Nigah

بھارت کا سفارت کاری کے نام پر تماشہ

diplomacy
[post-views]

جب ملک اندر سے کھوکھلا ہو رہا ہو، معیشت لڑکھڑا رہی ہو، نوجوان بیروزگاری کی دہلیز پر کھڑے ہوں، اور کسان قرض تلے دب کر جان دے رہے ہوں، ایسے میں اگر کوئی حکومت بیرون ملک “سفارتی مشن” کے نام پر اپنے من پسند نمائندوں کو سیر و تفریح پر بھیجے، تو اسے سفارتکاری نہیں بلکہ قومی تماشہ کہا جائے گا۔ہم بات کر رہے ہیں بھارت کی ، جہاں مودی حکومت کی چھتری تلے “وفود کی یاترا” سفارت کے بجائے موج مستی اور ذاتی تشہیر کا ذریعہ بن چکی ہے۔گزشتہ چند ہفتوں میں بھارتی سفارتی وفود نے جن ممالک کا رخ کیا، وہاں ان کے “سفارتی مقاصد” کم اور شاپنگ، رقص و موسیقی، تصویریں اور ذاتی تشہیر زیادہ نمایاں رہی۔ یہ وفود جنہیں اپنے ملک کا موقف واضح کرنا تھا، غیر ملکی شہروں میں سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی طرح پوز دیتے، قہقہے لگاتے، اور پارٹیوں میں ساز و آواز سے لطف اندوز ہوتے پائے گئے۔ عوام کا پیسہ، جس سے دوائی، تعلیم، بجلی اور روزگار مہیا ہونا چاہیے تھا، وہ سنگیت کی دھنوں میں جھومتے “ڈپلومیٹس” پر خرچ کیا گیا۔ کبھی سنجیدہ اور باوقار سفارتکاری کے لیے پہچانے جانے والے ششی تھرور، اب مغربی تقریبات میں گٹار کے ساتھ بےسرا راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔ افسوس کہ یہ وہی تھرور ہیں جنہوں نے اقوامِ متحدہ میں بھارتی مؤقف کی نمائندگی کی تھی۔ لیکن اب وہ انسٹاگرام پر وائرل ہونے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ دوسری جانب مولانا اسدالدین اویسی، جن کی شناخت ایک مذہبی اور سیاسی رہنما کی تھی، وہ بھی ان تفریحی دوروں میں موسیقی کی محفلوں کے جلوہ گر بنے ہوئے ہیں۔ لگتا ہے اب ان کا “روحانی سفارتکاری” کا نیا باب شروع ہو چکا ہے، جہاں نہ کشمیر موضوع ہے نہ اقلیتوں کے حقوق۔ صرف تماشا لگائے رکھا۔فرانس، انڈونیشیا، کولمبیا سمیت جن 35 ممالک میں بھارتی وفود نے قدم رکھا، وہاں کسی سنجیدہ عالمی لیڈر نے ان سے ملاقات کرنا تک گوارا نہ کیا۔ نہ کوئی مشترکہ اعلامیہ، نہ کوئی حمایت، نہ ہی
مقبوضہ کشمیر یا پاکستان مخالف بیانیے کو کسی نے اہمیت دی۔
انڈونیشیا میں عوامی احتجاج نے وفد کو ہوٹل تک محدود کر دیا۔ کولمبیا میں ایک مقامی اخبار نے ان کے دورے پر تبصرہ کیا: "یہ سفارتکاری ہے یا یوٹیوب وی لاگ؟”بھارت کے اخبارات انڈیا ٹوڈے، دی ہندو، ٹائمز آف انڈیا اور دیگر نے بھی دورے کو سیر وتفریح ،میوزیکل کنسرٹس اور سوشل میڈیا انفلوئنسررقرار دیا۔ فرانس میں ثقافتی شام کو “بھارتی سفارتی مشن” کہنا انڈین عوام کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے۔
