Nigah

برین ڈرین: ایک قومی المیہ

Brain Drain

برین ڈرین (Brain Drain) ایک ایسا عمل ہے جس میں ملک کے ذہین، ہنر مند، تعلیم یافتہ اور قابل افراد بیرون ملک ہجرت کر جاتے ہیں تاکہ انہیں بہتر روزگار، معیارِ زندگی، تعلیمی مواقع، اور محفوظ مستقبل حاصل ہو سکے۔ یہ مسئلہ صرف ترقی پذیر ممالک تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں موجود ہے، تاہم پاکستان جیسے ممالک میں یہ ایک سنگین اور خطرناک رجحان اختیار کر چکا ہے۔ پاکستان میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں نوجوان تعلیم مکمل کرنے کے بعد یا پیشہ ورانہ میدان میں کچھ تجربہ حاصل کرنے کے فوراً بعد ملک چھوڑ کر بیرون ملک جا بستے ہیں۔ یہ ہجرت بظاہر انفرادی فائدہ کے لیے ہوتی ہے، لیکن اجتماعی سطح پر ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ جب ایک ملک اپنے بہترین دماغوں سے محروم ہو جائے تو ترقی کی رفتار سست پڑ جاتی ہے، تحقیق اور جدت کے دروازے بند ہو جاتے ہیں، اور قوم مایوسی کا شکار ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں برین ڈرین کی کئی اہم وجوہات ہیں، جن میں سب سے نمایاں معاشی بدحالی ہے۔ نوجوانوں کو تعلیم کے بعد اپنی صلاحیتوں کے مطابق ملازمت نہیں ملتی جو ملازمتیں دستیاب ہیں ان میں تنخواہیں کم ، کام کا دباؤ زیادہ، اور ترقی کے مواقع محدود ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس مغربی ممالک یا مشرقِ وسطیٰ میں انہیں بہتر معاوضہ، جدید ٹیکنالوجی، پیشہ ورانہ تربیت، اور عزت و اطمینان کے ساتھ کام کرنے کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔

ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، توانائی کا بحران، اور بنیادی سہولیات کی کمی بھی نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرتی ہے۔ جب ایک تعلیم یافتہ نوجوان دیکھتا ہے کہ اس کے خواب اور محنت کا صلہ ملک میں نہیں ملے گا تو وہ بیرون ملک جا کر قسمت آزمانے کو ہی بہتر سمجھتا ہے۔

سیاسی عدم استحکام اور کرپشن بھی برین ڈرین کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔ پاکستان میں نظام حکومت اکثر انتشار کا شکار رہتا ہے، حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہوتا، اور میرٹ کی جگہ سفارش اور اقربا پروری کو فوقیت دی جاتی ہے۔ اس سے نوجوانوں میں مایوسی اور بددلی پیدا ہوتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی محنت اور قابلیت کی یہاں کوئی قدر نہیں، اس لیے وہ ایسی جگہ چلے جانا چاہتے ہیں جہاں ان کی صلاحیتوں کو تسلیم کیا جائے۔ عدالتی نظام میں تاخیر، قانون کی حکمرانی کی کمی، اور انصاف کی عدم فراہمی بھی ملک میں بے اطمینانی کو جنم دیتی ہے۔ بہت سے تعلیم یافتہ افراد اپنے اور اپنے خاندان کے بہتر مستقبل کے لیے ایسے ممالک میں منتقل ہو جاتے ہیں جہاں انہیں قانونی تحفظ حاصل ہو۔

برین ڈرین کا سب سے زیادہ اثر تعلیم اور تحقیق کے میدان میں محسوس ہوتا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی ادارے اپنے بہترین اساتذہ اور محققین سے محروم ہو رہے ہیں، کیونکہ انہیں باہر کے ممالک میں زیادہ تنخواہیں، جدید لیبارٹریز، اور تحقیق کے بہتر مواقع میسر آتے ہیں۔ نتیجتاً، ملک میں تحقیق کی رفتار سست ہو گئی ہے اور سائنسی و ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔ ہسپتالوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک، آئی ٹی کمپنیوں سے لے کر انجینئرنگ کے شعبے تک، ہر جگہ قابل افراد کی کمی ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانی اگرچہ زرمبادلہ بھیجتے ہیں جو ملکی معیشت کے لیے فائدہ مند ہے، لیکن وہ عملی طور پر ملک کی تعمیر و ترقی میں شامل نہیں ہو پاتے۔ یوں پاکستان ایک ایسے ملک میں تبدیل ہو رہا ہے جو دنیا کے لیے ٹیلنٹ پیدا کرتا ہے، لیکن خود اس سے فائدہ نہیں اٹھا پاتا۔

