Nigah

بھارتیہ جنتا پارٹی کا آپریشن سندور کے ذریعے عسکری و سیاسی جوا۔

 

بھارت کے گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں (بی جے پی) اور وزیر اعظم نریندر مودی ایک بار پھر اکثریتی جماعت بن کر ابھرے، مگر ماضی کی نسبت نشستوں میں واضح کمی، حلیف جماعتوں پر بڑھتا ہوا انحصار، اور مہنگائی، بے روزگاری، کسان تحریک، اور مسلم مخالف پالیسیوں پر عالمی دباؤ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاسی اثر و رسوخ کو کمزور کرنا شروع کر دیا۔

بی جے پی کے روایتی ووٹ بینک خاص طور پر شہری متوسط طبقے، ہندو انتہا پسند عناصر، اور دفاعی اداروں کے حامی حلقوں میں بھی سوالات اٹھنے لگے کہ کیا بی جے پی صرف جذباتی نعرے بازی کے سہارے حکمرانی جاری رکھ سکتی ہے؟
بھارتیہ جنتا پارٹی نے ماضی کی طرح اس بحران سے نکلنے کے لیے ایک بار پھر قومی سلامتی اور پاکستان دشمنی کے بیانیے کو آگے بڑھایا۔

یہی وہ تناظر تھا جس میں "آپریشن سندور”کیا گیا۔ یہ آپریشن صرف ایک فوجی کارروائی نہیں تھی، بلکہ یہ بی جے پی بکھرتے ووٹ بنک کو یکجا رکھنے کے لیے ایک ہمہ جہت سیاسی مہم کے لیے ضروری تھا۔ اس کا بنیادی مقصد ہی عوام میں بی جے پی کی پوزیشن کو دوبارہ مستحکم کرنا تھا۔

پاکستان پر بھارتی حملے کے فوری بعد بھارتی میڈیا بالخصوص مودی کی گودی میڈیا یعنی بھارتی سرکار کی بیانیہ پر چلنے والے میڈیا نے ایک بھرپور مہم کا آغاز کیا۔

ٹی وی چینلز، اخبارات، اور سوشل میڈیا پر یہ بیانیہ غالب تھا کہ:

* بھارت نے آزاد کشمیر میں اہم ٹھکانوں کو تباہ کر دیا ہے۔
* پاکستانی فوج کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔
* اسلام آباد اور لاہور پر بھارتی جھنڈا لہرایا جا چکا ہے۔
* پاکستان فوج نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

ان دعووں کے پیچھے زمینی حقائق کی کوئی شہادت موجود نہ تھی، مگر چونکہ بی جے پی اور اس کے اتحادی میڈیا ادارے ایک مشترکہ پیغام پر کام کر رہے تھے، اس لیے فوری طور پر عوام میں ان خبروں کو سچ مان لیا گیا۔ سوشل میڈیا پر جشن منایا گیا، اور بی جے پی کے حامیوں نے اسے نریندر مودی کی قیادت کا ایک اور کارنامہ قرار دیا۔

عین اس وقت جب بھارتی عوام فتح کا جشن منا رہے تھے، ایک حیران کن اعلان سامنے آیا: بھارت نے یکطرفہ سیز فائر کا اعلان کر دیا۔ یہ اعلان بی جے پی کے بیانیے کے مکمل برخلاف تھا۔ عوام اور غیر متعصب تجزیہ کاروں کے ذہنوں میں فوری طور پر سوالات اٹھنے لگے:

* اگر واقعی بھارت غالب تھا، تو جنگ روکنے کی کیا ضرورت تھی؟
* اگر پاکستانی فوج نے سرینڈر کر دیا تھا، تو مکمل فتح کیوں نہ حاصل کی گئی؟
* اگر کشمیر یا لاہور پر قبضہ ہو چکا تھا، تو پھر انہیں خالی کیوں کیا گیا؟

بین الاقوامی میڈیا نے بھارت کے سبھی دعووں کو جھوٹ قرار دیا۔

الجزیرہ، بی بی سی، نیویارک ٹائمز، اور واشنگٹن پوسٹ جیسے ذرائع نے بھارتی حکومت اور بھارتی میڈیا کے بیانیے پر سوالات اٹھائے۔

عالمی میڈیا کی رپورٹنگ میں کہا گیا کہ بھارتی حکومت عوام کو گمراہ کر رہی ہے، جبکہ پاکستان نے بہتر فوجی حکمت عملی، سفارتی مہارت، اور محدود ردعمل سے دنیا کی ہمدردی حاصل کر لی ہے۔

