Nigah

تیسری عالمی جنگ ، نیا موڑ ، روسی جنرل کا بڑا بیان

world war

روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے اعلیٰ ترین جنرلوں میں سے ایک نے اعلان کیا ہے کہ عالمی جنگ III پہلے ہی جاری ہے، ایران پر اسرائیل کے حالیہ فوجی اقدام کے بعد عالمی تناؤ میں اضافہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے

برطانوی اشاعت مرر کے مطابق، میجر جنرل آپٹی الاؤڈینوف، جو کہ روس کی عسکری قیادت کی ایک سینئر شخصیت اور چیچنیا کی اخمت اسپیشل فورسز کے کمانڈر ہیں، نے کریملن سے 10 لاکھ تک فوجیوں کو بڑے پیمانے پر متحرک کرنے کا آغاز کرنے کا مطالبہ کیا۔

اسرائیل کے ڈرامائی حملے کے بعد بات کرتے ہوئے، علاؤدینوف نے کہا کہ عالمی تنازعہ اب "ایک نیا موڑ اور ایک نئی رفتار اختیار کر چکا ہے”، جس نے روس پر زور دیا کہ وہ وسیع تر تصادم کی تیاری کرے۔

51 سالہ الاؤڈینوف اس وقت روسی مسلح افواج کے مرکزی فوجی سیاسی نظامت کے نائب سربراہ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، جو مسلح افواج میں نظریاتی کنٹرول اور پروپیگنڈے کے ذمہ دار ہیں

قارئین کرام ا

20 ماہ سے جاری بے رحمانہ نسل کشی کے بعد پہلے بار بڑے پیمانے پر اسرائیل پر حملہ ہوا ہے۔ ایران نے صہونی جارحیت کا جواب ballistic اور supersonic missiles کے ساتھ دیا جو امریکہ اور اسرائیلی Iron Dome کو چیرتا ہوا اسرائیل داخل ہوا۔ سب سے خوش آئیند بات یہ ہے کہ اسرائلی فوج کے ہیڈکوارٹر، Hakirya، جو مشرقی وسطی میں بربریت کا مرکز ہے، پر بھی مزائل گرے۔ یہ مناظر دیکھ کر غزہ سمیت دنیا بھر میں فلسطین کے حمایتیوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ ایران نے وہ کردکھایا ہے جو اقوام متحدہ کو کرنا چاہئے تھا۔ اور یہ سب اقتصادی پابندیوں اور اسرائیلی، امریکی، اور خلیجی گٹھ جوڑ کے باوجود کیا ہے۔

خدارا اس مسئلے کو نہ فرقہ وارانہ معاملہ بنائیں اور نہ ہی ایران میں انسانی حقوق کا رونہ ڈالیں۔ یہ دونوں پہلو اس وقت صہونی ریاست اور استعماری میڈیا اچھال رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہزاروں لاکھوں نہتے بچوں اور عورتوں کا قتل کیا ہے لیکن ایران پر نسل کش ریاست کی جارحیت کے وقت انہیں عورتیں کی آزادی اور جمہوریت کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے سامراج نے ہمارے ملکوں میں ایسے گروہ پیدا کئے ہیں جو لبرل اور لیفٹ کے نام پر مغربی استعمار کے ساتھ مل جاتے ہیں، خصوصی طور پر جب بھی کوئی بیرونی حملہ کیا جاتا ہے۔ بحران کی خصوصیت ہی یہ ہوتی ہے کہ چہروں سے نقاب آٹھ جاتا ہے۔ ہم جس ترقی پسند روایت سے ہے وہ مغربی سامراج اور اس کے ایجنٹوں، چاہے وہ ریاستی یونیفارم میں ہوں یا اپوزیشن میں، ان کے خلاف جدوجہد کرنے کی روایت ہے۔ واشنگٹن یا دہلی یا اسرائیل سے آزادی کی بھیک مانگنے والے نہ کبھی ہمارے ساتھی تھے، نہ کبھی ہمارے ساتھی ہوسکتے ہیں۔

آج دنیا ایران کا حوصلہ دیکھ کر جشن منارہی ہے۔ لیکن ابھی بھی آگے ایک لمبی رات ہے۔ ایک بات طے ہوگئی کہ صہونی ریاست کو دنیا بھر کے عوام نے نہ کبھی قبول کیا ہے نہ کریں گے۔ ہم اس دنیا کے لئے لڑ رہے ہیں جس میں صرف ایران نہیں، تمام دنیا کے ممالک اپنی عسکری قوت استعمال کرکے صہونی قوتوں کو شکست دیں تاکہ نسل کش اسرائیلی ریاست کی جگہ دریائے اردن سے بہرہ روم تک ایک ایسی ریاست قائم ہوسکے جس میں تمام انسان برابر کے شہری ہوں۔ اس کا ریاست نام فلسطین ہوگا

