اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں فلسطین کے لیے جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی کی قرارداد کو امریکہ کی طرف سے ویٹو کیے جانے نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا ہے کہ عالمی ادارے اب طاقتور اقوام کے مفادات کے کھل کر محافظ بن چکے ہیں، نہ کہ انسانیت کے۔ 15 رکنی سلامتی کونسل میں سے 14 ممالک نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، جن میں پاکستان بھی شامل تھا، لیکن امریکہ کے ایک "ویٹو” نے پوری دنیا کی اجتماعی آواز کو شٹ اپ کر دیا۔یہ وہی امریکہ ہے جس نے بظاہر خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن بنا رکھا ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ جب ظلم کا شکار فلسطینی بچے، عورتیں اور بوڑھے انسانیت کے نام پر آواز بلند کرتے ہیں، تو وہی امریکہ فاشسٹ صہیونی ریاست کے تحفظ میں دیوار بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اب تک 56 ہزار سے زائد فلسطینی، جن میں اکثریت معصوم بچوں اور خواتین کی ہے، شہید ہو چکے ہیں۔ اس قتل عام کو روکنے کے لیے پیش کی گئی قرارداد کا ویٹو کیا جانا دراصل انسانیت کے ضمیر پر طمانچہ ہے۔ اور امریکہ کا انسانیت دشمن چہرہ ہے ۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ اقوام متحدہ کا قیام ایک ایسے دور میں عمل میں آیا تھا جب دنیا ایک عالمی جنگ کے زخموں سے چور انسانیت لہو لہان تھی۔ لیگ آف نیشنز کا تجربہ ناکام ہو چکا تھا کیونکہ وہ بھی طاقتور ریاستوں کے مفادات کی نذر ہو گئی تھی۔ آج اقوام متحدہ بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔ دنیا کا رنگ بے گناہ انسانوں کے خون سے سرخی مائل ہوچکا ہے ۔جس کے زمہ دار ویٹو کا اختیار رکھنے والے ممالک (امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین) ہیں ۔ اگر انسانی مسائل کو اپنے اسٹریٹیجک مفادات پر قربان کرتے رہیں گے تو پھر اس ادارے کا وجود برقرار رکھنے کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز باقی نہیں بچتا۔ دنیا کو بجانے کے ویٹو پاور رکھنے والوں کو اس سے دستبردار ہونا ہوگا۔اس افسوسناک قرارداد کے ویٹو ہونے کے فوری بعد وائٹ ہاؤس میں ایک رنگارنگ تقریب کا انعقاد کیا گیا، جو بظاہر ایک الگ نوعیت کی تقریب تھی، مگر درحقیقت وہ اس سفارتی کامیابی کا جشن تھی جس کے ذریعے صہیونی ریاست کو ایک بار پھر کھلی چھوٹ دی گئی۔ انسانی لاشوں کے انبار، تباہ شدہ اسپتال، بھوک سے بلکتے بچے—یہ سب اس جشن کے پس منظر میں دھندلا دیے گئے۔آج کرہ ارض دھوئیں بھرے مکان میں بدل چکی ہے جہاں مکینوں کی آنکھیں جل رہی ہیں، مر وہ آنکھ ملتی نظر نہیں آرہی ۔سچائی نظر آنا نا ممکن ہو گیا ہے ۔جس کی وجہ سے عذاب ٹلتا دکھائی نہیں دیتا۔ جس کی وجہ اقوام متحدہ کی موجودہ ساخت، خاص طور پر ویٹو سسٹم، ظلم کو روکنے کے بجائے طاقتوروں کی ڈھال بن چکا ہے۔ہمیں سوچنا ہو گا کہ کیا اقوام متحدہ واقعی ایک غیر جانبدار عالمی ادارہ ہے یا صرف "متحد اقوامِ طاقتور” کا ایک سیاسی پلیٹ فارم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
قارئین محترم ا
اسرائیل اور فلسطین کا تنازعہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ یہ تنازعہ 1948ء سے شروع ہوا، جب اسرائیل کا قیام عمل میں آیا اور لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا۔
کئی دہائیوں کی نسلی تطہیر اور نسل پرستی نے اس بحران کو جنم دیا امن صرف عارضی جنگ بندی کا نہیں بلکہ اسرائیل کی جبر کے نظام کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔حالیہ برسوں میں غزہ، جہاں لاکھوں فلسطینی محصور ہیں، ایک کھلی جیل جیسی صورتِ حال اختیار کر چکا ہے۔ اسرائیل کی ناکہ بندی کی بدولت غزہ کے شہریوں کو قحط جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔ غزہ کی سرحد پر امدادی سامان سے لدے ہزاروں ٹرک کھڑے ہیں لیکن اسرائیلی ہٹ دھرمی کے آگے اقوام متحدہ اور دیگر ممالک بے بس نظر آتے ہیں۔ غزہ میں انسانیت سسک رہی ہے۔
