجازت نہیں ،آرٹیکل 51 فقط حملے کے بعد دفاعی کاروائی جائز ہے، جب تک کہ سلامتی کونسل مداخلت نہ کرے یعنی سلامتی کونسل اجازت دے
عالمی عدالت انصاف (ICJ) کے مطابق یک طرفہ حملہ، بغیر سلامتی کونسل کی اجازت کے، غیر قانونی تصور ہوتا ہے چنانچہ ہر نقطہء نظر سے اسرائیلی حملہ غیر قانونی ہے ،اخلاقی نکتۂ نظرسے بھی کوئی جواز نہیں رکھتا اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ دوہرا معیار نہ رکھا جائے:اگر ایران کا ایٹمی پروگرام خطرہ ہے تو اسرائیل کا کیوں نہیں؟بین الاقوامی قانون کا اطلاق سب پر برابر ہونا چاہیے۔اسرائیل کی نیوکلیئر صلاحیت: کا جائزہ لیا جائے تو
اسرائیل کی ایٹمی حیثیت: "رسمی طور پر تسلیم شدہ نہیں مگر حقیقی طاقت”ہےاسرائیل NPT (Non-Proliferation Treaty) کا رکن نہیں
اس لیےوہIAEA معائنوں کا پابند نہیں ہےنہ ہیاس پر کوئی عالمی قانونی نگرانی کر سکتا ہے عالمی برادری کا ردعمل دوہرا معیار مقرر کرتا ہے اس بارےمیںامریکہ کی پالیسی کیاہوگئ ظاہر ہے وہ کس اصول کے تابع نہیں بلکہ اپنے مفادات پر ہی مبنی ہوگی جیسا کہجب دیکھا کہ اس اسٹریٹجک پارٹنر بھارت کو شکست ہورہی ہے غیر جانبداری کا لبادہ اوڑھ کر بھی اپنے دوست بھارت کو بچانے کے لیے جنگ بندی کرادی غزا میں اسے عالمی امن کا احساس نہیں اسرائیلی حملے سے ایران کو بے خبر رکھا وغیرہ امریکہ نے ہمیشہ اسرائیل کوخاموش حمایت دی ہے امریکا ہمیشہ اسرائیل کے نیوکلیئر پروگرام پر "خاموش” رہاہے
امداد سالانہ $3.8 بلین ڈالر کی فوجی امداد، اسرائیلی نیوکلیئر صلاحیت کو بالواسطہ مضبوط بناتی ہے
اقوام متحدہ میں تحفظ امریکہ نے اکثر ایسی قراردادوں کو ویٹو کیا جو اسرائیل کے ایٹمی پروگرام پر تنقید کرتیں
معاہدات سے چھوٹ امریکا نے اسرائیل کو NPT میں شامل ہونے پر کبھی مجبور نہیں کیا ان تمام عکاسی سے امریکی عزائم واضح ہو جاتے ہیں پاکستان پر افرین ہے کہ اس کے وزیراعظم نے اپنے حالیہ دورہ ایران کے موقع پر دو ٹوک انداز میں ایران کے نکلیر پروگرام کی حمایت کا اعلان کیا جو ٹو ک انداز کی سی دوسرے مسلمان ملک نے کبھی بھی نہیں دکھایا جو پاکستان نے کر دکھایا
دیگر عالمی ردعمل میں کئی ممالک اور اداروں نےIAEA اسرائیل پر تنقید کی لیکن عملی قدم نہیں اٹھایا ،عرب دنیا نےبارہا اقوام متحدہ میں آواز اٹھائی، لیکن امریکی ویٹو آڑے آیایورپی یونین زیادہ تر خاموش یا مصلحت پسند رہا Non-Aligned Movement ایران، پاکستان، بھارت اور دیگر نے با اسرائیل کی نیوکلیئر پالیسی پر اعتراض کیا
نتیجہ یہ رہا ہے کہ دنیا کا دوہرا معیار ہر مرتبہ سامنے اتا رہا
1. ایراننےIAEA کا رکن ہونے کے ناتے بارہا معائنے کی اجازت دی ایرانNPT پر دستخط شدہ ملک پھر بھی مسلسل پابندیاں سہتا رہا
2. اسرائیل:NPT سے باہرIAEA معائنوں سے مستثنیٰ پھر بھی دنیا کا خاموش تعاون کرتی رہی ہے اور کر رہی ہے
ان حالات اور واقعات سے یہنتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اسرائیل کا ایران پر حملہ:
قانونی طور پر مشکوکاخلاقی طور پر متنازع ہے ہے سیاسی طور پر عالمی دوہرے معیار کا مظہرایسا لگتا ہے کہ عالمی نظام طاقت کے ساتھ نرم ہو جاتا ہے، اور اصولوں کے ساتھ صرف کمزوروں پر سختی کرتا ہے۔

Author

  • صحافت میں ایک ممتاز کیریئر کے ساتھ ، میں نے یو ایس اے ٹوڈے اور وائس آف امریکہ کے نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیں ، اے ایف پی اور اے پی کے لیے رپورٹنگ کی ، اور ڈیلی خبرائن اور اردو نیوز جیسے بڑے آؤٹ لیٹس کے لیے بیورو چیف اور رہائشی ایڈیٹر سمیت سینئر کردار ادا کیے ۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