قارئین محترم ا

آج دنیا ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں جنگ کی گھن گرج کی جگہ امن کی آواز سنائی دینے لگی ہے۔ ماضی کی جنگی پالیسیوں اور طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے بنائے گئے اتحاد آج ایک نئے عالمی وژن کے تحت تبدیلی کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ اس ضمن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وہ کوششیں قابلِ ذکر ہیں جن میں انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ممکنہ جوہری جنگ کو روکنے کا دعوی کیا۔ ان کے بقول، یہ ایک ایسا قدم تھا جو کوئی اور نہیں اٹھا سکتا تھا .ٹرمپ نے وائٹ ہاس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دونوں ممالک کو باور کروایا کہ کشمیر جیسے دیرینہ مسئلے پر دشمنی ترک کر کے مذاکرات کا راستہ اپنانا ہوگا، ورنہ تجارتی تعلقات معطل کیے جائیں گے۔ ان کے بقول، یہی دبا مثر ثابت ہوا اور بھارت و پاکستان ایک ممکنہ جنگ کے دہانے سے واپس آگئے۔یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا کہ ٹرمپ نے پاک بھارت کشیدگی میں ثالثی کی پیشکش کی ہو۔ وہ ایک درجن سے زائد بار اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ انہوں نے دونوں ممالک کے بیچ جنگ روکنے میں کردار ادا کیا۔ تاہم، ہر بار بھارتی حکومت، خصوصا مودی سرکار، اس بیان پر سخت ردِ عمل دیتی ہے، جبکہ بھارتی حزب اختلاف اسے مودی حکومت کی ناکامی اور سریندر کے طور پر پیش کرتی ہے۔یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے بھی اس امید کا اظہار کیا تھا کہ صدر ٹرمپ اپنے دور میں مسئلہ کشمیر کو حل کرا سکتے ہیں۔ ان کے مطابق، ٹرمپ وہ واحد شخصیت تھے جنہوں نے ناممکن سمجھے جانے والے فریقین کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا۔عالمی منظرنامہ بھی تیزی سے بدل رہا ہے۔ چین کی دفاعی صنعت کی ترقی اور مغرب میں وار انڈسٹری کی اجارہ داری کا خاتمہ عالمی قوتوں کو اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ اب وہ تضادات پیدا کرنے کی بجائے تنازعات ختم کرنے کی کوششوں پر زور دے رہے ہیں۔ اگر واقعی عالمی طاقتیں اس سمت میں سنجیدہ ہیں، تو مسئلہ کشمیر ان کے لیے ایک امتحان اور ایک موقع ہے۔حل کی جانب ممکنہ راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔مسئلہ کشمیر صرف دو ممالک کے درمیان زمینی تنازعہ نہیں، بلکہ کروڑوں انسانوں کے مستقبل، امن اور انسانی حقوق سے جڑا مسئلہ ہے۔ اس کا پائیدار حل صرف اسی صورت ممکن ہے اگربین الاقوامی ثالثی کو سنجیدگی سے لیا جائے، بشرطیکہ دونوں فریق رضامند ہوں۔کشمیر کے عوام کو فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے۔بھارت اور پاکستان اعتماد سازی کے اقدامات کریں، جیسے قیدیوں کی رہائی، تجارتی راستے کھولنا، اور لائن آف کنٹرول پر سیزفائر کا احترام۔عالمی طاقتیں، خاص طور پر امریکہ اور چین، اس مسئلے کو فوجی نہیں، انسانی اور سیاسی مسئلہ سمجھ کر کردار ادا کریں۔اگرچہ عالمی طاقتوں کی نیت پر ہمیشہ سوال اٹھتے رہے ہیں، لیکن اگر واقعی وار انڈسٹری کی اجارہ داری کو ختم کر کے امن کو فروغ دینا مقصود ہے، تو کشمیر جیسے سلگتے مسئلے کو حل کرنا اس عزم کا پہلا اور سب سے بڑا امتحان ہوگا۔

اسرائیل نے ایران پر بھرپور حملہ کیا ہے۔ تہران اور اصفہان میں متعدد نیوکلئیر سائٹس، چھ فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ پاسداران انقلاب کے چیف ، نیوکلئیر پروگرام کے سابق ڈائریکٹر اور نیوکلئیر سائنسدان سمیت ٹاپ سیکیورٹی لیڈرشپ کو مار دیا ہے۔ ایرانی سپریم لیڈر علی خامنائی صاحب نے اسرائیل کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ علی خامنائی صاحب کا اعلان صرف اعلان نہیں ہوتا وہ فتویٰ ہوتا ہے۔ ایران نے پاک بھارت کشیدگی میں پاکستان کا سفارتی محاذ پر ساتھ دیا تھا۔ان کا سفیر بھارت میں مودی سرکار کو مناتا رہا کہ پاکستان پر حملہ نہ کیا جائے ثبوت شئیر کیے جائیں۔ کیا پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ وہ ایران کا ساتھ دے سکے۔ میرے خیال میں نہیں۔ یہ اسرائیل اور امریکا کے ساتھ ڈائیریکٹ جنگ ہے گو کہ امریکا نے کہا ہے وہ اس میں شامل نہیں ہے اور اس نے اسرائیل کو بھی باز رہنے کا کہا تھا۔ البتہ صدر ٹرمپ نے ابھی کہہ دیا ہے کہ ایران نے جوابی کارروائی کی تو امریکا اپنا اور اسرائیل کا دفاع کرے گا۔