گزشتہ چند ماہ میں اسرائیل کی طرف سے غزہ پر شدید بمباری کی گئی، جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہری شہیدہو گئے، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔ کھانے پینے کی اشیاء ناپید ہو چکی ہیں، اور پانی تک میسر نہیں۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری امداد نہ پہنچی تو 14 ہزارسے زائد بچے جلد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو غزہ کے بچوں کو بچانے کے لیے اب کاروائی کرنی چاہیے۔ اسرائیلی مظالم کھلے عام جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ غزہ پر جاری بمباری اور محاصرہ بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق شہری آبادی کو نشانہ بنانا، خوراک اور ادویات کی فراہمی کو روکنا جنگی جرائم کی بد ترین مثال ہے۔عالمی برادری اسرائیل کو ان مظالم پر جوابدہ بنائے، ہتھیاروں پر پابندی نافذ کرے اور اسرائیل کو بغیر کسی تاخیر کے ائی سی سی کے حوالے کرے۔عالمی طاقتوں کی خاموشی اور دوہرے معیار نے اسرائیل کے مظالم کو ہوا دی۔یورپی یونین کا موقف ایک اہم لمحہ ہے اسے اسرائیل اور اس کے ساتھیوں کو جواب دہ ٹھہرانے، قبضہ ختم کرنے، فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو یقینی بنانے جیسے حقیقی اقدامات کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ فلسطینی علاقوں پر قبضہ، گھروں کو مسمار کرنا، عبادت گاہوں پر حملے اور شہریوں کو نشانہ بنانا ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ یہ نظام نسلی امتیاز اور ظلم کی بنیاد پر کھڑا ہے، جسے ختم کیے بغیر امن ممکن نہیں۔
آئرلینڈ اور برطانیہ کے رہنماؤں کی طرف سے دیے گئے بیانات امید کی کرن ہیں۔ ان رہنماؤں نے غزہ میں فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ پاکستان بھی انہی مطالبات کی حمایت کرتا ہے اور دنیا بھر کی اقوام سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خاموشی توڑیں اور مظلوموں کی حمایت کریں۔جنگ بندی اور مکمل انسانی رسائی ضروری ہے۔ برطانیہ کی مذمت کو پابندیوں کے ساتھ ملانا چاہیے۔پاکستان فلسطین کے مسئلے کا حل دو ریاستی حل میں دیکھتا ہے۔ ایک ایسی صورت،جس میں فلسطینیوں کو اپنی خودمختار ریاست ملے ۔جب تک فلسطینیوں کو ان کا حقِ خود ارادیت اور آزادی نہیں ملتی، اس وقت تک خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں۔ یورپی یونین دنیا کا ایک طاقتور بلاک ہے۔ اگر وہ اسرائیلی مظالم کے خلاف واضح موقف اختیار کرے، تو اس کے اثرات عالمی سطح پر ہوں گے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ یورپ صرف بیانات نہ دے، بلکہ عملی اقدامات کرے۔ ان میں اسرائیل پر اسلحہ کی پابندی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات، اور فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت شامل ہو سکتی ہے۔
نسل پرستی اور اسرائیل کی فلسطینیوں پر مظالم کی تاریخ کئی دہائیوں پر مبنی ہے۔
اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل خاموش تماشائی نہیں رہنا چاہئیے۔ سلامتی کونسل عملی اقدام کرے، اسرائیل کے خلاف قراردادیں پاس کرے، اور انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنائے۔ اگر اقوام متحدہ نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو اس کا وجود اور وقار دونوں سوالیہ نشان بن جائیں گے۔ چین، روس، مسلم دنیا کا کردار دنیا کے دیگر بڑے ممالک جیسے چین، روس، ترکی اور مسلم دنیا کو بھی ایک واضح اور متحدہ موقف اختیار کرنا ہوگا۔ اگر اسلامی دنیا متحد ہو کر فلسطین کے حق میں آواز بلند کرے تو بین الاقوامی برادری پر دباؤ بڑھے گا۔ ساتھ ہی غیر مسلم ممالک کو بھی اپنے ضمیر کو جگانا ہوگا۔ اب وقت عمل کا ہے پاکستان یورپی یونین اور برطانیہ کے ان رہنماؤں کی اخلاقی قیادت کو سراہتا ہے جنہوں نے مظلوموں کا ساتھ دیا۔ غزہ کے بچے، خواتین اور معصوم عوام دنیا کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ ان کی نظریں عالمی ضمیر پر لگی ہوئی ہیں۔ اگر دنیا آج خاموش رہی تو کل یہ آگ ہر دروازے تک پہنچ سکتی ہے۔ انسانی ہمدردی، انصاف اور قانون کا تقاضا ہے کہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہوا جائے۔ وقت آ چکا ہے کہ انسانیت کو بچایا جائے، اور مظلوموں کے لیے انصاف کا راستہ کھولا جائے۔
Author
-
انیس الرحمٰن ایک مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اردو میں وہ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، اکثر ان موضوعات پر بصیرت انگیز تجزیے لکھتے ہیں۔ ای میل: