امریکہ اس وقت داخلی خلفشار کے سنگین مرحلے سے گزر رہا ہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امیگریشن ادارے ICE کو کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیے جانے کے بعد حالات سخت کشیدہ ہیں۔
گزشتہ چند روز کے دوران پولیس اور وفاقی اداروں نے مختلف تجارتی مراکز پر چھاپے مارے اور 100 سے زائد افراد کو گرفتار کیا لیکن عوامی غصے کی اصل وجہ کارروائی کا طریقۂ کار ہے یعنی بغیر وارننگ کے چھاپے، مسلح اہلکاروں کی بکتر بند گاڑیوں سے آمد، اور عوام کی گرفتاریوں کے مناظر۔
لاس اینجلس کی اکثریتی آبادی لاطینی امریکی اور میکسیکن نژاد افراد پر مشتمل ہے، اور انہی کو نشانہ بنائے جانے پر ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے ۔ پر امن مظاہرے جلد ہی پرتشدد جھڑپوں میں تبدیل ہو گئے، جن میں آتشزدگی، دھماکے، اور پولیس سے تصادم شامل ہیں۔
صورتحال کے پیشِ نظر، ٹرمپ نے ریاستی حکومت کی اجازت کے بغیر 2,000 نیشنل گارڈ اہلکاروں کو تعینات کر دیا، جسے گورنر گیون نیوزوم نے "سیاسی تماشہ” قرار دیا۔ شہر کی میئر نے خبردار کیا کہ یہ اقدام خانہ جنگی جیسے حالات کو جنم دے سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ محض امیگریشن پالیسی کا نہیں رہا بلکہ امریکی ریاستی نظام کے بحران کی علامت بن چکا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق لاس اینجلس کی موجودہ صورتِ حال نہایت سنگین ہے۔
پولیس کی گاڑیاں نذرِ آتش کی جا رہی ہیں سڑکوں پر پتھراو جاری ہے اور عوام غصے سے لبریز نظر آتے ہیں
یہ وہی ملک ہے جسے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کہا جاتا ہے جو دنیا کے معاملات پر اثرانداز ہوتا ہے مگر وہ بھی اپنے شہریوں کو زبردستی قابو میں رکھنے سے قاصر نظر آ رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ واقعی اپنی تاریخ کے ایک نازک ترین موڑ پر کھڑا ہے؟۔
ادھر ایلن مسک نے امریکی حکومت کو دھمکی دی ھے کہ وہ NASA کے خلابازوں کے لیے استعمال ہونے والے SpaceX کیپسولز کو غیر فعال کر دیں گے۔
امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ اسکا مکمل دفاع پرائیویٹ کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے۔انکے جہاز ، ٹینک اور میزائل سب پرائیویٹ کمپنیاں بناتی ہیں۔
سوشلزم کی نفرت میں امریکہ اتنا شدید نجکاری کی طرف چلا گیا کہ دفاع بھی حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہے۔
اسی لئے کمپنیاں جنگیں کرواتی ہیں۔صدر کمپنیوں کے لئے ایک قسم کی وکالت کا کردار ادا کرتا ہے اور عوامی ٹیکس سے اسلحہ خرید کر کسی نہ کسی جگہ جنگ چھیڑ دیتا ہے۔
یہی نہیں ان کا امریکی صدر پہ یہ دباؤ بھی ہوتا ھے کہ انکا جنگی سازوسامان بھی دنیا بھر میں فروخت کرواۓ۔
اب حالت یہ ہے کہ خلانورد بھی ایک پرائیویٹ بندے کی کمپنی پہ خلا میں جاتے ہیں، جو صدر سے لڑائی پہ کہتا ہے کہ میں تیری خلا میں جانے والی سواریوں کو اپنی خلائی گاڑی میں نہیں بیٹھنے دوں گا۔
قبل ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایلون مسک نے ڈیموکریٹ امیدواروں کی مالی مدد کی تو سنگین نتائج کا سامنا ہو گا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایلون مسک کے ساتھ میرا تعلق اب ختم ہو چکا ہے اور ایلون مسک کی تفتیش کے بارے میں کوئی بات نہیں کی انہوں نے کہا کہ ایلون مسک نے ڈیمو کریٹ امیدواروں کی مالی مدد کی تو انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہو گا اس سے قبل امریکی صدر اور دنیا کے امیر ترین فرد ایلون مسک کے درمیان ہونے والے جھگڑے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو مسک سے بات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
قارئین محترم ا
ایلون مسک کو گزشتہ دنوں شدید مالی دھچکا لگا کیونکہ ٹیسلا کے حصص میں 14 فیصد کی کمی واقع ہوئی جس سے مارکیٹ ویلیو میں 150 بلین ڈالر کی کمی اور ان کی مجموعی مالیت سے 27 بلین ڈالر کی کمی واقع ہوئی۔
یہ کمی مسک اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان گرما گرم عوامی تصادم کے بعد ہوئی، جس نے بعد میں مسک کی کمپنیوں سے حکومتی معاہدوں کو منسوخ کرنے کی دھمکی دی۔
اس ہنگامہ آرائی کے باوجود، ٹیسلا کے حصص کے بعد کے اوقات کی تجارت میں قدرے 0.8 فیصد اضافہ ہوا۔ مسک اب بھی 388 بلین ڈالر کے ساتھ فوربس کے ارب پتیوں کی فہرست میں سرفہرست ہیں، جو مارک زکربرگ ($236B) اور ٹرمپ ($5.4B) سے کہیں آگے ہیں۔
قارئین محترم ا حرف آخر یہ کہ
"یہ محض 2 طاقتور شخصیات کی لڑائی نہیں بلکہ ایک ایسی جنگ ہے جو سیاسی دھاروں، معاشی استحکام اور عالمی خلائی پروگراموں تک کو متاثر کر سکتی ہے”۔
سرمایہ کاروں نے Revenge-Rally کی امید پر خریداری شروع کی، اور اسٹاک 6 فیصد سے زیادہ اچھل گیا؛ مگر تجزیہ کار ڈین آئیوز خبردار کرتے ہیں کہ روبوٹیکسی لانچ جیسے بڑے منصوبے اس سیاسی اتھل پتھل سے دیرپا داغ لے سکتے ہیں۔
دوسری طرف اسپیس-ایکس کے مستقبل پر غیر معمولی دباؤ آ گیا ہے۔ صدر کی جانب سے 22 ارب ڈالر مالیت کے وفاقی معاہدے منسوخ کرنے کا عندیہ ملا تو مسک نے اشتعال میں آ کر اعلان کیا کہ “ڈریگن” خلائی جہاز فوراً ڈی کمیشر کر دیے جائیں گے،وہی کیپسول جو ناسا کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک عملہ پہنچانے کے لیے درکار ہیں۔ چند گھنٹوں بعد مسک نے ٹون نرم کیا، لیکن خلائی ماہرین نے یاد دلایا کہ امریکہ اس وقت عملے کی آمدورفت میں روسی سویوز پر انحصار ختم کر چکا ہے؛ ایسے میں اسپیس-ایکس کا متبادل ڈھونڈنا آسان نہیں۔
پارٹی سیاست بھی لرز اٹھی ہے۔ مسک نے گزشتہ صدارتی انتخاب میں ریپبلکن امیدواروں پر اندازاً 275 ملین ڈالر لٹائے تھے؛ اب وہ “ایighty-Percent Party” بنانے کی ٹوئٹر پولز چلا رہے ہیں، جس سے جی او پی کے ووٹ بینک کی تقسیم کا خدشہ اُبھرا ہے۔ ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر مائیک جانسن کی ثالثی کی کوششیں تاحال بے نتیجہ رہیں، جب کہ نائب صدر جے ڈی وینس صدر کا دفاع کرتے ہوئے مسک کو “ضرورت سے زیادہ جذباتی” قرار دے چکے ہیں۔
بین الاقوامی رنگ بھی کم دلچسپ نہیں۔ سابق روسی صدر دمتری میدویدیف نے مزاحاً پیش کش کی ہے کہ ماسکو اس جھگڑے کا “امن معاہدہ” کروانے کو تیار ہے ’فیس’ میں صرف اسٹارلنک کے شیئرز درکار ہوں گے۔ مسک نے اس پر ہنستے ہوئے ایموجی پھینکا، مگر کریملن کا طنزیہ تماشا واضح پیغام دیتا ہے: واشنگٹن کی اندرونی بدحالی روس کے لیے سفارتی آکسیجن بن سکتی ہے۔
یہ لڑائی صرف دو متکبر شخصیات کا “ٹویٹر کیج میچ” نہیں؛ یہ امریکہ کی اقتصادی ترجیحات، قومی خلائی ڈھانچے اور ریپبلکن جماعت کی اندرونی حرکیات کے لیے وجودی سوال بن چکی ہے۔ اگر صدر واقعی اسپیس-ایکس کے معاہدے منسوخ کرتے ہیں تو اگلی چاند اور مریخ مہمات تاخیر کا شکار ہو سکتی ہیں، اور امریکہ ایک بار پھر خلائی نقل و حمل کے لیے روس یا ممکنہ طور پر چین کی جانب دیکھنے پر مجبور ہو گا۔ اُلٹا اگر کانگریس مسک کے مطالبات مان کر بل میں ترامیم کرتی ہے تو صدر کی ’فِسکل کنزرویٹِزم‘ کی ساکھ متزلزل ہوگی۔
کمپیوٹر اسٹاک مارکیٹ کے گراف اوپر نیچے ناچ رہے ہیں، مگر اصل امتحان سیاسی گریویٹی کا ہے۔ طاقت کا یہ بازو مروڑ شاید دونوں کے لیے نقصان دہ ہو، مگر امریکی خلائی پروگرام اور عالمی سرمایہ منڈیوں کے لیے زلزلہ ثابت ہو سکتا ہے۔ واشنگٹن کو طے کرنا ہوگا کہ کیا وہ ٹرمپ بمقابلہ مسک کا یہ تماشہ جاری رکھ کر مستقبل کی معیشت اور مدار کو داؤ پر لگانا چاہتا ہے یا نہیں۔
Author
-
صحافت میں ایک ممتاز کیریئر کے ساتھ ، میں نے یو ایس اے ٹوڈے اور وائس آف امریکہ کے نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیں ، اے ایف پی اور اے پی کے لیے رپورٹنگ کی ، اور ڈیلی خبرائن اور اردو نیوز جیسے بڑے آؤٹ لیٹس کے لیے بیورو چیف اور رہائشی ایڈیٹر سمیت سینئر کردار ادا کیے ۔
View all posts