ششی تھرور کا بیان، جس میں انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے نریندر مودی کی تعریف کر دی، خود ان کی جماعت (کانگریس) کی پالیسی سے متصادم ہے۔ ایک طرف مخالفت کا دعویٰ، دوسری جانب اقتدار کے گیت! یہ تضاد بھارتی سیاست کے فکری دیوالیہ پن کا ثبوت ہے۔وفود میں شامل افراد خود بھی نہیں جانتے کہ ان کا ایجنڈا کیا ہے؟ اقلیتوں کے لیے آواز اٹھانی ہے یا انتہا پسند بیانیے کا دفاع؟ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر پردہ ڈالنا ہے یا نام نہاد اقتصادی ترقی کی کہانی سنانی ہے؟
یہ وفود کوئی رضاکار تنظیمیں نہیں، نہ ہی نجی خرچے پر بیرون ملک گئے ہیں۔ یہ سب کچھ عوام کے ٹیکس سے کیا جا رہا ہے۔ وہی عوام جو ہر دن مہنگائی، بیروزگاری، غربت اور دیگر بنیادی مسائل سے نبردآزما ہیں۔ حکومت ان کا پیسہ تصویری سیشنز، پرتعیش عشائیوں اور “سیلفی سفارتکاری” پر ضائع کر رہی ہے۔
14کروڑ بھارتی روپے سے زائد ٹیکس کا پیسہ، وزیروں کے وی لاگ پر اڑادیا گیا۔مودی سرکار جس “نیو انڈیا” کا خواب دکھاتی ہے، اس کا اصل چہرہ یہی ہے، نمائندے ہنس رہے ہیں، عوام رو رہے ہیں۔
سفارتی دوروں کے بعد بھارتی میڈیا جھوٹی خبروں سے ماحول بناتا ہے کہ “دنیا نے بھارتی مؤقف کو سراہا”، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ ہو یا یورپی یونین، کہیں سے بھی بھارت کو کشمیر یا پاکستان مخالف بیانیے پر حمایت نہیں ملی۔جنوبی ایشیا میں بھارت تنہا ہو رہا ہے۔ نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش تک نئی صف بندی میں بھارت سے فاصلے پر ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں بھارت کے خلاف عوامی ردعمل بڑھ رہا ہے۔ اور مغرب میں اسے ایک کارپوریٹ منڈی تو سمجھا جا رہا ہے، مگر ایک ذمہ دار ریاست نہیں۔
یہ حقیقت چھپائی نہیں جا سکتی کہ بھارتی سفارتکاری اب ایک تماشا بن چکی ہے۔ دنیا ہنس رہی ہے، عوام کڑھ رہے ہیں، اور حکمران محوِ رقص ہیں۔ جب قومی وقار کو یوٹیوب ویڈیوز، انسٹاگرام پوسٹس اور میڈیا منیجمنٹ میں بدل دیا جائے، تو عالمی اعتماد کا زوال یقینی ہوتا ہے۔
بھارتی وفود کو اگر واقعی قوم کا درد ہوتا، تو وہ سنگیت کی محفلوں میں جھومنے کے بجائے دنیا کے سامنے سنجیدہ سفارتی مؤقف رکھتے۔
ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ بھارت کی ہٹ دھرمی، جھوٹے بیانیے، مقبوضہ کشمیر میں
مظالم ، اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے اور پے در پے عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کی موجودگی میں دنیا کس اخلاقی جواز کے تحت اس کے سفارتی مشنز کو اہمیت دیتی۔ اسی لئے بھارت کا سفارتکاری ماڈل “ساز بجاؤ، سیلفی لو، واپس آ کر کامیابی کا جشن مناؤ!” تک رہ گیاہے۔

Author

  • ایک تجربہ کار صحافی ہیں جن کا 30 سال کا تحریری تجربہ ہے ۔انہوں نے ڈیلی مشرق ، ڈیلی ایکسپریس اور ڈیلی آج سمیت معروف اخبارات میں تعاون کیا ہے ۔:

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