جنوبی ایشیا، جو دنیا کے سب سے گنجان آباد خطوں میں سے ایک ہے، گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاسی کشیدگی، تنازعات اور سفارتی تعطل کا شکار ہے۔ پاکستان، بھارت، نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا اور دیگر ہمسایہ ممالک اگرچہ جغرافیائی، ثقافتی اور تاریخی اعتبار سے ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں، تاہم ان کے درمیان تعاون کی فضا بدستور مفقود ہے۔ اس صورتحال کی ایک بڑی اور مستقل وجہ بھارت کا کثیرالجہتی (Multilateralism) سفارتی عمل سے انکار اور صرف دو طرفہ (Bilateral) مکالمے پر اصرار ہے۔
کثیرالجہتی سفارت کاری کی اہمیت
کثیرالجہتی سفارت کاری بین الاقوامی تعلقات کا بنیادی ستون ہے جہاں کئی ممالک ایک پلیٹ فارم پر آ کر اجتماعی مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ چاہے وہ اقوام متحدہ ہو، جنوبی ایشیائی تنظیم برائے علاقائی تعاون (SAARC)، یا دیگر علاقائی فورمز، ان کا مقصد مختلف ریاستوں کو باہمی اختلافات دور کر کے امن، ترقی اور تعاون کو فروغ دینا ہوتا ہے۔
جنوبی ایشیا جیسے حساس خطے میں جہاں سرحدی تنازعات، آبی مسائل، دہشتگردی، تجارتی تعطل اور سیاسی بداعتمادی جیسے مسائل درپیش ہوں، وہاں کثیرالجہتی مکالمہ ناگزیر ہے۔ مگر بھارت کی جانب سے ان پلیٹ فارمز کو غیر مؤثر بنانے کی پالیسی نہ صرف امن کے امکانات معدوم کر رہی ہے بلکہ خطے کو مسلسل کشیدگی کی لپیٹ میں رکھے ہوئے ہے۔
دو طرفہ طرزِعمل کی ناکامی
بھارت کی پالیسی ہمیشہ اس مؤقف پر رہی ہے کہ وہ تمام علاقائی تنازعات خصوصاً پاکستان سے متعلق معاملات صرف دو طرفہ بنیاد پر حل کرے گا۔ اس پالیسی کی بنیاد بظاہر "خودمختاری” اور "داخلی امور میں عدم مداخلت” پر رکھی گئی ہے، لیکن عملی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کسی بھی تیسرے فریق کو ثالثی کا موقع دینے سے انکار کرتا ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود بھارت مسلسل بین الاقوامی ثالثی سے انکاری رہا ہے۔
اس پالیسی کی وجہ سے سفارتی عمل بند گلی میں داخل ہو چکا ہے، جہاں دونوں ممالک کی جانب سے اعتماد کی شدید کمی مذاکرات کو بے نتیجہ بنا چکی ہے۔ بھارت کا یہ رویہ درحقیقت ایک سچائی کو چھپانے کی کوشش ہے — کہ اگر بین الاقوامی ثالثی کو موقع دیا گیا تو کئی حقائق دنیا کے سامنے آ سکتے ہیں۔جس سے بھارت کا مکروہ چہرہ مزید بے نقاب ہوسکتا ہے۔
ٹرمپ کی ثالثی اور بھارت کا انکار
2019 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح طور پر کہا تھا کہ اگر دونوں ممالک چاہیں تو امریکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کے لیے تیار ہے۔ پاکستان نے اس پیشکش کا خیرمقدم کیا، لیکن بھارت نے اسے یکسر مسترد کر دیا۔ اس انکار نے واضح کر دیا کہ بھارت کو ثالثی سے نہیں بلکہ مسئلہ حل ہونے سے خدشات ہیں، کیونکہ مسئلہ کشمیر جیسے تاریخی تنازع کا شفاف حل اس کی علاقائی سیاست پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
علاقائی تنظیموں کی غیر فعالیت
جنوبی ایشیائی ممالک کے مابین تعاون کے لیے سارک جیسے فورمز کا قیام امید کی کرن تھا۔ تاہم بھارت نے 2016 کے بعد سے پاکستان کی میزبانی میں ہونے والی ساعک کانفرنس کا مسلسل بائیکاٹ کیا ہے، جس کی وجہ سے یہ تنظیم تقریباً غیر فعال ہو چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں خطے میں مشترکہ تجارتی، تعلیمی اور ماحولیاتی منصوبے تعطل کا شکار ہیں۔