اسرائیل نے میزائلز کے ساتھ جنگی طیارے ایف 35 سے بھی فضائی حملے کیے ہیں۔ ایرانی ائیر ڈیفنس سسٹم ناکام ہوا ہے۔ ظاہر ہے ایران کے پاس جدید سسٹمز نہیں ہیں جو ایف 35 کو کاؤنٹر کر سکیں۔ایران اپنی صلاحیت برابر جو کر سکتا ہے کرے گا اور نتیجتاً ایران پر مزید حملے متوقع ہیں۔اگر امریکی بیڑے یا اڈے کو نشانہ بنایا گیا تو امریکا بھی کود پڑے گا۔ تباہی ایران کی ہو گی۔ طاقت کے استعمال کو طاقت کا توازن ہی روک سکتا ہے جبکہ سب جانتے ہیں ایران ویسی طاقت نہیں رکھتا۔

روس اور چائنہ ایران کی ڈپلومیٹک حمایت کر سکتے ہیں جنگی میدان میں نہیں اتر سکتے۔ اسی طرح پاکستان بھی سفارتی حمایت کر سکتا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔خواہش تو میری بھی یہ ہے کہ اب اگر کام شروع ہو ہی گیا ہے تو کسی بھی طرح ایران اسرائیل کا ٹنٹنا ہی ختم کر دے مگر یہ ناممکن حد تک مشکل ہے۔ یہی گراؤنڈ رئیلٹیز ہیں۔ بظاہر یہی معلوم ہو رہا ہے ایران کا نقصان ہو گیا ہے اور مزید نقصان ہو گا۔

ایران کے پاس کبھی بھی کوئی آپشن نہیں تھی۔ چالیس سے زائد سالوں سے وہ عالمی پابندیوں کی زد میں ہے۔ اسے دنیا میں الگ تھلگ کر دیا گیا تھا۔ نتیجتاً وہ سیکیورٹی سٹیٹ بنتا گیا اور اپنی بقا کے لیے یورینیم کی افزودگی اور جوہری صلاحیت کے حصول کا راستہ اپنانے لگ گیا۔ یہی واحد ملک تھا جو اسرائیل کے ساتھ سینگ پھنسائے ہوئے تھا۔ ایرانی ملٹری ڈاکٹرائن اور ریاستی بیانئیہ ہی اسرائیل کُشی پر مبنیٰ ہے۔ حزب اللہ کی کھُلی اور حماس کی پوشیدہ اسلحہ جاتی و مالی امداد بھی ایران نے جاری رکھی۔ مسلم دنیا میں فلسطین کی آزادی کی پرزور آواز بھی ایران تھا اور ہے۔اس کو کاؤنٹر کرنے کے لیے سب سے پہلے شام میں اسرائیل نے امریکا سے مل کر وہ باب بند کیا جس راستے لبنان، حزب اللہ اور حماس کو مدد پہنچتی تھی۔ اس کے بعد اب اگلا حدف ایران ہی بننا تھا۔
حرف آخر یہ کہ ایران پوائنٹ آف نو ریٹرن پر کھڑا ہے اور اکیلا ہے۔ مقابل دنیا کی طاقتور ترین ریاستیں ہیں۔ دعا ہی کر سکتے ہیں کہ ایرانی عوام اور ایران اس جنگ سے کسی طرح بچ نکلیں۔دماغ یہی کہتا ہے کہ ایران کو دنیا کے لیے مثال بنایا جائے گا کہ جو ہمارے خلاف بولے یا اُٹھے اس کا یہ انجام ہو گا۔ ایرانی ریاست کا مسئلہ امریکا اسرائیل کو ہیڈ آن لینا ہی نہیں تھا بلکہ سعودیہ کی چھتری تلے جمع عرب ممالک کے ساتھ کشیدہ تعلقات اور پراکسی وار بھی ساتھ ساتھ جاری رکھی۔ وہ ایک ساتھ کئی محاذ کھولے ہوئے تھا۔ بات وہی کہ ایران کا مسئلہ بھی دنیا سے کٹ کر سیکیورٹی سٹیٹ بننا تھا۔ عربوں و ترکیہ نے مل کر شام کا راستہ بند کرانے میں کردار ادا کیا نتیجتاً اسرائیل کو محفوظ بنایا اور اب اسرائیل ایران براہ راست جنگ میں ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر سید حمزہ حسیب شاہ ایک تنقیدی مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتے ہیں، خاص طور پر ایشیا اور جغرافیائی سیاست پر توجہ دیتے ہیں۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اردو میں اور علمی اور پالیسی مباحثوں میں فعال طور پر حصہ ڈالتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