عالمی میڈیا کی یہ رائے نہ صرف بھارت کے بیانیے کے خلاف گئی بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی عالمی سطح پر پوزیشن کو بھی کمزور کیا، خاص طور پر مغربی ممالک میں جو بھارت کو ابھرتی ہوئی جمہوریت کے طور پر دیکھتے رہے ہیں۔

"آپریشن سندور” کے بعد ایک اور اہم سیاسی تبدیلی آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان سرد مہری کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ آر ایس ایس، جو بی جے پی کی نظریاتی ماں کہلاتی ہے ہمیشہ سے ہر بڑے ایشو پر پر بی جے پی کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی رہی ہے مگر اس بار آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت "آپریشن سندور” کے بعد سے مکمل خاموش ہیں، حالانکہ وہ ہمیشہ میڈیا میں کھل کر بولنے کے لیے مشہور ہیں۔

آر ایس ایس سربراہ کی یہ خاموشی معمول کی بات نہیں ہے۔ بھارت کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس قیادت کو یا تو بی جے پی کے "آپریشن سندور” کے فیصلے سے اختلاف تھا۔
یا وہ اس جھوٹ پر مبنی بیانیے سے خود کو الگ رکھنا چاہتی ہے۔
البتہ دونوں صورتوں میں اس خاموشی نے "سنگھ پریوار” کے اندرونی بحران کو نمایاں کر دیا ہے۔

لیکن اب پاکستان پر حملے میں ناکامی کے بعد یہ پارٹی کا اندرونی معاملہ نہیں رہ گیا۔ بھارتی عوام، خصوصاً نوجوان طبقہ، سوشل میڈیا پر شدید ردعمل کا اظہار کر رہا ہے۔

یوٹیوب، انسٹاگرام اور ٹوئٹر پر ویڈیوز، میمز، اور طنزیہ تبصرے ظاہر کرتے ہیں کہ عوام اب حکومتی بیانیے پر آنکھ بند کر کے یقین نہیں کرتے۔ بعض سابق فوجی افسران، ریٹائرڈ بیوروکریٹس، اور سیاسی تجزیہ کار بھی کھل کر بھارتی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں کہ اس نے جنگ چھیڑ کر اس کو ایک سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا ہے

قارئین محترم !

اس وقت بی جے پی کے سامنے کئی چیلنجز ہیں:

* بہار، مہاراشٹرا، جھارکھنڈ، اور خاص طور پر اتر پردیش میں آئندہ ریاستی انتخابات میں پاکستان مخالف نعرے شاید پہلے جیسے کارگر نہ ہو سکیں گے۔

* اپوزیشن جماعتیں اب عوام کی توجہ اصل مسائل کی طرف دلائی جائے: مہنگائی، کسان بحران، روزگار، تعلیم، اور صحت جیسے مسائل کی طرف دلا رہی ہیں۔

* ہندو نیشل ازم کی کشش اب پہلے جیسی نہیں رہی، پاکستان کو سبق سکھانے کی بات پر کئی سوال اٹھیں گے۔ رام مندر بن چکا۔ آرٹیکل 370 ہٹانے کا بھی وہ فائدہ دیکھائی نہیں دے رہا، جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس لیے بی جے پی کو اپنا بیانیہ ازسرنو تشکیل دینا ہوگا۔ اب صرف ہندوتوا، پاکستان دشمنی، اور میڈیا پروپیگنڈے پر انحصار کامیابی کا ضامن نہیں رہا ہے۔

بی جے پی نے "آپریشن سندور” کے ذریعے ایک عسکری اور سیاسی جوا کھیلا تھا، جو بری طرح ناکام ہوا ہے۔ مودی حکومت چاہتی تھی کہ وہ اس آپریشن کو پلوامہ اور بالا کوٹ کی طرح ہی اپنی سیاسی ساکھ کی بحالی کے لیے استعمال کرے۔ مگر اس بار اُسے لینے کے دینے پڑھ گئے ہیں۔

یہ صورتحال نہ صرف بی جے پی اور ہندوتوا سیاست بلکہ بھارت کی ریاست کے لیے بھی سخت خطرناک ہو چکی ہے۔ انتہا پسندی کے جس جن کو بی جے پی نے اپنے سیاسی فائدے کے لیے آزاد کیا تھا۔ اس کی انتخابی شکست کی صورت میں وہ بے قابو ہو کر ریاستی اداروں سے ٹکرا جائے گا۔ اور خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔

Author

  • ایک تجربہ کار صحافی ہیں جن کا 30 سال کا تحریری تجربہ ہے ۔انہوں نے ڈیلی مشرق ، ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی آج سمیت معروف اخبارات میں تعاون کیا ہے ۔:

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