اسی طرح بھارت نے علاقائی توانائی و تجارت کے کئی منصوبوں کو بھی سکیورٹی خدشات یا سیاسی اختلافات کی بنیاد پر روک دیا، جیسے ایران-پاکستان-بھارت گیس پائپ لائن، جو خطے کے لیے توانائی کا بڑا ذریعہ بن سکتی تھی۔
بھارت کی نام نہاد خودمختاری یا قومی مفاد؟
بھارت بارہا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ علاقائی امن کا خواہاں ہے، لیکن اس کا عمل اس دعوے کی نفی کرتا ہے۔ خطے میں جب بھی تعاون کی کوششیں سامنے آتی ہیں، بھارت انہیں قوم پرستی خودمختاری یا داخلی سکیورٹی کے نام پر سبوتاژ کر دیتا ہے۔ درحقیقت یہ قوم پرستی نہیں بلکہ ہمسایہ ممالک پر غلبہ حاصل کرنے کی خواہش ہے۔
جب کوئی ملک دوسرے ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کرنے کے بجائے ان سے اطاعت چاہے تو وہ سفارتی ماحول کو زہر آلود کر دیتا ہے۔ بھارت کی موجودہ پالیسی دراصل خطے میں "طاقت کی سیاست” (Power Politics) پر مبنی ہے، نہ کہ "امن کی تلاش” پر۔
اثر و رسوخ میں کمی
بھارت کا بار بار علاقائی تعاون سے انکار اس کے اپنے اثر و رسوخ کو بھی محدود کر رہا ہے۔ جب بھارت ہمسایہ ممالک کے ساتھ براہِ راست تعاون سے گریز کرتا ہے تو یہ ممالک ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں۔ پاکستان نے چین کے ساتھ سی پیک جیسے منصوبے شروع کیے، نیپال نے بھارت کے بجائے چین سے انفرا اسٹرکچر منصوبے حاصل کیے، سری لنکا اور بنگلہ دیش بھی دیگر عالمی طاقتوں سے تعاون کی راہ پر گامزن ہیں۔
یوں بھارت کا وہ خواب کہ وہ خطے کا لیڈر بنے، خود اس کی پالیسیوں کی وجہ سے ادھورا رہ گیا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر تاثر
بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ جو ملک اپنے خطے میں تعاون پر آمادہ نہیں، وہ عالمی سطح پر کس طرح ذمہ دار کردار ادا کر سکتا ہے؟ بھارت کا کثیرالجہتی سفارت کاری سے انکار عالمی برادری میں بھی شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے، خاص طور پر اس کی حقیقی امن پسندی پر۔
حل اور تجاویز
اس سنگین صورتحال سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ بھارت اپنی خارجہ پالیسی میں لچک پیدا کرے اور بین الاقوامی ثالثی کو تسلیم کرے۔
سارک جیسے علاقائی فورمز کو ازسرنو فعال کیا جائے اور بھارت کو ان میں سنجیدہ شرکت کی ترغیب دی جائے۔
عالمی برادری بھارت پر سفارتی دباؤ ڈالے کہ وہ خطے میں مشترکہ مسائل کے حل کے لیے اجتماعی تعاون پر آمادہ ہو۔
جنوبی ایشیائی ممالک مل کر بھارت کو یہ باور کرائیں کہ علاقائی ترقی صرف باہمی تعاون سے ممکن ہے۔
جنوبی ایشیا کو امن، ترقی اور استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن جب تک بھارت کثیرالجہتی تعاون سے گریز کرتا رہے گا، خطہ تنازعات، بداعتمادی اور سفارتی تعطل کا شکار رہے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ بھارت ایک ذمہ دار ریاست کی طرح اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے، اور اپنی علاقائی بالادستی کی سوچ کو ترک کر کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کرے۔ تبھی جنوبی ایشیا پُرامن اور خوشحال مستقبل کی طرف بڑھ سکتا ہے۔
Author
-
سینئر رپورٹر، اے آئی کے نیوز
یکم فروری 2024 تا 28 فروری 2025بیورو چیف، پی این این، پشاور
جنوری 2023 تا جنوری 2024بیورو چیف، بول نیوز، پشاور
16 جنوری 2017 تا 31 جنوری 2023سینئر نامہ نگار، جیو نیوز، پشاور بیورو
22 جون 2008 تا 15 جنوری 2017سب ایڈیٹر، روزنامہ آج، پشاور
16 فروری 2005 تا 21 جون 2008رپورٹر، روزنامہ جہاد، پشاور، پاکستان
یکم دسمبر 2003 تا 15 فروری 2005رپورٹر، روزنامہ مشرق، پشاور
فروری 2000 تا 30 نومبر 2003