اگر برین ڈرین پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو اس کے نتائج مزید خطرناک ہو سکتے ہیں۔ ملک میں دماغی صلاحیت رکھنے والے افراد کی کمی سے فیصلہ سازی، پالیسی سازی، اور ادارہ جاتی ترقی متاثر ہو گی۔ تعلیمی معیار پست سے پست تر ہوتا چلا جائے گا، اور نئی نسل کو معیاری تعلیم اور مناسب رہنمائی سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ نوجوان نسل جب دیکھے گی کہ باصلاحیت افراد کو ملک چھوڑنا پڑتا ہے، تو وہ خود بھی یہی راستہ اختیار کرے گی۔ اس طرح ایک ذہین نسل بیرون ملک چلی جائے گی اور ملک صرف مسائل، غربت، اور نااہلی کا گڑھ بن کر رہ جائے گا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے، خودمختار بنے، اور عالمی سطح پر مقام حاصل کرے، تو ہمیں اپنے دماغوں کو ملک میں ہی روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔

برین ڈرین کو روکنے کے لیے حکومت، نجی شعبہ، اور تعلیمی اداروں کو مشترکہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہمیں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا ہو گا، تحقیقی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہو گا، اور جامعات کو مالی اور علمی طور پر خودمختار بنانا ہو گا تاکہ وہ طلبہ کو بہتر مواقع دے سکیں۔ دوسری طرف روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہوں گے خاص طور پر ہنر مند نوجوانوں کے لیے۔

اس سلسلے میں کرپشن کا خاتمہ، قانون کی حکمرانی، میرٹ کی بحالی، اور پالیسیوں میں تسلسل لانا ناگزیر ہے۔

نوجوانوں کو ایسا ماحول فراہم کرنا ہو گا جس میں وہ اپنے خوابوں کی تعبیر اپنے ہی ملک میں حاصل کر سکیں۔

ترقی یافتہ ممالک کی مثالوں سے ہمیں سیکھنا ہو گا کہ وہ اپنے ٹیلنٹ کی کس طرح قدر کرتے ہیں، اور ہمیں بھی اپنی افرادی قوت کو قیمتی سرمایہ سمجھنا ہو گا، نہ کہ بوجھ۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ ضروری ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے رابطہ برقرار رکھا جائے اور انہیں وطن واپس آ کر اپنی خدمات فراہم کرنے کی ترغیب دی جائے۔

حکومت ایسے پروگرامز متعارف کروا سکتی ہے جن میں واپسی پر خصوصی مراعات، تحقیقی گرانٹس، اور پروفیشنل مواقع فراہم کیے جائیں۔

جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے آن لائن یا ریسرچ پارٹنرشپس کے ذریعہ بھی ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم برین گین (Brain Gain) کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے برین ڈرین کے اس بہاؤ کو روکنا ہو گا۔

آخر میں، برین ڈرین کا مسئلہ صرف اعداد و شمار کا نہیں بلکہ ایک قومی المیہ ہے۔ جب ایک قوم اپنے ذہین ترین افراد کو کھو دیتی ہے، تو وہ اپنی شناخت، خودمختاری، اور ترقی کی صلاحیت سے بھی محروم ہو جاتی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسان کسی بھی قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتا ہے، اور اگر ہم نے اپنے اس سرمائے کی قدر نہ کی تو آنے والے وقتوں میں ہمیں اس کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ پاکستان کو اگر ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہونا ہے تو ہمیں اپنی افرادی قوت کو ملک کے اندر مواقع فراہم کر کے برین ڈرین کے اس رجحان کو روکنا ہو گا.

Author

  • ڈاکٹر سید حمزہ حسیب شاہ ایک تنقیدی مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتے ہیں، خاص طور پر ایشیا اور جغرافیائی سیاست پر توجہ دیتے ہیں۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اردو میں اور علمی اور پالیسی مباحثوں میں فعال طور پر حصہ ڈالتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